[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 16

2 1,057

چیمپئنز ٹرافی جیسے بڑے ایونٹ کی مصروفیات کے باعث سوال جواب کا سلسلہ ایک ہفتے کے لیے موقوف ہوا اور اب دونوں ہفتوں کے سوالات اور ان کے جوابات کے ساتھ "گیارہواں کھلاڑی" ایک بار پھر حاضر خدمت ہے۔ اگر آپ کے ذہن میں کرکٹ کے حوالے سے کوئی سوال ہے تو اس صفحے پر موجود سادہ سا فارم پر کر کے ہمیں بھیجیے، ہم اگلے ہفتے اس کا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔

سوال: پاکستان چیمپئنز ٹرافی میں اپنے تمام میچز میں شکست سے دوچار ہوا؟ کیا اس سے پہلے کبھی چیمپئنز ٹرافی میں ایسا ہوا ہے کہ پاکستان تمام میچز ہارا ہو؟ فرید احمد

چیمپئنز ٹرافی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستان اپنے کھیلے گئے تمام میچز میں شکست سے دوچار ہوا (تصویر: Getty Images)
چیمپئنز ٹرافی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پاکستان اپنے کھیلے گئے تمام میچز میں شکست سے دوچار ہوا (تصویر: Getty Images)

جواب: جی بالکل ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان چیمپئنز ٹرافی کے کسی بھی ایونٹ میں اپنے تمام میچز ہار گیا ہو، لیکن 1998ء کے پہلے ایونٹ میں بھی ایسا ہوا تھا لیکن وہ ناک آؤٹ ٹورنامنٹ تھا اور پاکستان کو ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں پہلے ہی مقابلے میں شکست ہوئی تھی اور یوں وہ ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تھا۔ پاکستان نے 2000ء کے ایڈیشن میں دو میں سے ایک مقابلہ جیتا، 2002ء میں بھی دو میں سے ایک، 2006ء میں 3 میں سے ایک، 2004ء میں 3 میں سے دو جیتے اور 2009ء میں چار میں سے دو مقابلے جیتے جبکہ اب 2013ء میں اسے اپنے تینوں گروپ میچز میں بری طرح ہار سہنا پڑی۔

سوال: چیمپئنز ٹرافی میں نیوزی لینڈ کے وکٹ کیپر لیوک رونکی ہیں، جو غالباً ماضی میں آسٹریلیا کی جانب سے بھی کھیل چکے ہیں۔ ایک روزہ کرکٹ میں کتنے کھلاڑی دو ملکوں کی نمائندگی کر چکے ہیں؟ ندیم ظفر

جواب: لیوک رونکی حال ہی میں کرکٹ تاریخ کے ساتویں کھلاڑی بنے ہیں جنہیں 2 ممالک کی طرف سے ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا موقع ملا۔ وہ ون ڈے انٹرنیشنل میں پہلے آسٹریلیا کی جانب سے کھیل چکے ہیں اور اب اپنے آبائی ملک نیوزی لینڈ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ باقی چھ کھلاڑیوں میں کیپلر ویسلز (آسٹریلیا/جنوبی افریقہ)، کلیٹن لیمبرٹ (ویسٹ انڈیز/امریکہ)، اینڈرسن کمنز (ویسٹ انڈیز/کینیڈا)، ڈوگی براؤن (انگلستان/اسکاٹ لینڈ)، ایڈ جوائس (انگلستان/آئرلینڈ) اور ایون مورگن (آئرلینڈ/انگلستان) شامل ہیں۔

سوال: چیمپئنز ٹرافی میں بدترین شکست کے بعد آپ کے خیال میں پاکستان کو کن کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہیے اور کن کھلاڑیوں کو باہر کر دینا چاہیے؟ شوکت علی

جواب: 2013ء کی چیمپئنز ٹرافی میں باؤلنگ کے شعبے میں پاکستان کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے۔ پاکستان کی باؤلنگ نے مجموعی طور پر 4.62 رنز فی اوور کے اوسط سے رنز کھائے جو کہ ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کا سب سے بہترین اکانمی ریٹ ہے۔ باقی سب ٹیموں کی باؤلنگ مہنگی ثابت ہوئی ہے۔ اگر باؤلنگ اوسط بھی دیکھیں تو پاکستانی گیندبازوں نے 26.73 کی اوسط سے وکٹیں حاصل کیں جو چیمپئنز ٹرافی کے پہلے سیمی فائنل تک چوتھی بہترین اوسط تھی۔ باؤلنگ میں پاکستان کو کسی قسم کی ضرورت نہیں کہ اس میں سے کسی باؤلر کو نکالا جائے، بلکہ عمر گل کے آنے سے باؤلنگ مزید مضبوط ہو جائے گی۔

