دورۂ بھارت، ”کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے“ تو ثابت نہ ہوگا؟
بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں کرکٹ کے کھیل سے منسلک کھلاڑی بھی کسی سے مختلف نہیں تاہم پاکستان کا معاملہ اس حوالے سے اچھوتا ہے کہ یہاں پروان چڑھتے کرکٹرز دیگر ممالک کی نسبت بھارت سے ہونے والے مقابلوں میں حصے لینے کو ایک انمول تجربہ خیال کرتے ہیں، اور یہ صورتحال پاکستان میں صرف کرکٹ کے کھیل تک محدود نہیں اور نہ ہی یہ جذبات کھلاڑیوں کی حد تک ہی پائے جاتے ہیں، بلکہ شائقین کھیل سے پوچھا جائے تو وہ بھی پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والوں دیگر کھیلوں کو کرکٹ مقابلوں کے برابر اہمیت کے لائق تسلیم نہیں کرتے۔
خیر، مقبولیت کے اعتبار سے کرکٹ کی دیگر کھیلوں پر برتری اس تحریر کا موضوع نہیں ہے، بلکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ سیریز کے انعقاد کے اعلان کے بعد سے اٹھنےوالی وہ آوازیں ہیں جو ہر سمت سے آرہی ہیں۔ کوئی اس کو برصغیر میں کرکٹ کے فروغ کا ضامن قرار دے رہا ہے تو دوسری جانب کھیل کے ذریعے دونوں پڑوسی ممالک کو قریب لانے کی آرزو ظاہر کی جارہی ہے۔ حقیقت میں رواں ماہ شروع ہونےوالی سیریز کے دور رس نتائج کا اندازہ تین ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی کی سیریز کے اختتام پر ہی ہوگا، تاہم ماضی کے عین مطابق اس مرتبہ بھی امیدیں کچھ کم نہیں ہیں۔
دونوں پڑوسی ممالک کے مابین تعلقات میں تناؤ کی داستان بھی نئی نہیں اور ماضی میں کھیلوں کے باہمی روابط کی بنتی بگڑتی صورتحال بھی، تو پھر یہ کہنا کہ کھیل کو سیاست سے جدا رہنا چاہئے کس حد تک ممکن ہے؟ ان دونوں ممالک کے حوالے سے تو جواب 100 فیصد نفی میں ہے، کیوں پاکستان اور بھارت کے مابین سیاست دانوں اور حکمرانوں کے عمل دخل کے بغیر کھیل روابط کی بحالی ناممکن دکھائی دیتی ہے۔
ماضی میں دونوں پڑوسی ممالک نے متعدد مواقع پر نازک صورتحال میں تناؤ کو کم کرنے کے لئے باہمی مقابلوں کا ہی سہارا لیا اور یہاں سے ایک نئی اصطلاح ۔ کرکٹ ڈپلومیسی ۔ کا ظہور ہوا۔
پاکستان کے سابق صدر ضیاء الحق 1987ء میں پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے بھارتی شہر جے پور پہنچ گئے تاکہ سرحدوں پر جاری کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔ بعد ازاں 1989ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں ممالک کے تعلقات تعطل کا شکار ہوگئے۔
پندرہ سالہ طویل انتظار کے بعد بالآخر 2004ء میں بھارتی ٹیم ایک مرتبہ پھر پاکستان پہنچی مگر ایک برس بعد ہی کشمیر کے بارڈر پر جاری کشیدگی کم کرنے کے لئے اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف دہلی میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ہمراہ پاک بھارت میچ کے موقع پر موجود تھے۔ حال ہی میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے موہالی میں کھیلے گئے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں پاک بھارت ٹیموں کو اپنے بھارتی ہم منصب کے ہمراہ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر دیکھا۔ ان چند مثالوں کی روشنی میں پڑوسی ممالک کے درمیان کرکٹ مقابلوں اور ان میں سیاسی عمل دخل کو بخوبی ادراک ہوتا ہے۔
سوال اس مرتبہ بھی یہی ہے، کیا دسمبر سے شروع ہونےوالی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز کے بعد صورتحال میں تبدیلی آئے گی؟ کیا پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ مقابلے تواتر سے منعقد ہوں گے؟ دونوں ہی سوالات کے جوابات مبہم ہیں مگر یہاں ایک اور سوال بھی سر اٹھاتا ہے جس کا تعلق اس تاثر سے ہے کہ مذکورہ پاک بھارت سیریز کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کا رویہ حد سے زیادہ لچکدار ہے۔
