[خلق خدا] پاکستان کی شکست، ایک کرکٹ پرستار کا ردعمل

11 1,096

پاکستان کو ایک بار پھر چیمپئنز ٹرافی میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ آخری میچ محض خانہ پری کے لیے کھیلے گا۔ چیمپئنز ٹرافی میں مشکل گروپ میں ہونے کے باوجود پرستار خوش فہمیوں میں مبتلا تھے، جن کو وارم اپ میچ میں جنوبی افریقہ کے خلاف فتح نے مہمیز عطا کی۔ تاہم جب اصل جنگ کا وقت آیا تو تمام توقعات دھری رہ گئیں اور ویسٹ انڈیز، جو صرف ایک بیٹسمین اور ایک باؤلر پر تکیہ کیے ہوئے تھی، سے شکست نے حقیقت کی کریہہ صورت سامنے لا کھڑی کی اور اگلے میچ میں صف اول کے باؤلرز کی عدم موجودگی کے باوجود جنوبی افریقہ سے شکست نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

شائقین قومی ٹیم سے خوش فہمیاں وابستہ کیے ہوئے تھے اور وارم اپ میں جنوبی افریقہ پر فتح نے اسے مہمیز دی، لیکن حقیقی مقابلوں میں پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بنا (تصویر: ICC)
شائقین قومی ٹیم سے خوش فہمیاں وابستہ کیے ہوئے تھے اور وارم اپ میں جنوبی افریقہ پر فتح نے اسے مہمیز دی، لیکن حقیقی مقابلوں میں پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بنا (تصویر: ICC)

اگر غور کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے پاس آخری قابل بھروسہ بلے باز یونس خان تھے اور ان کو بھی ورلڈ کلاس قرار دینا میری نظر میں اس اصطلاح کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ہماری بلے بازی کے موجودہ ستون محض آل راؤنڈرز ہیں، جن کو ہم نے ترقی دے کر مستند بلے بازوں کے درجے پر فائز کیا ہوا ہے۔

اگر اوپنرز کو دیکھا جائے تو عمران فرحت کو خدا معلوم کس قابلیت کی بنا پر کھلایا جا رہا ہے۔ اگر انہیں باہر بھی کیا جاتا ہے تو کسی ایک کھلاڑی کی بری کارکردگی ان کو دوبارہ ٹیم میں واپس لے آتی ہے۔اگر سخت الفاظ میں کہا جائے تو ان کی جگہ سلیکٹر محمد الیاس کو ہی کھلا دیا جائے، مجھے امید ہے ان کی کارکردگی اپنے داماد سے بہتر ہو گی۔

ناصر جمشید کی صورت میں پاکستان کو اچھا افتتاحی بلے باز ملا ہے اور مجھے خطرہ تھا، شاید جنوبی افریقہ میں ان کی ناقص کارکردگی کی بناء پر، کہ ان کو باہر نہ کر دیا جائے لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان کو ٹیم میں برقرار رکھا گیا اور انہوں نے اپنی صلاحیت دونوں میچز میں ظاہر کر دی لیکن حد سے زیادہ انحصار ان کی صلاحیتوں کو گہنا سکتا ہے۔

محمد حفیظ میری نظر میں قطعاً اوپنر یا ون ڈاؤن کھیلنے کے قابل نہیں۔ ان کی اصل جگہ فائیو ڈاؤن یا سکس ڈاؤن بلے باز اور تیسرے یا چوتھے مستند گیند باز کی ہے۔لیکن ان کو چھٹے گیند باز اور اوپنر کی حیثیت سے کھلایا جا رہا ہے۔

مڈل آرڈر میں اسد شفیق تابناک مستقبل کے حامل کھلاڑی ہیں لیکن ان کو مزید مواقع دیے جانے کی ضرورت ہے۔

مصباح کی بڑھتی عمر پر تنقید کرنے والوں پر ان کی دو اننگز نے خوب جواب دیا لیکن یہی بات لمحہ فکریہ ہے کہ آپ کا سب اچھا بلے باز 39 سال کا ہے اور کوئی نوجوان اس کی جگہ لینے کے قابل نہیں نظر آتا۔

شعیب ملک کے بارے تو لگتا ہے کہ شاید آئی سی سی نے پاکستان کے کھیلنے کی شرط ہی یہی رکھی ہے کہ اگر شعیب ملک کھیلے گا، تو پاکستان کھیلے گا۔ ایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی سب سے پہلے ٹیم سے شعیب ملک کو باہر کرے گا لیکن اللہ جانے سلیکٹرز کو ان میں کیا خوبی نظر آتی ہے جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔

