شاہد آفریدی کو ون ڈے ٹیم سے نکال دینا چاہیے: عامر سہیل
پاکستان کا دورۂ جنوبی افریقہ مثبت نتائج حاصل کیے بغیر اپنے اختتام کو پہنچا۔ محدود اوورز کے مرحلے میں ملی جلی کارکردگی نے کسی حد تک قومی ٹیم کی لاج بھی رکھی اور ٹیم میں "انقلابی" تبدیلیوں کا راستہ بھی روکا، ورنہ ٹیسٹ سیریز نے تو ٹیم کو کسی قابل ہی نہ چھوڑا تھا۔ اب جبکہ کھلاڑی وطن واپس پہنچ چکے ہیں اور قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں بھی شریک ہیں، قومی کرکٹ کے پنڈت کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں تاکہ اگلے اور اہم مرحلے چیمپئنز ٹرافی کے لیے درست ترین ٹیم کا انتخاب کیا جا سکے۔
دوسری جانب ماہرین کرکٹ بھی مستقبل کے منظرنامے کےبارے میں پیش بینی کر رہے ہیں، انہی میں سابق کپتان عامر سہیل بھی شامل ہیں جنہوں نے موجودہ حالات پر ایک سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔
معروف کرکٹ ویب سائٹ پاک پیشن سے کی گئی گفتگو میں، جس ایک نقل خصوصی طور پر کرک نامہ کو بھی ارسال کی گئی ہے، عامر سہیل کا کہنا ہے کہ "شاہد آفریدی ایک روزہ ٹیم سے نکال دینا چاہیے۔" ماضی میں عامر سہیل اور شاہد آفریدی کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہو چکا ہے اور عامر کے نئے بیان سے ہو سکتا ہے کہ اک نیا تنازع کھڑا ہو جائے۔ بہرحال، عامر سہیل کا کہنا تھا کہ مصباح الحق کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ایک روزہ ٹیم کے لیے آپشنز پر غور کریں۔ پاکستان کے بعد محمد حفیظ، شعیب ملک، شاہد آفریدی اور سعید اجمل کی صورت میں اسپن باؤلرز موجود ہیں۔ انگلستان میں آپ کو بہت زیادہ اسپن گیندبازوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس وقت چار اسپن باؤلرز کے ساتھ ایک روزہ ٹیم کا توازن بگڑا ہوا ہے۔ میرے لیے حفیظ اور اجمل پہلی پسند ہیں کیونکہ وہ زیادہ تر آپ کو اپنے 20 اوورز میں گیند پر کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔ پھر ہمیں شاہد آفریدی اور شعیب ملک میں سے کسی ایک انتخاب کرنا ہوگا کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ دونوں کا ون ڈے ٹیم میں موجود ہونا پاکستان کے لیے فائدہ مندہ ہوگا۔ میں اس صورت میں شعیب ملک کو منتخب کروں گا کیونکہ وہ زیادہ قابل بھروسہ بیٹنگ آپشن ہے اور میری ذاتی رائے میں آفریدی کو ایک روزہ ٹیم سے ڈراپ کر دینا چاہیے۔
مصباح الحق اور ان کی قیادت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان نے کہا کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد چند وجوہات کی بنیاد پر مصباح الحق پر سخت تنقید کرتی ہے لیکن بحیثیت کپتان اور دستیاب وسائل کے حساب سے انہوں نے اب تک بہت اچھی خدمات انجام دی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں چند شعبوں میں ضرور ان سے کوتاہی ہوئی لیکن پاکستان کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے اب تک بحیثیت مجموعی ان کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند افراد کہہ رہے ہیں کہ مصباح کو قیادت سے ہٹا دینا چاہیے اور ایک روزہ ٹیم سے بھی نکال دینا چاہیے لیکن یہ حل نہیں ہے۔ پاکستان کرکٹ کو مصباح میں باقی کھیل کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس وقت ٹیم میں مصباح جیسے تجربے کی ضرورت ہے اور انہیں قیادت سے محروم کر کے ایک روزہ ٹیم سے نکال دینا غلط سمت میں قدم ہوگا۔
جنوبی افریقہ میں شکست کے حوالے سے عامر سہیل نے کہا کہ اس شکست کی اصل وجہ نہ کوچ ہیں، نہ کپتان اور نہ ہی کوئی انفرادی کھلاڑی، بلکہ اس کی وجہ پاکستان کرکٹ کا ڈھانچہ ہے۔ ہمارے ہاں کھلاڑی جس طرح کی وکٹوں پر کھیلتے ہیں، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور انگلستان جیسے ممالک میں انہیں بالکل ہی مختلف پچوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کا نتیجہ وہی نکلنا ہے جو ان ممالک میں ہمارے حالیہ ریکارڈز کی صورت میں موجود ہے۔ آسٹریلیا کے آخری دورے میں ہم کوئی مقابلہ نہ جیت سکے اور انگلستان میں بھی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ اس لیے بہتر ہے کہ پاکستان "اے" ٹیموں کو ان ممالک کے دوروں پر بھیجا جائے تاکہ نوجوان کھلاڑی اس طرح کی کنڈیشنز کو سمجھ سکیں اور خود پاکستان میں بھی گرین ٹاپ وکٹیں تیار ہوں تاکہ بلے باز ان پچوں سے مانوس ہو سکیں۔
تجربہ کار بلے باز یونس خان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہیں آخری موقع دینا چاہیے۔ جون میں انگلستان میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں ان کا تجربہ پاکستان کے کام آ سکتا ہے، خصوصاً اس صورت میں جب پاکستان گیندبازوں کے لیے مددگار حالات میں حریف ٹیم کو کم اسکور پر محدود کر دے، اس صورت میں پاکستان کو یونس جیسے کھلاڑی کی ضرورت پڑے گی۔ عامر سہیل نے عمر گل کی حالیہ فارم کے بارے میں کہا کہ میرے خیال میں اب وقت آ چکا ہے کہ پاکستان ایک اور سیمر تیار کرے۔ محمد عرفان، جنید خان اور راحت علی کی صورت میں نئے گیندباز بہت خوبی کے ساتھ عالمی افق پر جلوہ گر ہوئے ہیں، اسی طرح اگر مزید نوجوان کھلاڑیوں کو سامنے لایا جائے، ان کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے تو بات بن سکتی ہے۔
عامر سہیل نے چیمپئنز ٹرافی کے لیے دستے میں عمر امین اور حماد اعظم کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ گیم پلان میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسپنرز پر بہت زیادہ بھروسہ کرنے لگا ہے اور یہ حکمت عملی اب پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان کو تین تیز باؤلرز اور دو حقیقی آل راؤنڈرز کے ساتھ کھیلنے کی ضرورت ہے۔