[سال 2012ء] بھارت کی ناقص کارکردگیوں کا نقطہ عروج
تغیر و تبدل اور نشیب و فراز انسانی زندگی کے لازمی جزو تصور کئے جاتے ہیں ۔ ہر عروج کے ساتھ زوال اور ہر پستی کے ساتھ بلندی کا سلسلہ ازل سے چلتا آ رہا ہے ۔اس سے زندگی کا کوئی شعبہ مستثنیٰ نہیں ۔ کامیاب وہی ہے جو تلاطم میں بھی کنارے پر نظر رکھے اور سرفرازی و کامرانی کے حصول کے باوجود ان مراحل کو یاد رکھے جن کا مقابلہ کر کے وہ ساحل تک پہنچاہے ۔عروج پر پہنچ کر زوال کو فراموش کردینے والے اور پستی میں بلندی کی امید چھوڑ دینے والے ہی دراصل ناکام ہوتے ہیں ۔
اس فلسفیانہ تمہید میں مزید کچھ اضافہ کیے بغیر آئیے اب اس کا ربط بھارتی کرکٹ ٹیم کی کامیابی اور ناکامی کی انہیں دو انتہاؤں کے ساتھ جوڑتے ہیں ۔ سال 2011ء بھارتی کرکٹ کی تاریخ کا عظیم اور یادگار ترین سال تھا، 28 برسوں کے دیرینہ خواب کی تکمیل کا سال، عالمی چیمپئن بننے کا سال۔ جس میں کپتان مہندرسنگھ دھونی کے قسمت کا ستارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔ آئی پی ایل 2011ء میں ان کی ٹیم چنئی سپر کنگز فاتح تھی اور عالمی کپ کی فتح اور آئی پی ایل کی فتح کے بعدمہندر سنگھ دھونی کی شخصیت دنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں شمار کی جار ہی تھی۔
لیکن قدرت کا یہ اصول رہا ہے کہ "زوال کے لئے ہی ہر کمال ہوتا ہے" ٹیم انڈیا اور اس کے کپتان کے اس "کمال" کی یہ انتہا تھی۔ جو درحقیقت اس کے زوال کا نقطہ آغاز تھا۔ سال 2011ء میں انگلستان کی سرزمین پر کھیلی گئی ٹیسٹ اور بین الاقوامی میچوں کی سیریز بھارتی کرکٹ کی تاریخ کے ایک تاریک باب کی ابتدا ہوگی یہ کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سال2012ء کا آغاز بھارتی کرکٹ ٹیم کے لئے ایک اور بیرون ملک دورے کے ساتھ ہو رہا تھا۔ماہرین کا یہ خیال تھا کہ انگلستان میں ملی ہزیمت کے اسباب ناقص تیاری اور آئی پی ایل کے میچ تھے ۔ جس کاازالہ آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی ٹیسٹ اور سہہ رخی سیریز میں کیا جا سکتا ہے ۔ یہ سیریز دسمبر 2011ء کے اختتامی ایام سے شروع ہوئی تھی۔ جس کا پہلا ٹیسٹ 26 تا 29 دسمبر ملبورن میں کھیلا گیا تھا، جہاں بھارتی کرکٹ ٹیم کو 122 رنوں کی شکست نصیب ہوئی تھی۔ لیکن ماہرین اور شائقین کی تمام امیدیں سال 2012 کی ابتدا کے ساتھ ہی چکنا چور ہونا شروع ہوئیں ۔ دوسرے ٹیسٹ میں باری اور68 رنوں کی رسوائی اور تیسرے ٹیسٹ میں باری اور 37 رنوں کی ہزیمت کے ساتھ سیریز کے چوتھے اور آخری ٹیسٹ میں 298 رنوں کی شکست ٹیم انڈیا کے مقدر میں ایک اور "وائٹ واش" لے کر آئی۔ بیرون ملک ملنے والی ان متواتر رسوائیوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ ٹیسٹ سیریز کے بعد بھارتی ٹیم 5 فروری سے آسٹریلیا میں ہی شروع ہونے والی سہہ رخی سیریز میں بھی شریک تھی۔ جس کی تیسری ٹیم سری لنکا تھی۔ یہاں بھی ٹیم انڈیا کے حصہ میں فائنل میچ سے قبل کی معرکہ آرائی میں ہاتھ پیر مارنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔آسٹریلیا اور سری لنکا کے درمیان ہونے والے بیسٹ آف تھری فائنلس میں آسٹریلیا فتحیاب ہوا۔ یوں بھارتی ٹیم کا شکست خوردہ دستہ ایک اور "محاذ" سے ناکام و نامراد سوئے وطن لوٹا۔
