آسٹریلیا کے پاس بچی کچھی ساکھ بچانے کا آخری موقع
یوں تو عالمی کپ 2011ء سے قبل ہی آسٹریلوی کرکٹ کے زوال کی تمہید بندھ چکی تھی لیکن یہ زوال اس تسلسل کے ساتھ ہوگا، اس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
عالمی کپ 2011ء میں گرچہ آسٹریلیا کی دعویداری پہلے جیسی تو نہیں تھی اس کے باوجود ماہرین بر صغیر کی ٹیموں کے لئے سابق عالمی چمپئن کو ہی سب سے بڑا خطرہ سمجھ رہے تھے۔ حیرت انگیز طور پر اس خطرے کا سد باب بھی برصغیر کی ٹیموں نے ہی کیا۔ پاکستان نے جہاں آسٹریلیا کی عالمی کپ ٹورنامنٹس میں مسلسل چلی آ رہی فتوحات کا خاتمہ کر ڈالا وہیں بھارت نے ناک آؤٹ مرحلے میں انہیں اکھاڑے سے ہی باہر پھینک ڈالا۔ یو ں تین دفعہ کا عالمی چمپئن بھارتی سرزمین پر اپنے اعزاز کا دفاع نہ کر سکا۔
اب ایک دفعہ پھر بھارتی سرزمین پر ہی آسٹریلوی ٹیم کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اولین دوٹیسٹ میچوں میں بدترین شکست اور تیسرے ٹیسٹ میچ میں بارش کی مداخلت کے باوجود چار دنوں میں ذلت آمیز ہار نے آسٹریلیا کا رہا سہا وقار بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ موہالی میں ملنے والی 6وکٹوں کی ہزیمت نے آسٹریلوی کرکٹ کی تاریخ میں ایک بھیانک باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا کبھی بھارت کے خلاف 0-2سے زیادہ کے فرق سے سیریز نہیں ہارا تھا۔ اس سیریز سے قبل بھارت آسٹریلیا کے خلاف 22 سیریز کھیل چکا تھا، جن میں چھ مرتبہ وہ آسٹریلیا کو6مرتبہ زیر کرنے میں کامیاب ہوا۔ یہ تمام کامیابیاں اسے اپنے میدانوں پر نصیب ہوئیں۔ موجودہ سیریز سے قبل بھارت آسٹریلیا کو تین مرتبہ دو-صفر کے مارجن سے شکست دے چکا ہے۔ پہلی دفعہ 1979-80میں کھیلی گئی 6 میچوں کی سیریز میں۔ جس کا پہلا، دوسرا، چوتھا اور پانچواں ٹیسٹ میچ ڈرا ہوا، جبکہ تیسرے اور چھٹے ٹیسٹ میچ میں بھارت نے آسٹریلیا کو بدترین شکستیں دی تھیں۔ 1979-80ء کی یہ فتح بھارت کی آسٹریلیا کے خلاف پہلی سیریز فتح بھی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آسٹریلوی کرکٹ ٹیم اپنے بدترین دور سے گزر رہی تھی۔ ایشیز میں انگلینڈ کے خلاف 1-5 کی رسوائی، پاکستان سے 1-1 کی برابری اور پھرعالمی کپ 1979ء میں مایوس کن مظاہرے کے بعد بھارت کے ہاتھوں ہونے والی یہ پہلی سیریز شکست، اس زمانے میں آسٹریلیا کو ملنے والی مسلسل ناکامیوں کی داستانیں ہیں۔
دوسری مرتبہ بھارت نے دو-صفر ہی کے مارجن سے ہرانے کا سہرا 2008-09ء میں اپنے سر باندھا۔ اس سیریز کے دو میچ نتیجے پر پہنچے بغیر اختتام پذیر ہوئے تھے۔ مذکورہ سیریز کے کے پہلے اور تیسرے میچ کی کپتانی انیل کمبلے اور دوسرے اور چوتھے میچ کی کپتانی مہندر سنگھ دھونی نے کی تھی۔
تیسری دفعہ 2010-11ء میں کھیلی گئی دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھارت نے آسٹریلیا کو دونوں میچوں میں شکست دے کر مسلسل تیسری سیریز جیتی۔ اس کے سوا بھارت کی پوری کرکٹ تاریخ میں آسٹریلیا کے خلاف کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں پایا جاتا۔ سوائے 2001ء میں کھیلی گئی اس یادگار ترین سیریز میں جس کے دوسرے ٹیسٹ میں کولکتہ کے تاریخی میدان پر فالو آن پر مجبور ٹیم انڈیا کی ڈوبتی کشتی کو وی وی ایس لکشمن اور راہل دراوڈ نے ناقابل یقین انداز میں نکالی تھی۔ اس مقابلے میں بھارت اننگز کی شکست کے خطرے سے دوچار تھا لیکن ان دونوں بلے بازوں نے اسے 171 رنز کی تاریخی اور شاندار جیت سے ہمکنار کر دیا۔
بھارت۔ آسٹریلیا کے درمیان کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریزوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آسٹریلیا کو بھارتی سرزمین پر اور بھارت کو آسٹریلوی سرزمین پر سخت مشکلیں پیش آ ئی ہیں۔ تاہم آسٹریلیا کا موجودہ دورۂ بھارت اس کے لئے سب سے زیادہ آزمائشی اور پریشان کن ثابت ہوا ہے۔
دو ٹیسٹ میچوں کی متواتر شکستوں کے بعد جب آسٹریلیا کو بقیہ دو ٹیسٹ میچوں میں لازمی فتح ناگزیر تھی، عین اسی و قت ٹیم میں پیدا ہونے والے انتشار اور چار سرکردہ کھلاڑیوں کے ٹیم سے اخراج نے میزبان ٹیم کی مصیبتوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ کوچ مکی آرتھر کا ’’جرات مندانہ‘‘ فیصلہ ٹیم کے دائمی استحکام میں کتنا مدد گار ثابت ہوتا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فوری طور پر تو اس نے آسٹریلیا کرکٹ کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ضرور لکھ ڈالا۔
اب آج یعنی 22 مارچ سے شروع ہونے والے چوتھے اور آخری ٹیسٹ میچ میں بھارت کے پاس تو کھونے کو کچھ نہیں، لیکن آسٹریلیا کے سامنے اک بڑا سوال کھڑا ہے کہ کیا وہ آخری معرکے میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو کسی حد تک بحال کر پائے گا؟ اب جبکہ کپتان مائیکل کلارک بھی ان فٹ ہو کر چوتھے مقابلے سے باہر ہو چکے ہیں، شین واٹسن دورے پر آسٹریلیا کو واحد فتح سے ہمکنار کر پائیں گے؟ اس کا جواب آنے والے چند دنوں میں مل جائے گا۔