پاکستان آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست سے بال بال بچ گیا، مقابلہ برابر
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے "مضبوط ترین شعبے" یعنی باؤلنگ کا آج جو حال نوآموز آئرلینڈ کے ہاتھوں ہوا ہے، اس نے چیمپئنز ٹرافی جیسے اہم ٹورنامنٹ سے قبل پاکستان کی تیاریوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ کہاں وہ وسیم اکرم کی کرائی گئی تیاریاں اور کہاں یہ عالم کہ آئرلینڈ جیسی کمزور ٹیم کے خلاف 276 رنز کے اچھے بھلے ہدف کا دفاع کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنے والا باؤلنگ اٹیک! اگر ڈک ورتھ لوئس آڑے نہ آتا تو آئرلینڈ تو پاکستان سے با آسانی جیت چکا تھا، لیکن اس قانون کے باعث مقابلہ ٹائی ہی ٹھہرا۔
سعید اجمل، جو اس وقت دنیا کے نمبر ایک اسپنر ہیں، ناتجربہ کار ٹیم کے خلاف آخری اوور میں 14 رنز کی بدترین مار کا شکار ہوئے، اگر آخری گیند پر چوکے کے بجائے کیون اوبرائن کے بلے سے چھکا لگ جاتاتو2007ء کے عالمی کپ کی کہانی دہرائی جاچکی ہوتی۔ کیون اوبرائن بلاشبہ میچ کے ہیرو تھے، صرف 47 گیندوں پر انہوں نے 'بزعم خود' دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کو 84 رنز کی زبردست مار لگائی اور حریف محمد حفیظ اور ساتھی کھلاڑی پال اسٹرلنگ کی سنچریوں گو بھی گہنا دیا۔ انہوں نے 2011ء کے عالمی کپ میں انگلستان کے خلاف ہونے والے مقابلے میں کھیلی گئی اپنی تاریخی اننگز کی یادیں تازہ کر دیں۔
کلونٹارف، ڈبلن میں 62 رنز کا بہترین آغاز ملنے کے بعد دوسری وکٹ پر ایڈ جوائس اور پال اسٹرلنگ نے زبردست بنیاد رکھی جنہوں نے 96 رنز کا اضافہ کیا۔ اسٹرلنگ نے 103 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آنے والے بلے باز کیون اوبرائن نے پورا کیا۔ اوبرائن کے آتے ہی گویا رنز بننے کی رفتار کو پہیے لگ گئے۔ انہوں نے 2 چھکوں او ر 11 چوکوں کی مدد سے صرف 47 گیندوں پر 84 رنز بنائے اور تن تنہا ٹیم کو فتح کی دہلیز تک لے آئے۔ اندازہ لگائیے کہ چوتھی وکٹ پر ان کے اور وکٹ کیپر گیری ولسن کے درمیان 59 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی جس میں ولسن کا حصہ صرف 11 رنز کا تھا۔
پاکستان کے پاس جس پائے کی باؤلنگ لائن اپ ہے اور عالمی کرکٹ کا جو تجربہ وہ رکھتے ہیں، اس سے یہی لگ رہا تھا کہ وکٹیں باقی بچ جانے کے باوجود آئرلینڈ کے لیے میچ نکالنا مشکل ہوگا اور آخری اوور تک ایسا ہی نظر آ رہا تھا جس میں آئرلینڈ کو جیتنے کے لیے 15 رنز درکار تھے۔ اولین تین گیندوں پر کیون اور ٹرینٹ جانسٹن صرف دو رنز بنا سکے لیکن چوتھی گیند پر لانگ آن پر کیون اوبرائن کا زبردست چھکا اور آخری گیند پر چوکا پاکستان کو ارمان ٹھنڈے کرنے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ گو کہ نتیجہ برابر ٹھیرا لیکن درحقیقت یہ پاکستان کی شکست ہی کہلائے گا۔ کیون کی اننگز نے میچ میں بننے والی دونوں سنچریوں کو گہنا دیا اور انہیں مرد میدان کا اعزاز بھی ملا۔
باؤلنگ میں سعید اجمل نے کیریئر کی بدترین گیندبازی کا مظاہرہ کیا ۔ان کے 10 اوورز میں 71 رنز پڑے اور انہیں کوئی وکٹ بھی نہ ملی۔ سوائے محمد حفیظ کے پاکستان کا کوئی باؤلر آئرش بلے بازوں پر قابو نہ رکھ سکھا۔
قبل ازیں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو ابتدائی اوورز کی سست رفتاری سے اندازہ ہو گیا تھا کہ نئی کنڈیشنز میں بلے باز کس طرح جدوجہد کر رہے ہیں۔ گو کہ ان کا مقابلہ جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا کی باؤلنگ لائن اپ سے نہ تھا، لیکن اس کے باوجود ایسی کارکردگی کی توقع نہ کی جا سکتی تھی۔ جب 33 کے مجموعی اسکور پر پاکستان کی پہلی وکٹ گری تو اس وقت 13 واں اوور جاری تھا یعنی پاور پلے کے اوورز میں رن بنانے کا اوسط تین تک بھی نہ پہنچا تھا۔ اسی کی قیمت پاکستان کو بھگتانی پڑی۔ ناصر جمشید کمر کی تکلیف میں ریٹائر ہرٹ ہو کر پویلین لوٹے تو اس مقام پر اسد شفیق محمد حفیظ کا ساتھ دینے کے لیے آئے، جو کوچ کی ہدایت پر اب تیسری پوزیشن پر کھیل رہے تھے۔ حفیظ نے ناقابل شکست 122 اور اسد شفیق نے 84 رنز کی نمایاں اننگز کھیلیں جبکہ مصباح الحق صفر پر رن آؤٹ ہوئے۔ اسد شفیق کی اننگز میں 9 چوکے شامل تھے۔ انہوں نے اپنے 1000 ایک روزہ رنز مکمل کی اور کیریئر کی بہترین اننگز بھی کھیلی تاہم گیند کو چھکے کی راہ دکھانے کی کوشش میں وہ لانگ آن پر دھر لیے گئے اور پہلی ون ڈے سنچری سے محروم رہ گئے۔ انہوں نے محمد حفیظ کے ساتھ مل کر اسکور میں 188 رنز کا اضافہ کیا۔
بہرحال، چار مرتبہ بارش کے باعث متاثر ہونے والی پاکستانی اننگز 47 اوورز کے اختتام پر 266 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ پر تمام ہوئی۔
آئرلینڈ کی جانب سے ایلکس کوسیک اور کیون اوبرائن نے دو، دو وکٹیں حاصل کیں۔
اب دونوں ٹیمیں 26 مئی کو اسی میدان پر فیصلہ کن معرکے میں آمنے سامنے آئیں گی، جہاں جو جیتے گا وہ سکندر کہلائے گا اور جو ہارے گا وہ ……………؟