[اعدادوشمار] دورۂ جنوبی افریقہ، ایک چیلنج
دورۂ جنوبی افریقہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کے لیے ایک سخت مرحلہ ہوتا ہے، خصوصاً پابندی کے خاتمے کے بعد گزشتہ دو دہائیوں میں جنوبی افریقہ جس طرح عالمی منظرنامے پر ابھرا ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ پابندی کے طویل ایام میں اس نے اپنے مقامی کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط کر کے کتنا بڑا فائدہ حاصل کیا۔ آج عالم یہ ہے کہ جب بھی کوئی ٹیم جنوبی افریقہ کا دورہ کرتی ہے تو اس سے قبل نہ صرف سلیکٹرز پر ایک متوازن ٹیم تشکیل دینے کا دباؤ ہوتا ہے، بلکہ کوچ کو بھی اپنی تمام تر مہارتیں استعمال کرنا پڑتی ہیں اور کپتان کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا پورا نچوڑ پیش کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ جان سکے کہ کس وقت اور کہاں کس کھلاڑی کو استعمال کرنا ہے۔
جنوبی افریقہ ہمیشہ ہی سے اپنے میدانوں پر انتہائی سخت حریف ثابت ہوا ہے خصوصاً اگر جنوبی ایشیائی ٹیموں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج تک یہاں کوئی ایشیائی ٹیم سیریز جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بحیثیت مجموعی پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش نے جنوبی افریقہ میں 15 سیریز کھیلی ہیں، 13 مرتبہ شکست کھائی اور صرف دو مرتبہ ہی ایسا ہوا کہ سیریز برابر ہوئی۔ ایک مرتبہ پاکستان نے 1998ء میں اور ایک مرتبہ بھارت نے 2011ء میں۔
بہرحال، اگر ہم دیگر ٹیموں کا جائزہ لیں تو صرف انگلستان اور آسٹریلیا ہی ایسے ممالک نظر آتے ہیں جن کے پاس جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز جیتنے کا ریکارڈ ہے، نہ صرف پابندی سے قبل کے ایام میں بلکہ اُس کے بعد بھی۔ بلکہ 2000ء سے اب تک تو دونوں ٹیموں نے جنوبی افریقہ میں کوئی سیریز ہی نہیں ہاری۔ جی ہاں، ان دونوں ٹیمو ں کے پاس یہ انوکھا اعزاز موجود ہے کہ گزشتہ 12 سالوں میں انہوں نے جنوبی افریقی سرزمین پر کسی ٹیسٹ سیریز میں شکست نہیں کھائی ہے۔ اسی دوران آسٹریلیا نے 2006ء میں تاریخی کلین سویپ بھی کیا تھا۔ اس عرصے میں آسٹریلیا نے مجموعی طور پر جنوبی افریقہ میں چار سیریز کھیلیں، تین میں فتح سمیٹی اور محض ایک برابری کی بنیاد پر ختم ہوئی۔ جو نومبر 2011ء میں محض دو ٹیسٹ میچز کی سیریز تھی۔ دوسری جانب انگلستان نے گزشتہ 12 سال میں یہاں دو مرتبہ سیریز کھیلیں اور ایک مرتبہ فتح سمیٹی اور ایک مرتبہ سیریز برابری کی بنیاد پر ختم ہوئی۔
اگر ان دونوں ٹیموں کے ریکارڈ کو ایک جانب رکھ دیا جائے تو باقی ٹیموں کے لیے معاملہ کافی خراب نظر آتا ہے۔ اندازہ مندرجہ ذیل ٹیبل سے لگائیے:
جنوبی افریقہ میں تمام ممالک کی کارکردگی
ٹیم | کل سیریز | مہمان کی فتح | مہمان کی ہار | برابر سیریز |
---|---|---|---|---|
18 | 10 | 5 | 3 | |
13 | 9 | 2 | 2 | |
7 | 0 | 6 | 1 | |
5 | 0 | 4 | 1 | |
4 | 0 | 3 | 1 | |
4 | 0 | 4 | 0 | |
3 | 0 | 3 | 0 | |
2 | 0 | 2 | 0 | |
2 | 0 | 2 | 0 |
