[یاد ماضی] کرکٹ تاریخ کے متنازع ترین آؤٹ

1 1,384

سنیل گاوسکر، 1981، آسٹریلیا بمقابلہ بھارت، تیسرا ٹیسٹ، ملبورن

یہ سیریز امپائروں کے ناقص فیصلوں کا شکار رہی جن کے بارے میں ہندوستانی کھلاڑیوں کا خیال تھاکہ بیشتر ان کے خلاف گئے۔ ڈینس للی کی ایک اندر آتی گیند پر سنیل گاوسکر چوک گئے اور گیند پیڈ پر لگی، للی نے زور دار اپیل کی اور امپائر نے انہیں آؤٹ قرار دیا۔ بلاشبہ گیند وکٹوں ہی میں جاتی لیکن گاوسکر کا کہنا تھا کہ گیند پہلے ان کے بلےکا کنارہ لے کر گئی ہے۔ ان یادوں کو تازہ کرتے ہوئے للی نے کہاکہ "ہمیں یقین تھا کہ وہ آؤٹ ہے، امپائر کے فیصلے سے صرف ایک ہی بندے کو مسئلہ تھا ، سنی کو، جو اس دن تک کبھی میرے خلاف رنز نہیں بنا پایا تھا۔" امپائر کے فیصلے سے مشتعل سنیل گاوسکر نے پویلین لوٹتے ہوئے دوسرے اینڈ پر کھڑے اپنے ساتھی بلے باز کو بھی میدان سے باہر لے جانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ انڈین ٹیم کے مینیجر درمیان میں آئے اور سنیل گاوسکر کو ایسی حرکت سے روکا تاکہ ایسا ٹیسٹ ختم نہ ہو جائے جو بھارت جیتنے جا رہا تھا۔

ڈین جونز، 1990-91ء، ویسٹ انڈیز بمقابلہ آسٹریلیا، دوسرا ٹیسٹ، گیانا

221 رنز کے بھاری خسارے تلے دبے آسٹریلیا کے لیے ڈین جونز کا "رن آؤٹ" بہت زبردست دھچکا تھا۔ جونز کورٹنی واش کی ایک نو-بال پر بولڈ ہو گئے تھے، اور امپائر کے اشارے سے نابلد پویلین کی جانب واپس جانے لگے۔ دوسرے اینڈ سے ایلن بارڈر نے ان کی توجہ دلائی، وہ کریز میں واپس دوڑے لیکن سلپ میں کھڑے کارل ہوپر نے گیند پھینک کر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی وکٹیں اکھاڑ دیں، ٹیم نے رن آؤٹ کی اپیل کی۔ یوں وہ آؤٹ قرار پائے۔

کرس براڈ، 1987ء، انگلستان بمقابلہ پاکستان، تیسرا ٹیسٹ، ہیڈنگلے

اننگز کی پہلی گیند کو چوکے کی راہ دکھانے کے بعد اگلی ہی گیند پر براڈ عجیب و غریب طریقے سے آؤٹ ہوئے۔ عمران خان کی گیند کو انہوں نے چھوڑا، اور گیند کی زد ميں آنے سے بچنے کے لیے اپنے ایک ہاتھ سے بلے کی گرفت بھی چھوڑ دی لیکن گیند اسی دستانے کو چھو کر نکل گئی – جو چھوتے وقت بلے سے بالکل الگ تھا۔ گو کہ قانون کے مطابق یہ ناٹ آؤٹ تھا لیکن امپائر ڈیوڈ شیفرڈ نے انہیں واپسی کا پروانہ پکڑا دیا۔ عمران خان نے 40 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستان نے یہ میچز اننگز اور 18 رنز سے جیتا۔

کرس براڈ، 1987-88ء، پاکستان بمقابلہ انگلستان، پہلا ٹیسٹ، لاہور

اب پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم میں ایک مرتبہ پھر کرس براڈ تھے۔ پہلا ٹیسٹ دونوں ٹیموں کے لیے انتہائی غلط فیصلوں کا حامل رہا، اور انگلستان، جس نے 217 رنز کے خسارے کے ساتھ اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا، یہ سمجھتا رہا کہ اس کے خلاف زیادہ فیصلے گئے۔ براڈ نے اقبال قاسم کی گیند کو کھیلنے کی کوشش کی اور گیند بظاہر ان کے بلے سے کئی انچ دور کے فاصلے سے گزری لیکن امپائر نے انہیں وکٹوں کے پیچھے کیچ قرار دیا۔ مشتعل براڈ نے سر کو ہلاتے ہوئے کریز سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ "میں نے ہٹ نہیں کی، میں نہیں جا رہا، تمہیں اچھا لگے یا برا لگے، میں یہیں کھڑا ہوں" وہ الفاظ جو اس کے بعد براڈ نے ادا کیے۔ ایک منٹ سے زائد وقت تک کریز پر کھڑے رہنے کے بعد ساتھی گراہم گوچ نے انہیں میدان سے باہر بھیجا۔ خیر، اس کے بعد فیصل آباد ٹیسٹ میں جو ہوا وہ اس سے بھی بدتر تھا۔

