عمر اکمل اپنے کیرئیر کے درپے کیوں؟

3 1,025

کل پریزیڈنٹ ٹرافی کے چھٹے راؤنڈ میں سوئی ناردرن گیس کی انتظامیہ نے پی آئی اے کے خلاف میچ میں عمر اکمل کو فائنل الیون میں جگہ نہ دی جس کے بعد نوجوان بیٹسمین نہ صرف میدان چھوڑکر چلا گیا بلکہ اس نے ٹیم انتظامیہ اور کوچ باسط علی کے خلاف ایک پریس کانفرنس بھی کرڈالی اور اس خبر کو تمام اخبارات نے مرچ مسالہ لگاکر بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔عمر اکمل کو کیوں ڈراپ کیا گیا؟ اس کی اصل وجہ عمر اکمل سمیت کسی نے جاننے کی کوشش نہ کی بلکہ لگ بھگ تمام اخبارات نے ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی سنسنی خیز سرخیاں جمائی کہ عمر اکمل اور باسط علی میں ٹھن گئی،سوئی ناردرن گیس نے خراب فارم کے سبب عمر اکمل کو ٹیم سے نکال دیا اور کسی نے یہ بھی لکھ دیا کہ باسط علی نے عمر اکمل کو کلب کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دے دیا۔

عمر اکمل کے دماغ میں ابتداء سے ہی یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ وہ سب سے زیادہ باصلاحیت بیٹسمین اور پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہے (تصویر: AP)
عمر اکمل کے دماغ میں ابتداء سے ہی یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ وہ سب سے زیادہ باصلاحیت بیٹسمین اور پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہے (تصویر: AP)

ہمارے میڈیا کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی خبر کی تحقیق کرنے کی بجائے محض سنی سنائی باتوں کو بنیاد بنا کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے اور واقعات کو اصل ماخذ سے ہٹ کر توڑ مروڑ کر پیش کرنے بھی ہمارے صحافی دوست سب سے آگے ہے جس کے بعد غیر ملکی میڈیا بھی ہمارا مذاق اڑاتا ہے۔

آج صبح قذافی اسٹیڈیم میں میچ کے آغاز سے قبل اس موضوع پر میری باسط علی سے تفصیلی بات ہوئی اور سوئی ناردرن گیس کے کوچ نے سختی سے اس بات کی تردید کی عمر اکمل کو ٹیم سے ڈراپ کرنا ان کا ذاتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ کپتان مصباح الحق، محمد حفیظ اور باسط علی سمیت پانچ رکنی ٹیم مینجمنٹ نے متفقہ طور پر عمر اکمل کو باہر بٹھانے کا فیصلہ کیا ۔کچھ ویب سائٹس نے یہ ’’انکشاف‘‘ بھی کیا کہ محمد حفیظ نے ’’ذاتی رنجش‘‘ کی وجہ سے عمر اکمل کو ٹیم سے ڈراپ کروایا ۔جن عقل کے اندھوں کو اتنا نہیں معلوم کہ محمد حفیظ سوئی ناردرن گیس کا کپتان نہیں ہے جو اس طرح کا فیصلہ کرسکے انہیں یہ تو بالکل بھی نہیں پتہ ہوگا کہ چار سیزن قبل جب عمر اکمل کو لاہور کی ٹیم فرسٹ کلاس کرکٹ کھلانے کی روادار نہ تھی اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے دروازے بھی اس باصلاحیت بیٹسمین پر بند تھے تو ایسے وقت میں محمد حفیظ نے اپنی کپتانی میں عمر اکمل کو سوئی ناردرن گیس کی طرف سے کھلانے کا ’’خطرہ ‘‘ مول لیا اور پہلے ہی سیزن میں رنز کے انبار لگا کرعمر اکمل نے خود کو قومی ٹیم کے قریب کرلیا جبکہ جس کارکردگی نے عمر اکمل کو قومی ٹیم میں شامل کروایا وہ پاکستان اے کی طرف سے آسٹریلیا کے ٹور پر اسکور کی گئی دو مسلسل سنچریاں تھیں اور اتفاق سے اس ٹور پر بھی عمر اکمل کا کپتان کوئی اور نہیں محمد حفیظ ہی تھا!

تقریباً تمام ہی اخباروں نے یہ ’’دعویٰ‘‘ کیا ہے کہ عمر اکمل کو ناقص فارم کی وجہ سے باہر بٹھایا گیا ہے تو ایسے دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ بغیر کھیلے عمر اکمل کی فارم کیسے خراب ہوگئی؟اگر ٹی20ورلڈ کپ کی بات کریں تو وہاں عمر اکمل کی کارکردگی دیگر کئی بیٹسمینوں کے مقابلے میں بہتر تھی جس نے جنوبی افریقہ کے خلاف ایک ہارے ہوئے میچ میں پاکستان کو کامیابی دلوائی تھی۔اس کے علاوہ کراچی میں ورلڈ الیون کے خلاف دو نمائشی میچز میں بھی عمر اکمل کا بیٹ بول رہا تھا اور ہانگ کانگ سکسز میں بھی ’’عمو‘‘ کی کارکردگی نمایاں تھی اور تو اور نیشنل بنک کے خلاف پریزیڈنٹ ٹرافی کے جس واحد میچ میں عمر اکمل نے شرکت کی اس میں بھی نوجوان بیٹسمین نے 40اور 48رنز کی باریاں کھیلیں۔اس لیے یہ کہنا کہ عمر اکمل کو خراب فارم کے باعث کرتے ہوئے کلب کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دیا گیا ہے نہایت ہی بھونڈا جواز ہے۔