انگریزی کا مشہور مقولہ ہے “Misfortunes seldom come alone”۔انگلستان اور آسٹریلیائی سرزمین سے ملنے والے ذلت کے طوق نے جہاں ایک طرف بھارتی کرکٹ ٹیم کی مصیبتوں کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا وہیں دورۂ آسٹریلیا کے عین بعد بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھی ایک عجیب و غریب مسئلہ سے دوچار ہونا پڑا۔ "سہارا گروپ" جو ایک طویل عرصہ سے ٹیم انڈیا کی اسپانسر شپ کر رہا تھا، نے بور ڈ سے اپنے مالی تعلقات ختم کرلئے ۔ اس معاہدے کے ٹوٹ جانے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ پر زبردست مالی خسارے کا خطرہ منڈلانے لگا۔ چونکہ بورڈ اور سہارا کے درمیان ناگہانی طور پر پیدا شدہ یہ بحران دراصل بورڈ کے صدر این سرینی واسن کی اجارہ دارانہ پالیسیوں کی وجہ سے تھا، اس لئے بورڈ کی مشکلیں بہت دیر برقرار نہ رہیں اور جلد ہی ان کے بیچ "صلح" ہو گئی۔ تاہم پے در پے ملنے والی شکستوں، بھارتی کرکٹ ٹیم کے ایک اہم عضو یوراج سنگھ کی بیماری اور پھر سہارا بنام بورڈ تنازع نے بھارتی کرکٹ کی کمر توڑ ڈالی۔
بھارتی کرکٹ کا بحران رفتہ رفتہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا تھا۔ اس بحران سے نکلنے کاا یک راستہ تھا اور وہ تھا مارچ کے مہینے میں کھیلا جانے والا ایشیا کپ۔ ٹیم انڈیا اس ٹورنامنٹ میں عالمی کپ فاتح کی حیثیت سے شریک ہو رہی تھی۔ جہاں اسے 18 مارچ کو روایتی حریف پاکستان کے ساتھ نبرد آزما ہونا تھا۔ اس ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی پیش کر کے بھارتی کرکٹ ٹیم کم از کم ناقدین کی جانب سے مسلسل کئے جانے والے حملوں کی شدت میں کمی تو لا ہی سکتی تھی۔ وہیں عظیم بلے باز سچن تنڈولکر بھی اپنی سویں سنچری کا انتظار بنگلہ دیش جیسے کمزور حریف کے خلاف مکمل کر کے اپنی مصیبتیں بھی ختم کر سکتے تھے۔ سچن نے بین الاقوامی کرکٹ کی اپنی 99 ویں سنچری عالمی کپ 2011ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف بنائی تھی جس کے بعد 100ویں سنچری کا یہ صبر آزما انتظار 11 ٹیسٹ مقابلوں کی 22 اننگز اور 12 ایک روزہ بین الاقوامی میچوں سے ہوتا ہوا ایک دفعہ پھر بنگلہ دیش تک آپہنچا تھا۔
ایشیا کپ میں بھارتی شائقین کے دو ارمان تو ضرور پورے ہوئے یعنی ٹیم انڈیا نے روایتی حریف پاکستان کو لیگ مرحلے میں شکست دی اور سچن نے بنگلہ دیش کے خلاف اپنی 100ویں سنچری مکمل کر لی۔ لیکن آخرالذکر "کارنامہ" سچن تنڈولکر کے لئے باعث سکون ثابت نہ ہوا ۔نہ صرف یہ کہ ان کی 100 ویں سنچری بھی "بدنام زمانہ سنچری" ثابت ہوئی بلکہ بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے گئے اس اہم میچ میں سچن کی تاریخی سنچری کے باوجود 5 وکٹوں سے شکست کھا کر بھارت ایشیا کپ سے باہر ہو گیا۔
سال 2012ء کی یہ داستان غم و اندوہ کی چادر سمیٹے چہار سمت سے بھارتی ٹیم کی جانب بڑھتی گئی۔ شائقین اپنی ٹیم سے نالاں اور پریشاں ہو چکے تھے۔ بھارت میں کرکٹ کی گرتی ہوئی مقبولیت تشویشناک صورت اختیار کر جاتی اگر اس دوران نیوزی لینڈ اور سری لنکا کی ٹیمیں سر زمین ہند میں قدم نہ رکھتیں۔ جولائی-اگست کے مہینے میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان 5 ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی گئی جس میں بھارت 4-1 سے فاتح رہا۔ پانچویں اور آخری ایک روزہ میچ میں سری لنکا کو 20 رنوں کے فرق سے شکست دے کر بھارتی کرکٹ ٹیم عالمی درجہ بندی میں دوسرے مقام پر پہنچ گئی۔ وہیں نیوزی لینڈ کے خلاف حیدرآباد اور بنگلور میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں بھارت نے قدرے کمزور ٹیم کو ہرا کر اپنے کھوئے ہوئے وقار اور حوصلے کو ضرور بحال کر لیا۔ دریں اثناء سچن کے ریٹائرمنٹ کے مطالبات جو عالمی کپ کے بعد "احتجاج" کی صورت اختیار کر تے جا رہے تھے ، نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی گئی اس ٹیسٹ سیریز میں مزید شدت اختیار کر گئے۔ اس سیریز میں سچن مسلسل تین باریوں میں عجیب و غریب اور ناتجربہ کارانہ انداز میں کلین بولڈ ہوئے۔ جس پر کمنٹری باکس میں بیٹھے سنیل گاوسکر نے برجستہ یہ کہہ دیا کہ اب سچن کو بین الاقوامی کرکٹ سے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔
اس سال ستمبر-اکتوبر میں ایک اور بین الاقوامی معرکہ منعقد ہوا تھا۔یعنی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی۔ لیکن یہاں بھی بھارتی کرکٹ ٹیم کی قسمت میں ناکامی ہی مقدر تھی۔ سری لنکا کی سرزمین پر کھیلا گیا ٹی ٹوئنٹی کا چوتھا عالمی کپ اس دفعہ ویسٹ انڈیز کے نام رہا۔ کولمبو میں کھیلے گئے فائنل میچ میں میزبان سری لنکا کو 36 رنوں سے ہرا کر ویسٹ انڈیز نے ایک طویل عرصے کے بعد کوئی عالمی خطاب اپنے نام کیا۔ ٹیم انڈیا کو جنوبی افریقہ اور پاکستان جیسے مضبوط حریفوں کو زیر کرنے کے باوجودسپر 8 مرحلے تک کی رسائی پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
بیرون ممالک مسلسل ناقص کارکردگی گویا بھارتی کرکٹ ٹیم کا مقدر بن چکی تھی۔ عالمی کپ فاتح یوں ہر طرف شکست خوردہ ہوتے رہیں گے یہ تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ٹیم انڈیا کے ارکان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کی جتنی بھی کوششیں کر رہے وہ سب ناکام ہو رہی تھی۔ بلکہ"مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" کے مصداق تمام کوششوں کا نتیجہ اس کے برعکس ظاہر ہو رہا تھا۔ 'کوئی امید بر نہیں آ رہی' تھی کہ بھارت کو سال کے اختتامی مہینوں میں انگلستان کے خلاف ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنی تھی۔ یہ سیریز ٹیم انڈیا کے لئے نہ صرف انگلستان کی سرزمین سے ذلت و رسوائی کے طوق کو گلے سے نکال پھینکنے کا سنہرا ترین موقع تھا بلکہ گھریلو میدانوں پر انگریزوں کو رسوا کر کے بھارت اپنی سال بھر کی "کوتاہیوں اور لغزشوں" کو معاف کروا سکتا تھا۔ اس سیریز کو ایک "انتقامی سیریز" تصور کیا جا رہا تھا۔ لیکن کسے معلوم تھا کہ انگلستان کا دورہ بھارت پرانے زخموں کو مزید گہرا کر دے گا اور وہ ایسا ناسور بن جائے گی جس کی تکلیف بھارتی کرکٹ کی تاریخ ہمیشہ محسوس کرتی رہے گی۔ احمدآباد میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ تک تو سب کچھ ٹھیک رہا۔ لیکن ممبئی، کولکتہ اور ناگپور میں کھیلے گئے دوسرے، تیسرے اور چوتھے ٹیسٹ میچ میں بھارتی شائقین کے زخموں پر وہ نشتر چلے کہ اللہ کی پناہ! دوسرے اور تیسرے میچ کی شاندار فتح اور چوتھے میچ کی برابری کے ساتھ انگلستان 27برسوں کے بعد سرزمین ہند سے فاتح کی حیثیت سے اپنے وطن لوٹا۔
