لیگ اسپن، ایک مرتا ہوا آرٹ

3 1,161

زمین کے جنوبی نصف کرے میں موسم مختلف ہوتے ہیں، جب خط استواء سے اوپر کے ممالک میں لوگ سردی سے بچنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں ان ایام میں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں لوگ مختصر لباسوں میں دھوپ سینکتے ہیں۔ ملبورن میں اسی موسم کے انتہائی گرم دنوں میں سے ایک، جب آگ برساتا سورج ایم سی جی کی ہموار پچ پر برس رہا تھا۔ ادھیڑ عمر کا ایک گیندباز اپنے عجیب و غریب ایکشن کے باعث نظروں کا مرکز بنا ہوا تھا، بار بار اپنے ہاتھوں کو زبان سے گیلا کر کے گیند چمکاتے ہوئے رن اپ کے لیے تیار تھا۔ اس نے نپے تلے قدموں سے امپائر کے پاس سے گزرتے ہوئے گیند پھینکی جو ایک اسپنر کے لحاظ سے کچھ تیز تھی اور کارلٹن کلب کے وکٹ کیپر بوٹیرا نے انداز لگا لیا کہ یہ گیند آف اسٹمپ کے بہت باہر ٹپہ کھائے گی اور غالب امکان ہے کہ وائیڈ ہی ہو جائے۔ کچھ ایسی ہی سوچ بلے باز لارکن کی بھی تھی، جو اپنے بازو تقریباًاٹھا ہی چکے تھے کہ ٹپہ پڑتے ہی گیند اچانک آف اسٹمپ کی جانب 'ڈرفٹ' ہونا شروع ہو گئی اور تیزی سے زمین کی جانب 'ڈپ' بھی ہوئی۔ بلے باز کو یکایک خطرہ محسوس ہوا لیکن وقت ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ گیند ٹپہ پڑنے کے مقام سے تقریباً ڈیڑھ فٹ اندر کی طرف گھومی اور مڈل اسٹمپ کو جا لگی۔ ایک ناقابل یقین گیند، بلے باز، وکٹ کیپر، نان اسٹرائیکر اور امپائر سب سحر زدہ ہو گئے۔ صرف ایک شخص کے لیے یہ سب کچھ ناقابل یقین نہ تھا، وہ تھا خود باؤلر جس کا نام تھا عبد القادر!

Abdul-Qadir

ڈیڑھ دو دہائی کے بعد دوسرا منظر، چھوٹے سے قد کا باؤلر میدان میں موجود، یہ میچ نہ صرف ان کے کیریئر بلکہ پوری ٹیم کے لیے زندگی کا سب سے اہم اور بڑا میچ تھا۔ حریف ٹیم کے بلے بازوں کی شراکت جم چکی تھی اور دونوں اینڈ پر موجود بلے باز تیز باؤلرز کو باآسانی کھیل رہے تھے۔ کپتان نے حالات کو بھانپتے ہوئے اپنے نوجوان لیگ اسپنر کو گیند تھما دی۔ سب جانتے تھے کہ گریم ہک شروع میں اسپنرز کو صحیح طریقے سے نہیں کھیل پاتا۔ اپنے پسندیدہ باؤلر کے ایکشن میں گیند کرانے والے مشتاق احمد نے اس موقع پر اپنا سب سے مہلک ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کیا کہ اسے استعمال کرنے کا سب سے موزوں وقت یہی تھا۔ گیند آئی اور ہک نے لائن اور لینتھ دیکھ کر کٹ کھیلنے کا ارادہ کیا اور اپنے جسم کو اسی زاویے سے گھمایا لیکن آخری لمحات میں انہیں اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا کہ وہ عالمی کپ فائنل جیسے اہم میچ میں 'رانگ ون' کو نہیں سمجھ سکا۔ گیند پیڈ پر لگی مشتاق احمد اور معین خان نے زبردست اپیل کی اور امپائر نے انگلی اٹھا دی۔ ہک شرمندگی و خجالت سے سر جھکائے میدان سے لوٹے۔ مشتاق نے 'کپتان خان' کے فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔

یہ دونوں مثالیں لیگ اسپن گیندبازی کے سنہرے دور کو یاد دلاتی ہیں۔ شین وارن کی 'بال آف دی سنچری' جس پر انہوں نے مائیک گیٹنگ کو کلین بولڈ کیا تھا، سے تو سبھی واقف ہیں۔ لیگ اسپن کے مشکل آرٹ کو دوبارہ زندہ کرنے والے عبد القادر سے لے کر اس فن کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچانے والے شین وارن تک، شائقین نے معیاری لیگ اسپن کی بدولت کھیل کا خوب لطف اٹھایا۔ لیکن فی زمانہ کوئی ایک بھی معیاری لیگ اسپنر موجود نہیں۔

گو کہ اسپن باؤلنگ اس وقت اپنے عروج پر ہے، لیکن آف اسپن۔ سعید اجمل، سنیل نرائن، روی چندر آشون، محمد حفیظ اور گریم سوان اس وقت دنیا کے بہترین گیندباز شمار ہوتے ہیں لیکن ڈھونڈے سے بھی ایک اچھا لیگ اسپنر نہیں ملتا۔ اس کی چند وجوہات ہیں، آئیے نظر ڈالتے ہیں۔

لیگ اسپن ، ایک مشکل فن:

یہ حقیقت ہے کے لیگ اسپن کرانا کوئی آسان کام نہیں، اس کے لئے قدرتی صلاحیت کا ہونا بھی بے حد ضروری ہے اور ساتھ ساتھ یہ فن مسلسل مشق، سخت محنت اور مشفقت مانگتا ہے۔ آجکل کے تن آسان جوانوں کے لیے اس صنف میں کامیابی کوئی آسان کام نہیں۔ اکثر ابھرتے ہوئے لیگ بریک باؤلرز دھڑا دھڑ مختلف قسم کی گیندیں پھینکنے کے جنون میں اپنی 'اسٹاک بال' لیگ بریک پر توجہ نہیں دیتے اور یوں ان کی باؤلنگ جلد ہی زوال کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ 'بن کھلے ہی مرجھانے' والی بات زیادہ مناسب ہوگی۔ دوسری طرف ٹی ٹوئنٹی اور محدود اوورز کی کرکٹ کی بھرمار نے اسپنرز سے صبر و تحمل بھی چھین لیا ہے، خاص کر لیگ اسپنر مار سے بچنے کے لیے تیز گیندیں کرانا شروع کر دیتے ہیں، جس سے ان کے باؤلنگ مسل نہیں بڑھ پاتے اور کچھ ہی عرصے میں وہ لیگ اسپن کرانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ گریم سوان نے ایک مرتبہ کیا خوب کہا تھا کہ اسپنر کا کام ہے کہ وہ بال کو اسپن کروائے۔ لیکن اسپنرز اس اکثر بنیادی بات کو بھول جاتے ہیں۔

لیگ اسپنرز پر اعتماد نہ کرنے والے کپتان:

سابق آسٹریلوی کپتان اور مشہور مبصر ای این چیپل حد سے زیادہ محتاط کپتانوں کو لیگ اسپنرز کے زوال اور قحط کی ایک وجہ گردانتے ہیں۔ یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے۔ کلب لیول سے ہی کپتان صرف رنز بچانے کے لئے اپنے لیگ سپنر کو "دفاعی" باؤلنگ پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ لیگ اسپنر ایک جینوئن فاسٹ بولر کی طرح ایک وکٹ ٹیکنگ بولر ہے جو کبھی کبھار زیادہ رنز بھی کھائے گا لیکن اکثر اوقات وکٹیں لینے میں کامیاب رہے گا۔ لیکن بد قسمتی سے ،کپتان اور کوچز کا موجودہ کلچر پوری دنیا میں کچھ اس قسم کا بن چکا ہے کہ بس انتظار کر و اور دیکھو۔ اکثر کپتان کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ شکست کا خوف ہر دلیری اور جارحانہ پن پر غالب آ چکا ہے، جب کپتان اپنے باؤلر پر اعتماد نہیں کرے گا تو بھلا وہ کیا کارکردگی دکھائے گا ؟؟

اوور کوچنگ :

کوچنگ کا پورا باب ایک طویل بحث کا متقاضی ہے کہ آخر کوچنگ کرکٹ کو فائدہ دے رہی ہے یا نقصان اورخاص کر نچلی سطح پر؟اس بحث کو پھر کسی دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں لیکن لیگ اسپنرز کی کمی میں ان نام نہاد لیپ ٹاپ کے حامل ڈپلوما اور سرٹیفکیٹ ہولڈر کوچز کا بھی بہت ہاتھ ہے۔ اکثر کوچز اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے فضول میں ہی ہر چیز کو تبدیل کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہر باؤلر کا ایکشن بدلوانا آجکل کے کامیاب کوچز اور اپنے وقتوں کے ناکام کھلاڑیوں کا اولین شوق ہے۔ ہر انسان کا اپنا ایک جسم ہے اور اس کا ایکشن قدرتی طور پر اسی جسم کے لئے مناسب ہے۔ بسا اوقات ایکشن بدلنا ضروری ہو جاتا ہے لیکن ہر باؤلر کو ایک ہی ٹیکسٹ بک سٹائل ایکشن پر مجبور یا قائل کرنا لیگ اسپنرز کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگر شین وارن کے کیریئر کی ابتدا میں بھی اتنے ہی کوچز کا سیلاب ہوتا تو وہ یقیناًشین وارن کا تکنیکی طور پر غلط ایکشن ٹھیک کرا چکے ہوتے اور ہم کبھی بھی شین وارن کو کھیلتا نہ دیکھ پاتے۔

محدود اورز کی بے تحاشا کرکٹ :

ٹی ٹوئنٹی کی بہتات نے بھی لیگ اسپن کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ عام طور پر کپتان اپنی ٹیموں میں آف اسپنرز اور لیفٹ آرم آف اسپنرز کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اور لیگ سپنرز کو مہنگا سمجھ کر کم کم ہی استعمال میں لایا جاتا ہے اور اگر موقع مل بھی جائے تو اکثر لیگ اسپنرز اپنی توجہ رنز روکنے اور زیادہ رنز نہ دینے پر رکھتے ہیں۔ اس منفی ذہنیت کی وجہ سے معیاری لیگ اسپنرز آگے نہیں بڑھ رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کی درست خطوط پر تربیت کی جائے اور ان کو ہر فارمیٹ میں اپنی مہارت ثابت کرنے کے لئے مناسب وقت دیا جائے۔