انفرادی طور پر ذکر کریں تو سب سے پہلے بیٹنگ کو لیتے ہیں۔ دورہ کرنے والی تمام ٹیموں کے بیٹنگ اوسط دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ آسٹریلیا اور انگلستان سرفہرست ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقی سرزمین پر دونوں ٹیموں کی فتوحات کا تناسب بھی زیادہ ہے یعنی جنوبی افریقہ کواگر زیر کرنا ہے تو اس کے خلاف بیٹنگ کا چلنا بہت ضروری ہے۔ باقی وکٹیں تو ویسے ہی باؤلرز کے لیے مددگار ہیں، اس لیے مہمان ٹیموں کو زیادہ فکرمند اپنی بیٹنگ کے لیے ہونا چاہیے۔
اگر ہم مندرجہ ذیل ٹیبل میں سے پاکستان کے بیٹنگ اوسط کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف 22 رنز فی وکٹ ہے۔ یعنی پاکستانی بلے بازوں کےلیے جنوبی افریقہ کی تیز وکٹوں پر حریف باؤلرز کا سامنا کرنا بہت مشکل رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حالیہ دورے میں 'جیت کا فارمولا' بالکل سیدھا سادہ ہے، وکٹ پر ٹھہر جائیں، رنز خود بخود بنیں گے اور باقی کام باؤلرز پر چھوڑ دیں۔ اسی فارمولے کا ذکر کل ہی کپتان مصباح الحق نے بھی کیا ہے۔
دورہ کرنے والی ٹیموں کا جنوبی افریقہ میں بیٹنگ اوسط (فی وکٹ)
ٹیم | بیٹنگ اوسط (فی وکٹ) |
---|---|
33.09 | |
28.60 | |
24.65 | |
24.61 | |
21.92 | |
21.52 | |
21.34 | |
17.34 | |
16.63 |
پاکستان تیز باؤلنگ کے شعبے میں ہمیشہ ہی سے مالا مال رہا ہے اور جنوبی افریقہ جیسی تیز باؤلرز کے لیے مددگار کنڈیشنز میں پاکستانی باؤلرز کو زبردست مدد مل سکتی ہے اور ماضی میں ملی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں تیز باؤلرز کا اسٹرائیک ریٹ 66.9 ہے یعنی انہوں نے ہر بارہویں اوور میں وکٹ حاصل کی ہے جبکہ اسپنرز کا اوسط 73.7 ہے یعنی ہر تیرہویں اوور ہی میں کوئی وکٹ ان کے نصیب میں آئی ہے۔
ذیل کے ٹیبل میں واضح ہے کہ پاکستان کے باؤلرز کا اسٹرائیک ریٹ باقی ٹیموں کی نسبت کافی بہتر ہے۔ یعنی انہیں ہر گیارہویں اوور میں وکٹ ملتی ہے، اگر اسی اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ باؤلنگ کی گئی تو پاکستان جنوبی افریقہ کو ایک دن میں آل آؤٹ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے جب میزبان کی وکٹیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے گرتی رہیں گی، تو وہ بڑی مشکل سے 250 تک پہنچ پائے۔ لیکن یہ بات پاکستان پر بالکل عیاں ہے کہ آجکل جنوبی افریقہ کی بیٹنگ لائن اپ بہت مضبوط ہے، اور اسے جھکانے کے لیے پاکستانی باؤلرز کو اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کچھ کر دکھانا ہوگا۔
جنوبی افریقہ میں مہمان باؤلرز کا اسٹرائیک ریٹ
ٹیم | باؤلنگ اسٹرائیک ریٹ |
---|---|
65.1 | |
65.2 | |
67.0 | |
72.5 | |
73.7 | |
73.8 | |
80.9 | |
93.0 | |
108.4 |
جنوبی افریقہ میں پاکستان کے بلے باز ہمیشہ مشکلات کا شکار رہے ہیں اور کبھی کوئی بلے باز یہاں جم کر نہیں کھیل پایا، سوائے اظہر محمود کے، جنہوں نے 5 اننگز میں 65.40 کے اوسط سے 327 رنز بنا رکھے ہیں، بشمول دو سنچریوں کے۔ توفیق عمر نے جنوبی افریقہ میں اچھی بیٹنگ کر رکھی ہے۔ دو ٹیسٹ میچز میں 70 کے اوسط کے ساتھ انہوں نے 280 رنز بنائے ہیں۔ اس لیے اس مرتبہ بھی ان سے ایسی ہی کارکردگی کی توقع ہے۔