ایلون کالی چرن، 1973-74ء، ویسٹ انڈیز بمقابلہ انگلستان، پہلا ٹیسٹ، پورٹ آف اسپین

ایلون کالی چرن کا انوکھا آؤٹ (تصویر: The Cricketer)
ایلون کالی چرن کا انوکھا آؤٹ (تصویر: The Cricketer)

جب برنارڈ جولین نے ڈیرک انڈر ووڈ کی جانب سے پھینکی گئی دن کی آخری گیند کھیلی، اور کھلاڑی پویلین کی جانب لوٹنے لگے تو کالی چرن کی بیلز اڑا دی گئیں۔ ٹونی گریگ، جو سلی پوائنٹ پر فیلڈنگ کررہے تھے، نے دیکھا کہ نان اسٹرائیکر اینڈ پر ایلون کالی چرن واپسی کا سفر کر رہے ہیں اور انہوں نے تھرو کر کے باؤلرز اینڈ پر وکٹیں اڑا دی ہیں۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن گریگ نے اپیل کی اور امپائر ڈوگلس سانگ ہو نے کالی چرن کو آؤٹ قرار دیا جو اس وقت 142 رنز پر کھیل رہے تھے۔ میدان میں موجود بیشتر تماشائیوں کو اس بارے سمجھ نہیں آیا اور جب شام تک معاملات مزید واضح ہوئے تو یہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ بالآخر عقل سے کام لیتے ہوئے دونوں ٹیموں کے مینیجرز نے فیصلہ کیا کہ کالی چرن کے خلاف اپیل واپس لیتے ہوئے انہیں دوبارہ کھیلنے کا موقع دیا جائے گا اور وہ اگلے روز میدان میں آئے بھی اور 158 رنز پر ان کی اننگز تمام ہوئی لیکن گریگ کا کیریبین تماشائیوں کے ساتھ "محبت بھرا" تعلق ہمیشہ کے لیے قائم ہو گیا۔

ونو منکڈ، 1947ء، آسٹریلیا بمقابلہ بھارت، دوسرا ٹیسٹ، سڈنی

مشہور واقعہ، جس نے انگریزی میں "Mankadded"کی اصطلاح متعارف کروائی۔ سڈنی میں کھیلے گئے ابتدائی ٹور میچ میں منکڈ نے آسٹریلیا کے اوپنر بل براؤن کو خبردار کیا کہ وہ گیند پھینکنے سے قبل دوڑنے کی کوشش نہ کریں، اور جب انہوں نے اس مشورے کو درخور اعتنا نہ سمجھا تو منکڈ نے انہیں رن آؤٹ کر دیا۔ گو کہ اس فیصلے کے بارے میں تنازع موجود رہا لیکن ایک ماہ بعد اسی میدان پر پہلے ٹیسٹ کے دوران منکڈ نے براؤن کو بغیر کسی تنبیہ کے اسی طرح رن آؤٹ کر دیا۔ براؤن انتہائی غصے میں آ گئے، لیکن آسٹریلیا کے کپتان ڈان بریڈمین نے انہیں ٹھنڈا کر کے اس فیصلے کا دفاع کیا۔

وین فلپس، 1985ء، انگلستان بمقابلہ آسٹریلیا، پہلا ٹیسٹ، ہیڈنگلے

فلپس نے جان ایمبرے کی گیند کو کٹ کیا اور وہ سلی پوائنٹ پر کھڑے ایلن لیمب کے پاؤں کے پچھلے حصہ سے ٹکرا کر اچھلی اور سلی مڈ-آف پر کھڑے ڈیوڈ گاور کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ امپائر ڈیوڈ شیفرڈ اور ڈیوڈ کوننٹ نے مشورے کے بعد فلپس کو آؤٹ قرار دیا، جس سے بلے باز ہر گز خوش نظر نہ آئے۔ لیکن ری پلے نے ظاہر کیا کہ ممکنہ طور پر فیصلہ درست تھا، لیکن تھرڈ امپائر سے پہلے کے ان ایام میں آسٹریلیا کایہ دعویٰ بجا تھاکہ شک بہت زیادہ تھا جس کا فائدہ بلے باز کو ملنا چاہیے تھا۔

