ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے اخراج، بھارتی کرکٹ بورڈ میں انتشار کا پیش خیمہ

1 1,051

تحریر: سلمان غنی، پٹنہ، بھارت

بیرون ممالک مسلسل ناقص کارکردگی کے مظاہروں کے باعث اب کپتان مہندر سنگھ دھونی کے ستارے گردش میں نظر آ رہے ہیں۔ ہر عروج کا ایک زوال ہوتا ہے اور یہ زوال اب دھونی کے شاندار اور تابناک سفر کے راستے میں واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔ شاید اب دھونی کی قسمت میں’’ستاروں سے آگے کا جہاں‘‘ نصیب نہیں۔

مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی کو فی الحال کوئی خطرہ لاحق نہیں (تصویر: ICC)
مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی کو فی الحال کوئی خطرہ لاحق نہیں (تصویر: ICC)

عالمی کپ 2011ء اور پھر آئی پی ایل میں ’’نہنگوں کے نشیمن تہ و بالا‘‘ کر دینے والے کپتان اب قومی کرکٹ ٹیم کے لئے درخشاں نظر نہیں آ رہے۔ عالمی اعزاز کی حصولیابی کے بعد سے اب تک ٹیم انڈیا کے حصے میں سوائے مایوسی کے کچھ نہیں آیا۔ گھریلو میدانوں پر تو قومی ٹیم کسی حد تک اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے لیکن ملک سے باہر ملنے والی ہزیمتیں روز افزوں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ عالمی کپ کے عین بعد انگلستان کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنے کے بعد سال 2012کی ابتدا آسٹریلیائی سرزمین پر ذلت و رسوائی کے ساتھ ہوئی۔ دونوں ہی ممالک میں بھارتی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ میچوں میں کلین سویپ کی مار جھیلنا پڑی۔ لیکن المیہ یہ کہ ایک روزہ میچوں کے عالمی چمپئن 50 اوورز کے کھیل میں بھی قابل ذکر کارکردگی پیش کرنے سے قاصر رہے اور ایشیا کپ جیسے اہم ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم کے ہاتھوں پٹ کر فائنل سے قبل ہی سوئے وطن روانہ ہو گئے۔

اب دوسرے سب سے بڑے عالمی اعزاز یعنی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے بھی ٹیم انڈیا خطاب کی مضبوط دعویدار تھی۔ سری لنکا کی پچیں اسپن گیند بازوں کے لئے سازگار تھیں ساتھ ہی مختصر طرز کی کرکٹ پر بھارتی کھلاڑیوں کی آئی پی ایل کے میچوں میں اچھی زور آزمائی ہو چکی تھی۔ جس کی وجہ سے اس بات کا قوی امکان تھا کہ ٹیم انڈیا سال 2007ء کی تاریخ ایک د فعہ پھر رقم کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں بھی قسمت قومی ٹیم کا ساتھ نہ دے سکی۔ روایتی حریف پاکستان اور جنوبی افریقہ کو شکست دینے کے باوجود ہی بھارتی سورماؤں کو سپر 8-مرحلے تک کی رسائی پر ہی اکتفا کر لینا پڑا۔ گو کہ مجموعی اعتبار سے ٹیم انڈیا نے اپنا بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن کپتان مہندر سنگھ دھونی اور کوچ ڈنکن فلیچر کے چند ناقص فیصلے یقینی طور پر اس ناکامی کا سبب ثابت ہوئے۔ سہواگ کو ٹیم میں شامل نہ کیا جانا،اسپن کے لئے مددگار پچوں پر تین تیز گیند بازوں کے ساتھ کھیلنا اور ہربھجن سنگھ کو موقع نہ دینا یہ اور ایسے ہی چند مزید ناقابل فہم اقدام تھے جو یقیناً مہندر سنگھ دھونی اور ڈنکن فلیچر کے لئے درد سر بن سکتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فی الحال کپتان مہندر سنگھ دھونی کا کوئی متبادل ٹیم میں موجود نہیں۔ لیکن کوچ ڈنکن فلیچر کے ساتھ ہی دھونی کی قسمت کے فیصلے کیا ہوں گے؟ اس بات کا موضوع بحث بننا ان ناکامیوں کا لازمی نتیجہ ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کم از کم مہندر سنگھ دھونی کی کپتانی کو فی الحال کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کی سب سے زور آور شخصیت یعنی جناب این سرینی واسن کی خاص نظر التفات دھونی پر ہے۔ جب تک دھونی ان کی ٹیم یعنی چنئی سپر کنگز کے کپتان ہیں بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر ان کا دفاع کرتے رہیں گے خواہ انگلستان اور اسٹریلیا میں ملنے والی رسوائیوں کا کتنا بھی اعادہ کیا جاتارہے۔

گزشتہ دنوں روزنامہ’’ ہندوستان ٹائمز‘‘ کے لئے اپنے کالم میں پردیپ میگزین، جو ایک سنجیدہ اور بے باک مبصر کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سابق بلے باز مہندر امرناتھ انتخابی کمیٹی کے چیئرمین کے لئے مضبوط دعویدار تھے۔ لیکن انہیں سرے سے سلیکٹرز کے پینل میں ہی شامل نہ ہونے دیا گیا۔ پردیپ ا س کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مہندر امرناتھ بلا کسی خوف کے اپنی بات دو ٹوک اور بے باکانہ انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے اس وقت انہوں نے سلیکٹرز کو"Bunch of Jokers" کہہ ڈالا تھا۔ بورڈ کے موجود ہ صدر این سرینی واسن شاید اسی وجہ سے ایک ایسے شخص کے راستے میں حائل ہیں جس کی شمولیت کرکٹ بورڈ اور انتخابی کمیٹی میں ان کی اجارہ داری میں رخنہ بن سکتی ہے۔ اس سے قبل آئی پی ایل کے سابق چیئر مین للت مودی بھی سرینی واسن پر سخت اعتراض کرچکے ہیں۔ بھارتی کرکٹ بورڈ اور سہارا کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کے بعد للت مودی نے اپنے بلاگ پر بھارتی بورڈ کے صدر کے خلاف جم کر اپنی بھڑاس نکالی تھی۔

دھونی کپتانی کے اہل رہے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ذاتی مفاد کے لئے کسی شخص ِ خاص کی طرفداری یقینی طور پر ٹیم کے حق میں نہیں ہو سکتی۔ بورڈ کے صدر کے خلاف وقتاً فوقتاً اٹھنے والی آوازیں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ ان خبروں میں اگر واقعی سچائی ہے تو یہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسے داخلی انتشار کا پیش خیمہ ہے جو کسی بھی ٹیم کو پوری قوت کے ساتھ زوال کی اتھاہ گہرئیوں میں دھکیل سکتا ہے۔