جنوبی افریقہ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے پاکستانی بلے باز
نام | میچز | اننگز | رنز | بہترین اسکور | اوسط | سنچریاں | نصف سنچریاں | |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|
انضمام الحق | 8 | 15 | 445 | 95 | 31.78 | 0 | 3 | |
اظہر محمود | 3 | 5 | 327 | 136 | 65.40 | 2 | 0 | |
یونس خان | 5 | 10 | 305 | 68 | 33.88 | 0 | 2 | |
توفیق عمر | 2 | 4 | 280 | 135 | 70.00 | 1 | 1 | |
محمد یوسف | 5 | 10 | 261 | 83 | 26.10 | 0 | 2 |
جنوبی افریقہ میں اک بڑا اہم مسئلہ فٹ رہنے کا بھی ہے۔ اگر پاکستان کے کھلاڑی پوری سیریز میں فٹ رہے تو سمجھیں 20 فیصد مرحلہ تو انہوں نے ویسے ہی طے کر لیا۔ خصوصاً باؤلرز کا فٹ رہنا بہت زیادہ ضروری ہے، اور سیریز میں کانٹے کے مقابلے کا تمام تر انحصار پاکستان کے تیز باؤلرز کے فٹ رہنے پر ہے۔ جنید خان، محمد عرفان اور عمر گل تینوں کا تال میل جنوبی افریقہ کے لیے کافی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پھر اس پر سعید اجمل اور عبد الرحمٰن کی باؤلنگ سونے پر سہاگہ ہوگی۔ لیکن تیز باؤلرز کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں آرام کے مواقع دینے کے لیے اسپنر کو اہم مواقع پر استعمال کیا جانا ضروری ہے۔
جنوبی افریقہ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے پاکستانی باؤلرز
نام | میچز | اننگز | دیے گئے رنز | وکٹیں | اوسط | |
---|---|---|---|---|---|---|
وقار یونس | 5 | 8 | 556 | 20 | 28.30 | |
محمد آصف | 3 | 6 | 351 | 19 | 18.47 | |
دانش کنیریا | 3 | 6 | 395 | 15 | 26.33 | |
مشتاق احمد | 3 | 4 | 280 | 13 | 21.53 | |
شعیب اختر | 4 | 7 | 293 | 10 | 29.30 |
جنوبی افریقہ میں پاکستان، چند دلچسپ اعداد و شمار
- جنوبی افریقہ کی سرزمین پر ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی طرف سے صرف 4 سنچریاں اسکور کی گئی ہیں، جن میں سے دو اظہر محمود نے بنائی ہیں۔
- توفیق عمر اور سعید انور نے ایک، ایک مرتبہ تہرے ہندسے کی اننگز کھیلی۔
- سلیم ملک نے جنوبی افریقہ میں صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلا ہے، جب 1995ء میں جوہانسبرگ میں ہونے والے واحد ٹیسٹ میں وہ 99 رنز پر آؤٹ ہو گئے تھے، اور دوسری اننگز میں وہ صرف ایک رن بنا پائے۔
- راشد لطیف نے1998ء کے دورۂ جنوبی افریقہ کے تیسرے ٹیسٹ میں پورٹ ایلزبتھ کے مقام اپنے کیریئر میں پہلی بار کپتانی کے فرائض انجام دیے اور دونوں ہی اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔ اسی سیریز میں عامر سہیل نے پہلے دونوں ٹیسٹ میچز میں کپتانی کی تھی، اور تیسرے میچ کے لیے قیادت راشد لطیف کے حوالے کر دی گئی تھی۔ سیریز 1-1 سے برابر رہی تھی۔
- جنوبی افریقی سرزمین پر پاکستان کی طرف سے وقار یونس نے میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دے رکھا ہے۔ وقار نے 1998ء کے اسی پورٹ ایلزبتھ ٹیسٹ میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ ان کے علاوہ محمد آصف نے دو مرتبہ اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے 2007ء کے آخری دورۂ جنوبی افریقہ میں یہ کارنامے انجام دیے۔