ڈین جونز پاکستان کا جز وقتی بیٹنگ کوچ بننے کے لیے تیار

0 1,025

طویل غور و فکر کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے چند ہفتے قبل قومی کرکٹ ٹیم کے لیے کل وقتی بیٹنگ کوچ کے حصول کے لیے اشتہار دیا۔ آج یعنی 4 نومبر اس آسامی کے لیے درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے ۔ حال ہی میں آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران جاوید میانداد کی بلے بازوں کے لیے مشاورت کے بعد اب باقاعدہ بیٹنگ کوچ کی تقرری پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کی ٹیم کو پیشہ ورانہ انداز میں لے کر آگے چلنے کی پالیسی کی عکاس ہے۔

ڈین جونز کے خیال میں کل وقتی بیٹنگ کوچ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں (تصویر: Getty Images)
ڈین جونز کے خیال میں کل وقتی بیٹنگ کوچ کی سرے سے ضرورت ہی نہیں (تصویر: Getty Images)

اس حوالے سے معروف ویب سائٹ پاک پیشن ڈاٹ نیٹ نے آسٹریلیا کے سابق بلے باز اور موجودہ تجزیہ کار ڈین جونز سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے بیٹنگ کوچ کے لیے درخواست جمع نہیں کروائی ہے کیونکہ وہ کل وقتی نہیں بلکہ جز وقتی بنیادوں پر پاکستانی بلے بازوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ڈین جونز گزشتہ سال پاکستان کے ہیڈ کوچ کے لیے امیدواروں میں شامل تھے لیکن قرعہ فال ڈیو واٹمور کے نام نکلا اور ڈین جونز کو تمام تر خواہش کے باوجود یہ عہدہ نہیں مل سکا۔ اب جبکہ وہ ساؤتھ آسٹریلیا کے بیٹنگ کوچ ہیں اور بنگلہ دیش اور سری لنکا کی پریمیئر لیگز میں کوچنگ کی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ اپنے پاس اتنا وقت نہیں پاتے کہ پاکستان کے لیے کل وقتی خدمات انجام دے پائیں۔

ڈین جونز نے کہا کہ متعدد پاکستانی کھلاڑیوں نے سری لنکن پریمیئر لیگ کے دوران ان سے مدد مانگی تھی اور انہیں مشورے اور رہنمائی فراہم کر کے بہت زیادہ خوشی ہوئی۔ سب جانتے ہیں کہ میں پاکستانی کھلاڑیوں کا بڑا مداح ہوں اور یہاں آنا پسند کرتا ہے اور اگر جز وقتی بنیادوں پر بیٹنگ کوچ کے عہدے پر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو میں ضرور اس پر غور کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کل وقتی کوچ کے لیے اشتہار دیا تھا، اس لیے میں نے درخواست نہیں جمع کروائی کیونکہ میں کل وقتی کردار نہیں نبھا پاؤں گا۔

انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی کل وقتی بنیادوں پر بیٹنگ کوچ کی تقرری کی سوچ پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ جز وقتی بنیادوں پر اسے موثر انداز میں نبھایا جا سکتاہے۔ ”میرا نہیں خیال کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہر سیریز میں ایک کل وقتی بیٹنگ کوچ کی ضرورت ہے، چاہے وہ ٹیسٹ سیریز ہو یا محدود اوورز کی سیریز۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ایسے بیٹنگ کوچ کی ضرورت ہے جو سیریز کے آغاز سے قبل ان کے ساتھ کام کرے اور حکمت عملی مرتب کرے۔ گالف کے کھلاڑیوں کو ہمہ وقت کوچ کی ضرورت نہیں ہوتی اور میں نہیں سمجھتا کہ بلے بازوں کو بھی ایسے کسی ساتھی کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔ پھر یہ جدید زمانہ ہے، اگر کسی کھلاڑی کوئی مسئلہ درپیش ہے تو وہ بذریعہ فون یا ای میل رابطہ کر سکتا ہے۔“

ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط کیریئر کے دوران 18 ٹیسٹ سنچریاں بنانے والے ڈین جونز نے مزید کہا کہ بیٹنگ کوچ سیریز کے اختتام پر تجزیہ کر سکتا ہے کہ کھلاڑیوں نے کتنی اچھی کارکردگی دکھائی اور بہتری کے امکانات کن کن شعبوں میں ہیں اور یوں اس کے ذریعے مستقبل میں بلے بازوں کے لیے حکمت عملی ترتیب دے۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کو اس کے لیے کوچ کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ایک ٹیسٹ میچ کے دوران آپ کو کیسے بیٹنگ کرنی ہے۔ مجھے ٹیسٹ میچ یا سیریز کے دوران یہ سمجھنےکے لیے کہ مجھے کس طرح بلے بازی کرنی ہے، کبھی کسی کوچ کی ضرورت نہیں پڑی اور اگر آپ ماضی پرنظر دوڑائیں تو کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین کھلاڑیوں کو بھی کوچ کی ضرورت نہیں رہی۔ بیٹنگ کوچ اس صورت میں موثر ہوتا ہے جب چند کھلاڑیوں کو کسی سیریز کے حوالے سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کہ انہیں چند مخصوص باؤلرز کو کیسے کھیلنا ہے۔

پاکستان کے سابق بلے باز اور ماضی میں طویل پابندی کا شکار رہنے والے سلیم ملک اب تک بیٹنگ کوچ کے عہدے کے لیے واحد تصدیق شدہ امیدوار ہیں، گو کہ اسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ سابق کپتان ظہیر عباس نے بھی عہدے کے لیے درخواست دی ہے۔ ان درخواستوں پر ایک ذمہ دار کمیٹی غور کرے گی جو انتخاب عالم، کرنل نوشاد علی اور رمیز راجہ پر مشتمل ہے۔