سری لنکا کے لیے ذلت کا نیا طوق، آسٹریلیا کے ہاتھوں بدترین شکست

1 1,021

ماضی قریب میں سری لنکا کی بیٹنگ کی ناکامی کی اس سے بری مثال صرف ایک ہے، جب وہ گزشتہ سال کارڈف میں انگلستان کے خلاف 82 رنز پر ڈھیر ہو کر نہ صرف ٹیسٹ بلکہ بعد ازاں سیریز بھی ہار گیا تھا لیکن یہاں ملبورن میں اسے ایک اننگز اور 201 رنز کی جس ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے سری لنکا اور قائد مہیلا جے وردھنے کی اہلیت پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

آسٹریلیا نے محض تین دن میں مقابلے کی بساط لپیٹ کر سیریز 2-0 سے اپنے نام کر لی (تصویر: Getty Images)
آسٹریلیا نے محض تین دن میں مقابلے کی بساط لپیٹ کر سیریز 2-0 سے اپنے نام کر لی (تصویر: Getty Images)

یہ سری لنکا کی کرکٹ تاریخ کی تیسری بدترین شکست تھی۔ سری لنکا 2001ء میں کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ کے خلاف اننگز اور 229 رنز اور اس سے قبل اسی ٹیم کے خلاف 1993ء میں اننگز اور 208 رنز کی بھاری شکست کھا چکا ہے اور اس کے بعد ملبورن ٹیسٹ یہ ہار اس کے لیے ذلت کا نیا طوق ثابت ہوئی ہے۔

26 دسمبر کو شروع ہونے والے روایتی ”باکسنگ ڈے ٹیسٹ“ محض تین روز میں اپنے اختتام کو پہنچا، سری لنکا کے لیے میچ اور سیریز میں شکست کے علاوہ بھی دیگر کئی بری خبروں کے ساتھ، کہ کمار سنگاکارا زخمی ہو کر بقیہ پوری سیریز سے باہر ہو گئے ہیں۔ صرف پہلے روز سنگاکارا کا 10 ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنا خوشی کا وہ مختصر سا لمحہ تھا جب لنکن پویلین میں مسکراہٹیں دوڑیں ورنہ سہ روزہ مقابلے میں اک لمحے کے لیے بھی میزبانوں نے انہیں چین نہیں لینے دیا۔

پہلے دن کا آغاز تو سری لنکا کے ٹاس جیتنے کے ساتھ ہوا، لیکن اختتام اس حال پر ہوا کہ سری لنکا کی اننگز تمام ہونے کے بعد آسٹریلیا بھی تقریباً اسی اسکور تک جا پہنچا تھا۔ یعنی سری لنکا پہلی اننگز میں صرف 156 رنز کے جواب میں محض 3 وکٹوں پر 150 رنز!

ملبورن کرکٹ گراؤنڈ میں 67 ہزار سے زائد تماشائیوں نے آسٹریلیا کی تباہ کن باؤلنگ کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھا جو متعدد اہم گیندبازوں کے بغیر کھیل رہا تھا۔ مچل جانسن، پیٹر سڈل اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے جیکسن برڈ پر مشتمل اٹیک نے کسی باؤلر کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔

بہرحال، مقابلہ تو پہلے ہی روز سری لنکا کی گرفت سے نکل چکا تھا لیکن اسے مہمانوں کی پہنچ سے کہیں دور لے جانے میں اگلے روز شین واٹسن کی 83 اور مائیکل کلارک کی سال کی ”مختصر ترین“ سنچری اننگز نے مرکزی کردار ادا کیا۔ جس کی بدولت آسٹریلیا کو سری لنکا کے پہلی اننگز کے اسکور پر 304 رنز کی بھاری برتری حاصل ہوئی۔

مائیکل کلارک، جن کے بلے سے رواں سال ایک ٹرپل سنچری اور تین ڈبل سنچریاں نکل چکی ہیں، اس مرتبہ سری لنکن گیند بازوں پر اپنا ہاتھ صاف کیا اور 106 رنز بنا ڈالے۔ یہ ان کی سال کی واحد تہرے ہندسے کی اننگز تھی جو ڈبل سنچری تک نہ پہنچ پائی۔ اس اننگز کے دوران انہوں نے سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا آسٹریلیا کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا، جو پہلے ان کے پیشرو رکی پونٹنگ نے قائم کیا تھا۔ علاوہ ازیں کلارک سال 2012ء میں سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے والے کھلاڑی تو پہلے ہی بن چکے تھے۔ موہوم سا لیکن امکان ضرور تھا کہ اگر سری لنکا کچھ ہمت دکھاتا اور آسٹریلیا کو دوسری اننگز کھیلنے کا موقع ملتا تو کلارک محمد یوسف کا 2006ء میں قائم کردہ سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ بھی توڑ جاتے، گو کہ اس ریکارڈ تک پہنچنے کے لیے انہیں دوسری اننگز میں ڈبل سنچری کی ضرورت پڑتی۔