اصولی بات کی جائے تو 2007ء کے دورۂ بھارت کے بعد پاکستان کو بھارت کے دورے کے بجائے پڑوسی ملک کی میزبانی کرنا چاہیے تھی، مگر گذشتہ پانچ برسوں میں حالات و واقعات کو اس نہج پر جاپہنچے ہیں کہ پاکستان کے لئے بھارت کو دورے پر راضی کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ عہدیداروں کی کوششیں سے بھارت کی جانب سے فارغ وقت میں پاکستان کے خلاف مختصر سیریز کی آمادگی ظاہر کی گئی جو بہرحال خوش آئند ضرور ہے تاہم اس پر امیدوں کے طویل پل باندھنا کسی طور مناسب نہیں۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف سیریز کے لئے علیحدہ انتظامات نہیں کئے، انگلش ٹیم بھارت کے خلاف ٹیسٹ میچز میں شرکت کے بعد کرسمس اور نئے سال کی چھٹیاں منانے اپنے وطن لوٹے گی اور اس کی بھارتی واپسی تک پاکستانی ٹیم بھارت کی مہمان بنے گی۔ اس سیریز سے دیگر مدوں میں ہونے والی آمدنی میں بھی پاکستان کا حصہ نہیں ہوگا، مگر پی سی بی انتظامیہ محض اس امر پر خوش ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ یہاں اوپر بیان کردہ اصول کی بات کی جائے تو بھارتی ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے تھا جوممبئی حملوں کے بعد سے تعطل کا شکار ہے۔ بہرحال پاکستان اور بھارت کے مابین سیریز کے انعقاد کے بعد کیا بھارت جوابی دورہ کرے گا، کیا پاکستان کے کھلاڑیوں کو انڈین پریمیئر لیگ میں شامل کیا جائےگا، یہ سوالات توجہ طلب ہیں اور ان ہی جوابات کی روشنی میں قومی ٹیم کے دورہ بھارت کے اصل منافع کا تعین کیا جاسکے گا۔
دونوں ممالک کے مابین تناؤ کی صورتحال پر معمول پر آ رہی ہے تو ایک عجیب امر سامنے آ رہا ہے۔ سابق پاکستانی کرکٹرز بھارت میں ہاتھوں ہاتھ لیے جا رہے ہیں۔ وسیم اکرم اور رمیز راجہ کا بھارت جانا معمول ہے، جبکہ سابق کپتان عمران خان بھی کرکٹ پر تبصروں کے لئے وہاں مدعو کئے جاتے ہیں۔ مذکورہ پاک بھارت سیریز میں بھی اطلاعات کے مطابق بھارتی ٹی وی چینلز نے ظہیر عباس، محسن خان اور شعیب اختر سمیت کئی پاکستانی کھلاڑیوں سے معاہدے کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں جہاں بھارتی میڈیا انڈسٹری کو بھاری مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے، وہاں ان کے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
قومی ٹیم کے پڑوسی ملک جانے کے اخراجات کے علاوہ بھارتی حکومت نے پی سی بی کی درخواست پر 300 وی آئی پی ویزے جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مطلب یہ کہ دورہ بھارت کے باعث کرکٹ بورڈ کے خزانے پر اچھا خاصا بوجھ پڑے گا، جس کی کسی حد تک تلافی کے لئے مستقبل میں کمائی کے موثر ذرائع کی تلاش بھی کرکٹ بورڈ کے لئے کڑے امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔
اس تمام صورتحال کی روشنی میں آنے والے دورے کے بعد بھی دونوں ممالک کےکرکٹ روابط میں بہتری کی امید نظر نہیں آتی، اور چلتے چلتے ایک آخری بات یہ کہ جوابی دورہ یا آئی پی ایل کے معاملات پر بات آگے نہ بڑھ سکے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کم از کم آئندہ برس پاکستان میں ہونےوالی پریمیئر لیگ میں ہی کچھ بھارتی کھلاڑیوں کا پروانہ حاصل کرلے۔
اگر یہ سب نہ ہوا تو قومی ٹیم کی بھارت یاترا "کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے" کے مترادف ہوگی۔
لکھاری کا تعارف: محمد آصف خان معروف چینل نیوز ون میں شعبہ کھیل کے سربراہ ہیں اور انگریزی روزنامے دی نیوز کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ آپ اپنے خیالات کا اظہار ٹوئٹر پر بھی کرتے ہیں۔