[آج کا دن] دنیائے کرکٹ کا "ڈان II" پیدا ہوا
دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ ڈان بریڈمین اک ایسے عہد سے تعلق رکھتے تھے جس میں کرکٹ دیکھنے کے لیے میدانوں کا رخ کرنا پڑتا تھا۔ لیکن ایک ایسا بلے باز دور جدید میں موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے ڈان کو دیکھنا ہے اس کو دیکھ لے۔ کرکٹ کے تمام بڑے ریکارڈز اس کے قبضے میں ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جن پر اس کا دور دور تک کوئی مقابل نہیں۔ یہ ہے "ڈان II" سچن رمیش تنڈولکر!
آج اپنا 40 واں جنم دن منانے والے اس عظیم بلے باز کو خداداد صلاحیتوں کے باعث جوانی ہی میں اتنی شہرت مل گئی تھی کہ تاریخ میں شاید ہی کسی بلے باز کو حاصل ہوئی ہو۔ نومبر 1989ء میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان کے خلاف اپنے کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد سچن نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 1990ء میں انگلستان کے خلاف اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ بچانے سے لے کر بنگلہ دیش کے خلاف ایشیا کپ میں 100 ویں بین الاقوامی سنچری تک، ان کے ایک، ایک رن کو شائقین کی جانب سے داد ملتی رہی۔
ریکارڈز کا کیا ذکر کیا جائے؟ سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز، سب سے زیادہ ون ڈے رنز، سب سے زیادہ ٹیسٹ سنچریاں، سب سے زیادہ ون ڈے سنچریاں، سب سے زیادہ ٹیسٹ نصف سنچریاں، سب سے زیادہ ون ڈے نصف سنچریاں، سب سے زیادہ ٹیسٹ چوکے، سب سے زیادہ ون ڈے چوکے، ون ڈے کی پہلی ڈبل سنچری، سب سے زیادہ مین آف دی میچ ایوارڈز، ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ رنز، کسی واحد ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز، سب سے زیادہ ٹیسٹ اور سب سے زیادہ ون ڈے میچز، ون ڈے میں سب سے طویل شراکت داری کا ریکارڈ اور ایک طویل فہرست ہے ریکارڈز کی جو سچن کے قدموں تلے ہیں۔
اگر چند یادگار کارکردگیوں کا ذکر کیا جائے تو محض 16 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کا آغاز کرتے ہی سچن کو وقار یونس کی گیند منہ پر لگی، لیکن ان کی جرات مندی دیکھئے کہ خون بہنے کے باوجود انہوں نے اپنی اننگز مکمل کی۔ صرف 17 سال کی عمر میں انہوں نے اولڈ ٹریفرڈ میں سنچری داغ کر بھارت کے لیے میچ بچایا اور 25 سال کی عمر سے بھی پہلے، جب کئی کھلاڑی اپنے کیریئر کا آغاز بھی نہیں کر پاتے، سچن 16 ٹیسٹ سنچریاں بنا چکے تھے۔
اولڈ ٹریفرڈ کی اس سنچری کے بعد ان کی دوسری یادگار ترین کارکردگی آسٹریلیا، بلکہ شاید دنیا ، کی تیز ترین وکٹ پر تھی۔ فروری 1992ء میں واکا، پرتھ میں ہونے والے میچ میں گو کہ فتح آسٹریلیا نے حاصل کی لیکن پہلی اننگز میں نوجوان سچن نے جس جوانمردی سے آسٹریلوی باؤلرز کا مقابلہ کیا، اس نے آسٹریلوی تماشائیوں کو بھی داد دینے پر مجبور کر دیا۔
کوکا کولا کپ 1998ء میں آسٹریلیا کے خلاف آخری گروپ مقابلے اور پھر فائنل میں سچن کی سنچریاں آخر کس کو یاد نہ ہوں گی۔ جب دنیا کے بہترین باؤلر شین وارن کی سچن کے سامنے ایک نہ چلی۔ دونوں مقابلوں میں سچن کی کارکردگی کی بدولت بھارت نے فتح حاصل کی اور ٹرافی اپنے نام کی۔