انگلستانی ٹیم 22 دسمبر کو ممبئی میں کھیلے گئے دوسرے اور آخری ٹی ٹوئنٹی میں کامیابی کے ساتھ کرسمس کی تعطیل میں وطن واپس ہوئی۔ پہلا ٹی ٹوئنٹی بھارت کے نام رہا تھا۔ اس طرح یہ سیزیز برابری پر ختم ہوئی۔ انگلستان کا یہ دورہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ اور اسے جنوری ماہ میں دوبارہ ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنے کے لئے بھارت آنا ہے ۔ ان خالی اوقات میں بھارتی کرکٹ بورڈ نے بمشکل پاکستان سے کھیلنے کی گنجائش نکالی۔یہ پی سی بی کے چیئر مین ذکا اشرف کی کوششیں اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اعلیٰ ظرفی کا نتیجہ تھا کہ 5 برسوں سے چلی آ رہی دونوں ملکوں کی رسہ کشی بالآخر ختم ہوئی اور بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کے دورۂ ہند کو ہری جھنڈی دکھائی۔ اس دورے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ بلکہ بھارتی شدت پسند تنظیم شیوسینا کی جانب سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دھمکیاں بھی دی گئیں ۔حتیٰ کہ پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک کے دورہ ہند کے دوران دیے گئے متنازع بیانات کے سبب آخری لمحات میں بھی اس سیریز کو منسوخ کر دینے کے مطالبات سامنے آئے۔ لیکن ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود بالآخر پاکستانی کرکٹ ٹیم سرزمین ہند پہنچ ہی گئی۔
یہاں توقع کے مطابق پاکستانی ٹیم کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔ برصغیر کے کرکٹ شیدائی جو ایک عرصہ سے تشنہ کام بیٹھے تھے۔ ان کے لئے پاکستان کا دورہ بھارت کسی دیرینہ خواب کی تکمیل جیسا تھا ۔پہلے اور دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچوں نے تو حقیقت میں ان کے خوابوں کی تعبیر کر دی۔ سال کے اختتام پر کرکٹ کے دیوانوں کو دو زبردست معرکے دیکھنے کو ملے ۔ پہلا سنسنی خیز ٹی ٹوئنٹی میچ جہاں شعیب ملک کے آخری گیند کے چھکے کے ساتھ پاکستان کے نام رہا، وہیں دوسرا یوراج سنگھ کی جارحانہ اور محمد حفیظ کی جراتمندانہ بلے بازی کے ساتھ بھارت کے نام۔ اس طرح بھارتی سرزمین پر ٹی ٹوئنٹی کی ایک اور سیریز برابری پر ختم ہوئی۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کا پہلا میچ بھارت کے لئے سال کا آخری معرکہ تھا۔ 30 دسمبر کو ہوئے اس میچ میں شکست کے ساتھ بھارتی ٹیم کا سال 2012ء کا اختتام بھی اس کے آغاز کی طرح مایوس کن ثابت ہوا۔
اب بھارتی ٹیم آئندہ سال یعنی جنوری ماہ میں پاکستان کے ساتھ دو ایک روزہ میچوں میں نبر د آزما ہوگی۔ جس کے بعد انگلستان اپنے دورے کو مکمل کرنے کے لئے اس دفعہ پورے آب و تاب کے ساتھ ہندوستانی سرزمین پر قدم رکھے گا۔ جہاں اسے پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے ۔
بھارتی کرکٹ ٹیم کی اس "داستان غم" کو مزید کربناک بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا تین سرکردہ اور ٹیم انڈیا کی ریڑھ سمجھے جانے والے بلے بازوں راہول ڈریوڈ، وی وی ایس لکشمن اور سچن تنڈولکر نے۔ جی ہاں اسے اتفاق کہیے یا ٹیم انڈیا کی بدنصیبی کے جو سال بھارتی کرکٹ ٹیم کے لئے اس کی ناکامی اور شکست خوردگی کے سبب سخت آزمائشی ثابت ہوا، ان تین سرکردہ بلے بازوں نے اسی سال بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ راہول جو 2011ء کے دورۂ انگلستان کے دوران ہی ایک روزہ میچوں کو الوداع کہہ چکے تھے، 9 مارچ 2012 کو آسٹریلیا میں ملی ذلت آمیز شکست کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے بھی علیحدگی اختیار کر گئے۔ وہیں ٹیسٹ میچوں کے جانباز بلے باز وی وی ایس لکشمن نیوزی نے لینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی گھریلو سیریز میں اپنے انتخاب کے باوجود 18 اگست 2012ء کو ٹیسٹ کر کٹ سے سبکدوشی کا اعلان کر گئے۔ لیکن سب سے تعجب خیز اور حیرت انگیز فیصلہ سچن تنڈولکر نے لیا۔ گرچہ ان پر تنقیدوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ناقص مظاہروں سے نالاں شائقین بھی اپنے ہر دل عزیز بلے باز سے بیزار نظر آنے لگے تھے۔ حتیٰ کے میڈیا اور چند سابق سرکردہ کھلاڑی بھی دبے الفاظ میں سچن سے ریٹائرمنٹ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان سب کے باوجود سچن یک لخت ایک روزہ میچوں کو آخری سلام کہہ کر اپنے پرستاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کا موقع بھی نہ دیں گے؟ یہ کسی نے توقع نہیں کی تھی۔ عالمی کپ 2011ء سے جس ہنگامے کی ابتدا ہوئی تھی، سچن نے بڑی خموشی سے اس کو ختم کر ڈالا۔
اس طرح بھارتی کرکٹ کے ایک ہنگامہ خیزسال کا افسردہ اختتام ہوا۔ اب کچھ نظر اجتماعی و انفرادی کارکردگی کے اعدادوشمار پر۔
ٹیم انڈیا نے سال 2012ء میں 9 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں اسے 3 میں فتح اور 5 میں شکست ہوئی جبکہ ایک مقابلہ برابری پر ختم ہوا۔ وہیں 17 ایک روزہ میچوں میں 9 میں فتح اور 7 میں شکست ملی جبکہ ایک برابر رہا۔ ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں بھارت نے کل 14 میچز کھیلے جن میں اسے 8 میں جیت اور4میں ہار نصیب ہوئی۔
ٹیسٹ میچوں کی انفرادی کارکردگی میں ویراٹ کوہلی اس سال بھارت کی طرف سے سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے باز رہے ۔ انہوں نے 9میچوں کی16اننگز میں 49.21 کی اوسط سے 689 رنز بنائے۔ جس میں 3 سنچریاں اور 3 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ وہیں چیتیشور پجارا 654 اور وریندر سہواگ 505 رنوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے۔ روی چندر آشون 8 میچوں کی 15 اننگز میں 37 وکٹوں کے ساتھ بھارت کی جانب سے کامیاب ترین گیند باز ثابت ہوئے۔ پراگیان اوجھا 6 میچوں کی 12 اننگز میں 33اور امیش یادو 6 میچوں کی 10 اننگز میں 16 وکٹوں کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے ۔
ایک روزہ مقابلوں میں بھی 17 میچوں میں 68.40 کی اوسط سے 1026 رنوں کے ساتھ ویراٹ کوہلی کا نام ہی سر فہرست رہا۔ جس میں ان کی 5 سنچریاں اور 3 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ گوتم گمبھیر 16 میچوں میں 42.81 کی اوسط سے 685 رنوں کے ساتھ اور کپتان مہندر سنگھ دھونی 16 میچوں میں 65.50 کی اوسط سے 524 رنوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے۔ وہیں گیند بازی میں عرفان پٹھان 12 میچوں میں 19 وکٹوں کے ساتھ کامیاب ترین گیند باز رہے۔ جبکہ روی چندر آشون 16 میچوں میں 17 وکٹوں اور ونئے کمار 7 میچوں میں 12 وکٹوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے ۔
ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں رن بنانے کے معاملے میں بھی جواں سال بلے باز ویراٹ کوہلی نے ہی بازی ماری۔ انہوں نے 14 میچوں میں 39.25 کی اوسط اور132.67 کی اسٹرائیک ریٹ سے 471 رنز بنائے۔ جبکہ یووراج سنگھ 10 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 15 وکٹیں حاصل کر کے گیند بازوں کے زمرے میں سر فہرست رہے ۔