چیمپئنز لیگ 2012ء: سیالکوٹ کا سفر صرف ایک مقابلے میں ختم

3 1,082

سالوں تک چیمپئنز لیگ ٹی ٹوئنٹی میں عدم شمولیت پر مظلومیت کا رونا رونے کے بعد قومی چیمپئن سیالکوٹ اسٹالینز کو جب خود کو منوانے کا سنہری موقع ملا تو ناقص ترین کارکردگی کے مظاہرے نے عالمی سفر کو محض ایک میچ میں ہی ختم کر دیا۔

کوالیفائنگ راؤنڈ میں آکلینڈ ایسز کے خلاف بدترین شکست کے بعد جس امر کا خدشہ تھا، بالآخر وہ گزشتہ شب آکلینڈ کی ہمپشائر کے خلاف فتح کے باعث حقیقت ثابت ہوا اور تین ٹیموں کے گروپ میں سے آکلینڈ نے مسلسل دو فتوحات کے ساتھ چیمپئنز لیگ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے لیے کوالیفائی کر لیا اور یوں سیالکوٹ اسٹالینز ناکام و نامراد وطن واپس لوٹے گی۔

سیالکوٹ نے سالوں کے انتظار کے بعد ملنے والا موقع ہاتھوں سے گنوا دیا (تصویر: AFP)
سیالکوٹ نے سالوں کے انتظار کے بعد ملنے والا موقع ہاتھوں سے گنوا دیا (تصویر: AFP)

2008ء میں ممبئی دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان و بھارت کے کرکٹ تعلقات منقطع ہوئے تو اس کا اثر انڈین پریمیئر لیگ کے ساتھ ساتھ چیمپئنز لیگ پر بھی پڑا۔ پاکستان کی قومی چیمپئن سیالکوٹ کو دنیا بھر کی اہم کرکٹ لیگز کی چیمپئن ٹیموں کے ساتھ کھیلنے سے اس لیے محروم رکھا گیا کیونکہ چیمپئنز لیگ بھارت، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی مشترکہ ملکیت ہے اور بھارت کے اعتراض کے باعث آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو بھی ”پر مارنے“ کی جرات نہ تھی کہ وہ اعتراض کرتے۔ لیکن رواں سال مئی میں بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ تعلقات کی بحالی کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان میں سی ایل ٹی ٹوئنٹی میں پاکستانی ٹیم کی شمولیت پر اعتراض واپس لینا بھی شامل تھا اور یوں سیالکوٹ اسٹالینز کے عالمی منظرنامے پر ابھرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ گو کہ 2008ء کے سی ایل ٹی ٹوئنٹی میں سیالکوٹ اسٹالینز کو مدعو کیا گیا تھا لیکن عین موقع پر ممبئی میں دہشت گرد حملوں کے باعث اس کا راستہ سالوں کے لیے بند ہو گیا۔ لیکن اب اک ایسا موقع سیالکوٹ کے ہاتھ لگا، جس کے لیے قومی چیمپئن ٹیم سالوں سے منتظر تھی۔ تاکہ وہ ثابت کرے کہ پاکستان کو محروم رکھ کے کتنی بڑی غلطی کی گئی۔

لیکن سیالکوٹ عالمی منظرنامے پر خود کو منوانے کا سنہری موقع اپنے ہاتھوں ضایع کر ڈالا۔ آکلینڈ ایسز کے خلاف پہلے ہی مقابلے میں اس نے جس طرح بدترین انداز میں شکست کھائی اور پھر آکلینڈ کی ہمپشائر کے خلاف فتح کے ساتھ ہی جس طرح کوالیفائنگ راؤنڈ ہی سے باہر ہو گئی، اس نے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔ کم از کم پاکستانی شائقین پر تو بالکل نہیں کہ جو شدت کے ساتھ سیالکوٹ کو مین راؤنڈ کھیلتے دیکھنے کے منتظر تھے۔ اب ان کی حسرتیں ”بن کھلے مرجھا چکی ہیں۔“

آکلینڈ ایسز کے خلاف اپنے پہلے میچ میں نہ صرف اسٹالینز کی بلے بازی بلکہ باؤلنگ بھی بری طرح ناکام ہوئی۔ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اسکور بورڈ پر صرف 130 رنز کا مجموعہ اکٹھا کرنا اور پھر حریف ٹیم کے صرف چار کھلاڑی آؤٹ کر پانے کے باعث آدھا فیصلہ تو وینڈررز اسٹیڈیم ہی میں ہو گیا تھا کہ سیالکوٹ کو 6 وکٹوں کی بھاری شکست کے باعث ملنے والا بدترین نیٹ رن ریٹ واپسی کی ٹکٹیں پکڑوائے گا۔ پھر گزشتہ شب آکلینڈ کی ہمپشائر کے خلاف ایک اور فتح نے اس خدشے پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔

سیالکوٹ کا تکیہ اپنے بین الاقوامی تجربے کے حامل کپتان اور کھلاڑیوں پر تھا لیکن سب ہی ناکام ہوئے۔ عمران نذیر سے صرف 17، شعی؛ب ملک نے 19 اور رانا نوید الحسن نے صرف 19 رنز بنائے جبکہ باؤلنگ میں نوید الحسن صرف ایک اور رضا حسن کوئی وکٹ حاصل نہ کر پائے جبکہ شعیب ملک نےتو گیند کو ہاتھ ہی نہ لگایا۔

اس بدترین ناکامی کے بعد گو کہ آج ہونے والے ہمپشائر-سیالکوٹ معرکے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، اور فتح و شکست سے قطع نظر دونوں ٹیموں کو وطن واپسی کی راہ لینا پڑے گی، لیکن اگر ملک الیون کو اپنی رہی سہی عزت بچانی ہے تو انہیں آج ہمپشائر کے خلاف کچھ کر دکھانا ہوگا ورنہ ناقدین کا یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسی وجہ سے پاکستان کی ٹیم کو آج تک چیمپئنز لیگ میں کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