سچن تنڈولکر، 1998ء، بھارت بمقابلہ پاکستان، پہلا ٹیسٹ، ایڈن گارڈنز

تاریخ میں سب سے زیادہ تماشائیوں کی جانب سے دیکھا گیا ٹیسٹ مقابلہ، ایک لاکھ سے زائد تماشائی ایڈن گارڈنز میں موجود تھے اور شعیب اختر سے ٹکرانے کے باعث ہونے والے سچن کے رن آؤٹ کے بعد انہوں نے زبردست ہنگامہ آرائی کی ۔ ندیم خان نے گیند کو باؤنڈری لائن تک پہنچنے سے روکنے کے بعد نان اسٹرائیکر اینڈ پر تھرو پھینکی جو براہ راست وکٹوں کو لگی اور اس گیند کو پکڑنے کے لیے موجود شعیب اختر عین سچن کے راستے میں تھے اور دونوں اس امر سے لاعلم کہ ان دونوں میں ٹکراؤ ہونے والا ہے۔ جب گیند وکٹوں کو لگی تو سچن شعیب سے ٹکرائے ہوئے تھے اور کریز تک نہیں پہنچے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں امپائروں نے آؤٹ قرار دیا۔ تماشائیوں نے ہنگامہ آرائی کر کے اسٹیڈیم سر پر اٹھا لیا، یہاں تک کہ خود سچن کو میدان کا چکر لگا کر انہیں ٹھنڈا کرنا پڑا۔ کھیل درمیان میں 46 منٹ رکا رہا اور پھر دوبارہ شروع ہوا۔

اینڈریو ہلڈچ، 1979ء، آسٹریلیا بمقابلہ پاکستان، دوسرا ٹیسٹ، پرتھ

انضمام الحق اسٹیو ہارمیسن کی تھرو پر زخمی ہونے سے تو بچ گئے لیکن وکٹ نہ بچا سکے، بہت متنازع انداز مین آؤٹ دیے گئے (تصویر: Getty Images)
انضمام الحق اسٹیو ہارمیسن کی تھرو پر زخمی ہونے سے تو بچ گئے لیکن وکٹ نہ بچا سکے، بہت متنازع انداز مین آؤٹ دیے گئے (تصویر: Getty Images)

ہلڈچ کو ہینڈلڈ دی بال آؤٹ دیا گیا اور یوں وہ تاریخ کے پہلے بلے باز بن گئے جنہیں نان اسٹرائیکر پر اس طرح آؤٹ قرار دیا گیا۔ ہلڈچ نے پچ پر آنے والی ایک تھرو کو پکڑا اور گیند واپس سرفراز نواز کو دی، جن کی اپیل نے امپائر نے ہلڈچ کو آؤٹ قرار دیا۔ کہا جاتا ہے اس کا مقصد غالباً اسی روز پاکستان کے آخری بلے باز سکندر بخت کو باؤلر کے گیند پھینکنے سے قبل کریز چھوڑنے کے باعث کیے گئے رن آؤٹ کا بدلہ لینا تھا۔ جنہیں ایلن ہرسٹ نے باؤلرز اینڈ پر رن آؤٹ کیا تھا۔

لین ہٹن، 1951ء، انگلستان بمقابلہ جنوبی افریقہ، پانچواں ٹیسٹ، اوول

انگلستان کے کپتان لین ہٹن نے ایتھل رووَن کو سویپ کھیلنے کی کوشش کی، گیند ہوا میں اچھلی اور وکٹ کیپر رسل ایڈین نے کیچ کے لیے انتظار کیا، ہٹن، جن کے بقول کہ وہ یہ سمجھے کہ گیند وکٹوں کو جا لگے گی، اس لیے انہوں نے بلے سے گیند کو ہٹا دیا۔کچھ سوچ بچار کے بعد امپائروں نے ہٹن کو آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ آؤٹ دیا، جو ٹیسٹ کی تاریخ میں ایسا پہلا موقع تھا۔

انضمام الحق، 2005ء، پاکستان بمقابلہ انگلستان، دوسرا ٹیسٹ، فیصل آباد

فیصل آباد میں کھیلے گئے اک میچ میں انوکھا واقعہ پیش آیا۔ انضمام الحق نے گیند کو باؤلر اسٹیو ہارمیسن کی جانب سے واپس کھیلا، جنہوں نے فوری طور پر گیند پکڑ کر اسے واپس تھرو کیا۔انضمام ، جو کریز سے باہر تھے، گیند کی زد میں آنے سے بچنے کے لیے ہٹے اور وہ براہ راست وکٹوں پر جا لگی۔ اپیل کےامپائر ڈیرل ہیئر نے، تھرڈ امپائر ندیم غوری کے مشورے سے، انہیں آؤٹ قرار دیا۔ جو کرکٹ کے قوانین کی صریح خلاف ورزی تھا۔

ترجمہ شدہ بشکریہ : کرک انفو "Ten controversial dismissals"
لکھاری: ول لیوک اور مارٹن ولیم سن، انضمام الحق والا حصہ: عثمان سمیع الدین