راشد لطیف اور معین خان کی رخصت کے ساتھ ہی پاکستان وکٹ کے پیچھے محفوظ ہاتھ گنوا بیٹھا۔ اور یہاں بھی گھوم پھر کر قرعہ دوبارہ کامران اکمل کے نام ہی نکل آتا ہے۔تاریخ ساز کیچ چھوڑنے کے باوجود وکٹوں کے پیچھے بادشاہت کا ہما کامران کو ہی کامران کراتا ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ایسا وکٹ کیپر نہیں بچا جو نہ صرف کیچ پکڑ سکے بلکہ اس کو بلے کا استعمال کرنا بھی آتا ہو۔ میں نے چار پانچ سال گلی محلوں میں کرکٹ کھیلی ہے اور میں شرطیہ کئی ایسے لڑکوں کو جانتا ہوں جو کیپنگ اور بیٹنگ کامران سے اچھی کر سکتے ہیں لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ سلیکٹرز شاید نیا ٹیلنٹ لانے ہی نہیں چاہتے۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے پاکستان کا باؤلنگ اٹیک زبردست ہے لیکن میری نظر میں یہاں بھی زوال ڈیرے جما چکا ہے۔ عمر گل عرصہ ہوا اپنی آب و تاب کھو چکے ہیں۔ محمد عرفان اور اسد علی اور احسان عادل اچھا اضافہ ہیں لیکن ان کو مواقع دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی حقیقی صلاحیت سامنے آ سکے۔

وہاب ریاض اسپاٹ فکسنگ سے صاف بچ نکلنے کے بعد دوبارہ ٹیم میں آئے ہیں لیکن وہ ردھم پر انحصار کرنے والے باؤلر ہیں اور اب تک وہ میچ وننگ ردھم پانے میں ناکام رہے ہیں ۔ اگر انہوں نے وکٹیں لی ہیں تو اسکور بھی کھایا ہے۔ اور کئی بار وہ اپنی بلے بازی کی صلاحیت کے باعث اگلے میچ میں جگہ جیت پائے ہیں۔لیکن اگر شعیب ملک اپنی جس بلے بازی کی کارکردگی پر کھیل رہے ہیں ان سے تو وہاب کی بلے بازی کئی درجے بہتر ہے۔

35 سالہ سعید اجمل واضح طور پر اپنی عمر کے اچھے سال گزار چکے ہیں ۔ اگرچہ ان کے بیک اپ میں عبد الرحمٰن ہیں جو ایک تنازع سے جان چھڑا کر واپس آ چکے ہیں لیکن آدھے تیتر آدھے بٹیر کھلانے کے چکر میں ان کی جگہ ہی نہیں بن رہی۔رضا حسن ایک اور با صلاحیت ٹیلنٹ ہے جس کو ابھی سے ٹیم کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔

میری نظر میں اب وقت آگیا ہے کہ دور رس نتائج کی حامل ٹیم سوچی جائے جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ عمران فرحت جاتا ہے تو احمد شہزاد آجاتا ہے، عمر اکمل ، اظہر علی، عمر امین اور اسد شفیق میں میوزکل چیئرز کا کھیل جاری ہے۔39 سالہ کپتان مصباح کے متبادل کے لیے ہمارے پاس 33 سالہ حفیظ کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی ٹوئنٹی سے نوجوان ٹیم کو کھلایا جائے اور ان کا کپتان بھی نیا خون ہونا چاہیے۔ میں شروع سے اس امر کا حامی رہا ہوں کہ 20 اوور کے کھیل کو نئے خون کے لیے مختص کردینا چاہیے ۔ دوسرا نئے نوجوانوں کو ٹیسٹ اور ون ڈے ٹورز پر صرف سیر و تفریح کے لیے ساتھ لے جانے کی بجائے کھیلنے کا بھی موقع فراہم کیا جائے۔

پی سی بی ہر پوزیشن کے لیے تین، تین متبادل نظر میں رکھے ۔ کانٹریکٹ اور وظائف یاری دوستی کی بجائے انہی متبادل کھلاڑیوں کو دیے جائیں۔

اگر اب بھی پی سی بی ایسا قدم نہیں اٹھاتی تو ہماری التجا ہے سعید انور، انضمام، محمد یوسف، وقار اور وسیم کو لایا جائے کہ ہار تو ویسے ہی رہے ہیں کم از کم ہم اپنے پسندیدہ کھلاڑی تو کھیلتے ہوئے دیکھیں۔