شاندار آل راؤنڈ کارکردگی پر مچل جانسن میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے، انہوں نے 6 وکٹیں حاصل کیں اور واحد اننگز میں ناقابل شکست 92 رنز بھی بنائے (تصویر: Getty Images)
شاندار آل راؤنڈ کارکردگی پر مچل جانسن میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے، انہوں نے 6 وکٹیں حاصل کیں اور واحد اننگز میں ناقابل شکست 92 رنز بھی بنائے (تصویر: Getty Images)

بہرحال، آسٹریلیا کی پہلی اننگز کے واحد بدقسمت کھلاڑی مچل جانسن تھے، جو اپنے کیریئر کی دوسری سنچری کے بہت قریب پہنچ کر بھی اسے حاصل نہ کر پائے کیونکہ دوسرے اینڈ سے تمام وکٹیں گر چکی تھیں۔ وہ 150 گیندوں پر 92 رنز بنا کر ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔

304 رنز کے بھاری خسارے تلے دبے سری لنکا کی دوسری اننگز کا حال پہلی سے بھی بدتر رہا۔ پہلے ہی اوور میں اسے دونوں اوپنرز دیموتھ کونارتنے اور تلکارتنے دلشان کی وکٹ گنوانا پڑی اور دوسرے اوور میں کپتان مہیلا جے وردھنے کے آؤٹ ہوتے ہی محض 3 رنز پر اس کے تین کھلاڑی آؤٹ ہو چکے تھے۔ معاملہ یہیں تھما نہیں، بلکہ جس وقت تھیلان سماراویرا آؤٹ ہوئے اس وقت اسکور بورڈ پر محض 13 رنز موجود تھے۔

پہلی اننگز میں معمولی مزاحمت کرنے والے کھلاڑی کمار سنگاکارا اس وقت زخمی ہو کر میدان سے لوٹ آئے جب اسکور 62 تک پہنچا تھا اور بالآخر 103 رنز تک پہنچتے پہنچتے پوری اننگز تمام ہو گئی۔ اینجلو میتھیوز 35 رنز بنا کر سب سے نمایاں بلے باز رہے۔ سنگاکارا کے علاوہ پرسنا جے وردھنے اور چناکا ویلیگیدرا بھی زخمی ہونے کی وجہ سے میدان میں بلے بازی کےلیے نہ آ سکے۔ پرسنا کو پہلی اننگز میں مچل جانسن کی گیند انگوٹھے پر لگی تھی جو ٹوٹنے کے باعث وہ دوبارہ میدان میں نہیں اتر پائے تھے۔
آسٹریلیا کی جانب سے مچل جانسن اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے جیکسن برڈ نے 2 وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک، ایک وکٹ ناتھن لیون اور پیٹر سڈل کو ملی۔ جانسن نے پہلی اننگز میں چار وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ بقیہ تینوں باؤلرز کو وہاں 2،2 وکٹیں ملی تھیں۔ اسی میچ کے دوران مچل جانسن نے اپنی 200 ٹیسٹ وکٹیں بھی مکمل کیں۔

یوں آسٹریلیا کے خلاف سری لنکا کی بدترین کارکردگی کا تسلسل جاری رہا، جو آسٹریلیا کے مدمقابل 25 ٹیسٹ مقابلوں میں آج تک صرف ایک مرتبہ جیتا ہے جبکہ 16 مرتبہ اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سری لنکا نے یہ واحد فتح ستمبر 1999ء میں کانڈی ٹیسٹ میں حاصل کی تھی۔

مچل جانسن کو شاندار آل راؤنڈ کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب سری لنکا کے پاس اپنی عزت بچانے کا صرف ایک موقع ہے کہ وہ 3 جنوری سے سڈنی کے تاریخی میدان میں شروع ہونے والے آخری مقابلے میں کچھ کر دکھائے۔ گو کہ کمار سنگاکارا، پرسنا جے وردھنے اور چند دیگر کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں یہ کچھ مشکل ضرور ہوگا لیکن اگر وہ اسی طرح مقابلہ تھالی میں رکھ کر پیش کرتا رہا تو اس سے دنیائے ٹیسٹ میں سری لنکا کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچے گا۔