[آج کا دن] ’شیپی‘ کا یوم پیدائش
”اور ان دو رنز کے ساتھ ہی اسکور ہو گیا 111 رنز، اور یہ ڈیوڈ شیفرڈ نے اپنی دائیں ٹانگ اٹھا کر ”نیلسن“ تک پہنچنے کا اشارہ دیا“ کیا آپ نے کبھی یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے؟ اک ایسا اشارہ جو کرکٹ کی تاریخ کے بہترین امپائروں میں سے ڈیوڈ شیفرڈ ’نیلسن‘ کے تمام اسکورز یعنی 111، 222، 333 اور آگے تک پہنچ کر دیا کرتے تھے۔ جب بھی میچ میں ڈیوڈ شیفرڈ ہوتے تو نیلسن پر پہنچتے ہی سب کی نگاہیں اُن پر مرکوز ہو جاتی تھیں، جو اس موقع پر ایک یا دونوں ٹانگوں پر اچھل یا پھدک کر نیلسن کا اعلان کرتے تھے۔
20 سالہ کیریئر میں 92 ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ کے فرائض انجام دینے والے ڈیوڈ شیفرڈ 1940ء میں آج ہی کے دن یعنی 27 دسمبر کو جنوب مغربی انگلستان کی ڈیوون کاؤنٹی میں پیدا ہوئے۔ گو وہ کبھی ٹیسٹ سطح پر انگلستان کی نمائندگی نہیں کر سکے لیکن گلوسسٹر شائر کاؤنٹی کی جانب سے انہوں نے طویل فرسٹ کلاس کرکٹ ضرور کھیلی۔ پہلے ہی فرسٹ کلاس مقابلے میں سنچری کے بعد آپ نے کل 282 مقابلے کھیلے اور 24.47 کے اوسط سے 10 ہزار 627 رنز بنائے جس میں 12 سنچریاں اور 55 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔
آپ نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں امپائرنگ کا آغاز 1981ء میں کیا اور بین الاقوامی سطح پر پہلی مرتبہ آپ کو عالمی کپ 1983ء میں امپائرنگ کے فرائض سونپے گئے۔ مذکورہ عالمی کپ میں کھیلا گیا پاک-سری لنکا مقابلہ اُن کے بین الاقوامی امپائرنگ کیریئر کا نقطہ آغاز تھا۔ بعد ازاں آپ نے 1996ء، 1999ء اور 2003ء کے عالمی کپ فائنل مقابلوں میں بھی امپائرنگ کی اور بحیثیت مجموعی ریکارڈ 6 عالمی کپ ٹورنامنٹ میں شرکت کی۔ آپ نے کل 172 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے سپروائز کیے۔
ایشیز 1985ء کا اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ بحیثیت امپائر آپ کا پہلا ٹیسٹ مقابلہ تھا، جس کے بعد آپ نے کیریئر کے اختتام تک 92 میچز میں امپائرنگ کی اور نہ صرف درست فیصلوں بلکہ اپنی بہترین حس مزاح کے باعث بھی کھلاڑیوں اور اور تماشائیوں میں بہت مقبولیت حاصل کی۔
آپ سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز سپروائز کرنے والے امپائروں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ صرف ویسٹ انڈیز کے اسٹیو بکنر 128، جنوبی افریقہ کے روڈی کوئرٹزن 108 اور آسٹریلیا کے ڈیرل ہارپر ہی 95 مقابلوں کے ساتھ آپ سے آگے ہیں۔
جون 2005ء پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کنگسٹن، جمیکا میں ہونے والا مقابلہ آپ کا آخری ٹیسٹ میچ تھا، جس کے بعد عظیم بلے باز برائن لارا نے آپ کو اپنا دستخط شدہ بلّا تحفتاً پیش کیا تھا جبکہ اسی سال اگلے ہی مہینے میں آپ نے اوول میں انگلستان-آسٹریلیا ایک روزہ مقابلے کو سپروائز کر کے امپائرنگ کو الوداع کہہ دیا۔
نام | ملک | کیریئر آغاز | کیریئر اختتام | کل مقابلے |
---|---|---|---|---|
اسٹیو بکنر | 1989ء | 2009ء | 128 | |
روڈی کوئرٹزن | 1992ء | 2010ء | 108 | |
ڈیرل ہارپر | 1998ء | 2011ء | 95 | |
ڈیوڈ شیفرڈ | 1985ء | 2005ء | 92 | |
ڈیرل ہیئر | 1992ء | 2008ء | 78 | |
علیم ڈار | 2003ء | جاری | 74 |
بدقسمتی سے پاکستان کی ان سے کچھ اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔ خصوصاً 2001ء کے دورۂ انگلستان کا اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ، جہاں وہ ان کی نظر نو-بال دیکھنے سے دو مرتبہ چوکی اور دونوں مرتبہ پاکستان اپنے بلے بازوں سے محروم ہوا، پاکستانی کھلاڑیوں اور شائقین کے ذہنوں سے چپکی ہوئی بہت بری یاد ہے۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ وہ صورتحال سے اس قدر پشیمان ہوئے تھے کہ اسکور 333 رنز پر پہنچنے پر اچھلنا تک بھول گئے، اندازہ لگا لیں 🙂 اس کے علاوہ 2003ء کے عالمی کپ کے دوران پاکستان کے کپتان وقار یونس کے آسٹریلوی بلے باز اینڈریو سائمنڈز کو پھینکے گئے بیمرز کے بعد انہیں باؤلنگ سے روک دینے کا معاملہ بھی ابھی کئی ذہنوں میں تازہ ہوگا۔
کرکٹ کو الوداع کہنے کے بعد آپ آبائی علاقے لوٹ گئے اور پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث بہت مشکل ایام گزارنے کے بعد 27 اکتوبر 2009ء کو انتقال کر گئے۔ اس وقت آپ کی عمر اس وقت 68 برس تھی۔
آج بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے سال کے بہترین امپائر کا اعزازانہی سے موسوم ہے اور ”ڈیوڈ شیفرڈ ٹرافی“ کہلاتا ہے۔ جبکہ 1997ء میں تاجِ برطانیہ نے آپ کو کرکٹ کے لیے خدمات پر آرڈر آف برٹش امپائر دے کر ’نائٹ ہڈ‘ سے بھی نوازا تھا۔