سوئی ناردرن گیس کے کوچ باسط علی کے مطابق عمر اکمل کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹیم سے باہر کیا گیا جس کے بارے میں سابق ٹیسٹ بیٹسمین کا کہنا تھا کہ ’’زرعی بینک کے خلاف اہم میچ میں ہمیں عمر اکمل کی ضرورت تھی جو 2تا5نومبر تک کھیلا گیا ۔میں عمر اکمل کو فون کرتا رہا مگر اس نے میرا فون نہیں اٹھایا جس کے بعد مینیجر کے فون کرنے پر اس نے کہا کہ وہ اپنی دستیابی کے بارے میں رات کو بتائے گا مگر اس کے بعد عمر اکمل نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔اب ٹیم کو اس کی ضرورت نہیں ہے اس لیے اسے باہر بٹھایا گیا ہے‘‘باسط علی خود بھی عمر اکمل کی صلاحیتوں کے معترف ہیں جو ماضی میں عمر اکمل کی حمایت کرتے رہے ہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ ڈسپلن پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔میچ کی صبح عمر اکمل نے میدان میں آکر مصباح الحق سے پوچھا کہ اس کا نام فائنل الیون میں شامل ہے یا نہیں اور جب مصباح نے یہ بتایا کہ پچھلے میچ والی ٹیم ہی کھیلے گی تو عمر اکمل اپنا سامان اٹھا کر گھر چلا گیا۔عمر اکمل کا موقف ہے کہ اس نے اپنے بھائی عدنان اکمل کی شادی کی تیاریوں کیلئے گزشتہ میچزنہیں کھیلے اور جب وہ کھیلنا چاہتا تھا تو ٹیم مینجمنٹ نے اسے ڈراپ کردیا ۔عمر کا بڑا بھائی کامران اکمل بھی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھا مگر سینئر وکٹ کیپر نے 6 نومبر کو مہندی کی تقریب سے پہلے 2تا5 نومبر والا میچ بھی کھیلا ۔باسط علی نے بھی یہی نقطہ اٹھایا کہ اگر کامران اکمل شادی سے چند دن قبل ٹرافی کے میچز کھیل سکتا ہے تو پھر عمر اکمل کو ایسا کرنے میں کیا قباحت تھی جسے یہ ضمانت بھی دی گئی تھی کہ میچ ختم ہونے کے فوری بعد اسے بذریعہ جہاز واپس لاہور بھیج دیا جائے گا۔

عمر اکمل پاکستان کا سب سے زیادہ باصلاحیت نوجوان بیٹسمین ہے اور ٹیلنٹ کے حوالے سے کوئی بھی نوجوان بیٹسمین عمر اکمل کا عشر عشیر بھی نہیں، مگر صلاحیتوں کے حوالے سے مالا مال اس بیٹسمین کو شاید اپنا کیرئیر عزیز نہیں ہے جو ہر دن کسی نہ کسی تنازع میں الجھ کر اپنے کیرئیر کو تباہ کررہا ہے اور دوسرے بیٹسمین زیادہ محنت کرکے عمر اکمل کو پیچھے چھوڑتے جارہے ہیں جبکہ عمر اکمل اپنی خامیاں دور کرنے کی بجائے ساری توجہ دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے پرمرکوز کیے ہوئے ہے۔

ڈیبیو پر سنچری کے ساتھ کیرئیر کا آغاز کرنے والے عمر اکمل کے دماغ میں ابتدا سے ہی یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ وہ سب سے زیادہ باصلاحیت بیٹسمین اور پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہے۔ سابق ٹیسٹ اوپنر اور حالیہ کمنٹریٹر کی اس ’’پیش گوئی‘‘ نے بھی عمر اکمل کے کیرئیر کو نقصان پہنچایا ہے جو خود کو پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا سپر اسٹار سمجھ رہا ہے جسے مستقبل میں کپتانی کا خواب دکھانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔

عمر اکمل اس وقت ٹیسٹ ٹیم کا حصہ نہیں ہے اور اس کا راستہ اسد شفیق اور اظہر علی جیسے بیٹسمینوں نے اپنی پرفارمنس سے روکا ہوا ہے ۔پریزیڈنٹ ٹرافی عمر اکمل کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ ملک کے بہترین بالرز کے خلاف کارکردگی دکھا کر ٹیسٹ ٹیم میں واپسی کا جواز پیدا کرتا مگر بھائی کی شادی کی ’’تیاریوں‘‘ کے باعث عمر اکمل نے یہ موقع گنوادیا۔عمر اکمل کو کوئی دوسرا نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ باصلاحیت بیٹسمین خود اپنے کیرئیر کے درپے ہے جسے ساتویں آسمان پر بیٹھنے کی بجائے زمین پر قدم جما کر آسمان چھونے کی کوشش کرنا چاہیے!

لکھاری کا تعارف:
فرحان نثار کرکٹ پر مشہور لکھاری ہیں۔ آپ مؤقر قومی جرائد سے وابستہ رہے ہیں۔ 2006ء میں ماہنامہ کرکٹر میں شمولیت اختیار کی اور 2010ء میں مدیر کے عہدے تک پہنچے جبکہ 2008ء تا 2011ء ماہنامہ اخبار وطن کے لیے بھی لکھتے رہے۔ آجکل کراچی سے شایع ہونے والے جریدے اسپورٹس لنک سے منسلک ہیں۔ ان کا فیس بک پروفائل ملاحظہ کیجے۔