دھونی کے بعد بھارت کا نیا کپتان کون؟

0 1,038

انگلستان کے ہاتھوں تاریخی شکست کے ساتھ ہی وہ ہنگامہ برپا ہو گیا، جس کا خدشہ تھا، یعنی مہندر سنگھ دھونی کی قیادت پر چہار سو انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ ڈوبتی کشتی میں سے تو اب وہ سوار بھی اترنے لگے ہیں، جنہیں تیرنا نہیں آتا اور وہ تمام با اثر شخصیات جو ماضی میں برے سے برے حالات میں دھونی کی حمایت پر کمربستہ رہتی تھیں، اب یا تو کھلے بندوں ان کو ہٹانے کی باتیں کر رہی ہیں یا پھر خاموش ہیں۔

ناگپور میں کوہلی کی سنچری نے گاوسکر کو قائل کر لیا ہے کہ ویراٹ کو ہی نیا کپتان بنانا چاہیے۔ یوں دھونی اپنے تمام اہم حامیوں کو کھو کر پس منظر میں چلے گئے ہیں (تصویر: BCCI)
ناگپور میں کوہلی کی سنچری نے گاوسکر کو قائل کر لیا ہے کہ ویراٹ کو ہی نیا کپتان بنانا چاہیے۔ یوں دھونی اپنے تمام اہم حامیوں کو کھو کر پس منظر میں چلے گئے ہیں (تصویر: BCCI)

بہرحال، دھونی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ مسلسل ڈیڑھ سال کی بدترین کارکردگی کے باوجود وہ ابھی تک کپتان کی حیثیت سے برقرار رہے ہیں، ورنہ ماضی میں ہندوستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ اجیت واڈیکر، جنہوں نے مسلسل تین ٹیسٹ سیریز جتوائیں، جن میں انگلستان اور ویسٹ انڈیز کے خلاف انہی کے ملکوں میں تاریخی فتوحات بھی شامل تھیں، محض ایک سیریز میں 0-3 کی شکست کی مار ثابت ہوئے، جب 1974ء میں انگلستان سے ہارے اور ان سے قیادت چھن گئی۔ یہی حال بشن سنگھ بیدی سے لے کر کپل دیو اور سنیل گاوسکر تک تمام کپتانوں کا رہا، جن میں سے کسی کی بھی بورڈ نے رسی اتنی دراز نہیں کی جتنی کہ دھونی کی گئی ہے۔

آسٹریلیا اور انگلستان کے خلاف ایسی سیریز شکستیں، جن کی توقع ہر گز بھارت جیسی ٹیم سے نہ تھی، دھونی کو قیادت سے نہ ہٹا سکیں۔ یہاں تک کہ نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز جیسی ٹیموں کے خلاف اپنی ہی سرزمین پر بھی بھارت نے بہت مشکل سے سیریز جیتیں۔ اور بالآخر انگلستان کے خلاف اس سیریز میں 1-0 سے برتری حاصل کرنے کے باوجود شکست سے دوچار ہونا بہت بڑا المیہ قرار پایا اور اس پوری سیریز میں جو چیز کھل کر سامنے آئی وہ تھی دھونی میں قیادت کی اہلیت کا فقدان۔

انگلستان کے خلاف گزشتہ سال کی کلین سویپ کی شکست کے بعد دبی دبی آوازیں سامنے آئی، آسٹریلیا کے خلاف بدترین ہار نے چند اور لبوں پر ڈلے ہوئے تالے توڑے، اور چند ماہ قبل مہندر امرناتھ نے ان سے ٹیسٹ قیادت چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا، جس کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا اور انہیں سلیکشن پینل سے باہر نکال دیا گیا اور دھونی برقرار رہے۔ لیکن اب لیجنڈری سنیل گاوسکر اور سابق چیئرمین سلیکٹرز کرشنماچاری شری کانت نے بھی کہہ ڈالا ہے کہ دھونی اب ٹیسٹ قیادت کو چھوڑ دیں تو اچھا ہے۔

شری کانت کہتے ہیں کہ دھونی اب تھکاماندہ لگتا ہے، اسے نہیں معلوم کہ جب حالات گرفت سے نکل رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے۔ اسے ہرگز ٹیسٹ قیادت نہیں دینی چاہیے۔ اگر میں اب بھی چیئرمین سلیکٹر ہوتا تو بحیثیت وکٹ کیپر بلےباز ضرور ٹیم میں شامل کرتا لیکن قیادت دوبارہ اس کے حوالے نہ کرتا۔

لیکن سب سے بڑا سوال یہ ابھرتا ہے کہ ان کی جگہ کون سنبھالے گا؟ سنیل گاوسکر کہتے ہیں کہ ناگپور ٹیسٹ کے چوتھے روز تک تو انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا، لیکن اس روز ویراٹ کوہلی کی سنچری دیکھ کر یقین ہوا ہے کہ اس نوجوان بلے باز میں قیادت کی اہلیت موجود ہے۔

ان دونوں کھلاڑیوں کے نقطہ نظر کے برعکس بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کہتا ہے کہ بی سی سی آئی کے اندرونی حلقے گوتم گمبھیر کو ٹیسٹ قیادت سونپنا چاہتے ہیں۔

کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے قائد کی حیثیت سے کامیابیوں کی بدولت بھی گمبھیر کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔ وہ چھ ایک روزہ مقابلوں میں ملک کی قیادت بھی کر چکے ہیں اور تمام ہی مقابلے جیتے ہیں۔ یہ حلقے سمجھتے ہیں کہ کوہلی گمبھیر کے نائب تو بنائے جا سکتےہیں، لیکن اس عمر میں ان پر قیادت کا بوجھ ڈالنا نامناسب ہوگا۔

گزشتہ روز ناگپور ٹیسٹ کی شکست کے بعد ایک دن میں اس معاملے میں اتنی پیشرفت تو ہو چکی ہے کہ کم از کم یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ دھونی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان نہیں رہیں گے، ہاں اس سوال کا جواب ابھی باقی ہے کہ اب قیادت کا تاج کس کے سر پر سجے گا۔