1999ء میں پاکستان بھارت کے دورے پر گیا اور چنئی میں ایک یادگار مقابلہ کھیلا گیا۔ 271 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بھارت کی نصف ٹیم محض 82 رنز پر ڈھیر ہوئی جب سچن نے وکٹ کیپر نیان مونگیا کے ساتھ مل کر بھارت کی کشتی تقریباً لگا دی تھی۔ دونوں نے چھٹی وکٹ پر 136 رز جوڑے۔ جب بھارت کو فتح کے لیے صرف 17 رنز کی ضرورت تھی جو سچن ثقلین مشتاق کی 'جادوئی گیند' کا شکار ہو گئے اور پھر وہی ہوا کہ "سچن موجود بھارت فتح، سچن واپس بھارت کی شکست یقینی"، ہندوستان 12 رنز سے مقابلہ ہار گیا۔
اس کے علاوہ عالمی کپ 2003ء میں پاکستان کے خلاف 98 فتح گر رنز، جس میں شعیب اختر کو لگایا گیا "وہ" تاریخی چھکا بھی شامل ہے جس نے پاکستانی اسپیڈسٹر کے سحر کا خاتمہ کیا۔
ان کے بلے سے نکلنے والی آخری ناقابل فراموش اننگز فروری 2010ء میں گوالیار کے میدان میں کھیلی گئی جہاں انہوں نے دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے خلاف ایسا کارنامہ انجام دے ڈالا جو ایک روزہ کرکٹ کی 40 سالہ تاریخ میں کسی نے نہیں دکھایا تھا۔ جنوبی افریقہ کے خلاف انہوں نے ناقابل شکست 200 رنز بنائے اور ایک روزہ کی پہلی ڈبل سنچری کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ 147 گیندوں پر 3 چھکوں اور 25 چوکوں سے مزین یہ اننگز بلاشبہ ون ڈے کرکٹ کی بہترین اننگز میں ایک تھی اور نہ صرف سچن بلکہ اس میچ کو دیکھنے والے شائقین کو بھی تاعمر یاد رہے گی۔
اتنے ریکارڈز کو روندنے کے باوجود سچن کی اک خواہش ایسی تھی جو کبھی پوری نہ ہوئی تھی، ورلڈ کپ تھامنا۔ ان کی موجودگی میں کبھی ٹیم انڈیا پہلے مرحلے میں باہر ہوئی تو کبھی سیمی فائنل میں پہنچ کر یہاں تک کہ 2003ء میں فائنل تک رسائی کے بعد بھی اسے جیتنا نصیب نہ ہوا۔ 2011ء ہی آخری موقع تھا جس میں سچن اس خواب کو پورا کر سکتے تھے کیونکہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ 2015ء کا عالمی کپ کھیلنا شاید ان کی بس کی بات نہ ہو۔ بہرحال، آخری موقع کا بھارت نے فائدہ اٹھایا اور سچن کو عالمی کپ اٹھانے کے خواب کی تعبیر فراہم کی۔
بھارت میں انہیں 'کرکٹ کا بھگوان' مانا جاتا ہے۔ ہندوستانی شائقین کرکٹ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنے دیوتا کے خلاف ایک لفظ نہیں۔ شعیب اختر نے اپنی کتاب "Controversially Yours" میں جب سچن کے بارے میں لکھا کہ وہ ان کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ تو اس پر شعیب اختر بھارت کی ناپسندیدہ ترین شخصیت بن گئے۔
بھارت کی گزشتہ دو دہائیوں سے زائد کی تاریخ سے اگر صرف اس ایک کھلاڑی کو نکال دیا جائے تو وہ کچھ نہیں رہ جاتی۔ سچن کے ریکارڈز ایک طرف، ان کے کھیلنے کا دلکش انداز اور دنیا کے بہترین باؤلرز کو ان کے سامنے بے بس ہوتے دیکھنا انہیں کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اگر بھارتی کرکٹ کی تاریخ میں صرف سچن نہ ہو تو وہ ایک بے رنگ داستان ہوگی۔