لیکن بیٹنگ کا حال دیکھیں، قومی ٹیم کے بلے بازوں نے اس ٹورنامنٹ میں 3.78 رنز فی اوور کے حساب سے رنز بنائے جو کہ کسی بھی ٹیم کا بدترین بیٹنگ رن ریٹ ہے۔ باقی تمام ٹیموں نے 4.50 سے زیادہ کے اوسط سے رنز بنائے، اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستانی بلے باز ایک روزہ کو ٹیسٹ سمجھ کر کھیلتے رہے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے فی وکٹ صرف 16.78 رنز بنائے، یہ بھی ٹورنامنٹ میں کسی ٹیم کی بدترین کارکردگی تھی۔

پاکستان کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ بہت کمزور ہے اور وہ نئی گیند کا سامنا کرتی بالکل نظر نہیں آتی، اور جب سے آئی سی سی نے دونوں اینڈز سے نئی گیند کے استعمال کا قانون متعارف کروایا ہے تب سے پاکستان کی بیٹنگ تباہی کے دہانے پر آ گئی ہے۔ ٹاپ آرڈر یعنی 1 سے لے کر 5 نمبر تک کی بیٹنگ کو مضبوط بنانے کے لیے میری رائے میں یونس خان کو واپس آنا چاہیے، اسد شفیق اور اظہر علی کو مستقل مواقع دینے چاہئیں اور عمران فرحت کو ہمیشہ کے لیے باہر کردینا چاہیے۔ اگر حالیہ کارکردگی دیکھی جائے تو محمد حفیظ کی بھی ایک روزہ ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، اگر اسے باؤلر کے طور پر کھلا رہے ہیں تو اس کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی ہونی چاہیے اور اسے نچلے نمبروں پر کھلایا جانا چاہیے۔

سوال: نو بال کتنے اقسام کی ہوتی ہیں، اور فری ہٹ کتنے اقسام کی نو بالز پر دی جاتی ہے؟ عبد الحق

ہر نو بال پر فری ہٹ نہیں ملتی، البتہ نو بال کسی بھی قسم کی ہو، بیٹسمین آؤٹ نہیں ہوتا (تصویر: Getty Images)
ہر نو بال پر فری ہٹ نہیں ملتی، البتہ نو بال کسی بھی قسم کی ہو، بیٹسمین آؤٹ نہیں ہوتا (تصویر: Getty Images)

جواب: کرکٹ میں نو بال کئی قسم کے ہوتے ہیں، جن میں مشہور یہ ہیں: اگر باؤلر کے اگلے پیر کی ایڑی باؤلنگ کریز کی اگلی لائن سے آگے جاتی ہے تو یہ نو بال شمار ہوتی ہے، اور صرف اسی نو بال پر فری ہٹ ملتی ہے اور باقی کسی نوبال پر نہیں۔ یاد رکھیں کہ فری ہٹ والی گیند پر بیٹسمین رن آؤٹ، آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ، ہینڈلڈ دی بال اور گیند کو دو مرتبہ ہٹ کرنے سے آؤٹ ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں آئی سی سی نے ایک اور قانون متعارف کروایا ہے کہ اگر گیندباز کے پیر، ہاتھ یا جسم کا کوئی بھی حصہ باؤلنگ اینڈ کی وکٹ کو چھو جاتا ہے تو یہ نو بال شمار ہوگی (بیچارہ اسٹیون فن)۔

باقی کی نو بالز کی کچھ اقسام یہ ہیں: اگر تیز باؤلر کی گیند کریز میں کھڑے بیٹسمین کی کمر سے اوپر سے گزر جائے یا اسپنر کی گیند بیٹسمین کے کندھے سے اوپر سے گزر جائے تو یہ نو بالز ہوں گی۔

اگر باؤلر امپائر کے بتائے بغیر باؤلنگ سائیڈ تبدیل کرے، باؤلنگ کے دوران پلے انگ کنڈیشنز کو توڑا جائے، گیند بلے باز تک پہنچنے سے پہلے رک جائے، باؤلر کا ایکشن غیر قانونی ہو، باؤلر گیند پھینکنے سے پہلے وکٹ کی سیدھ میں کیپر کے پیچھے یا اپنے پیچھے فیلڈ لے، ان تمام صورتوں میں پھینکی گئی گیند نو بال شمار ہوگی۔

سوال: شاہد آفریدی نے ایک روزہ کرکٹ میں کن ٹیموں کے خلاف ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے؟ پرویز احمد جامڑو

جواب: شاہد آفریدی نے اپنے ایک روزہ کیریئر میں 8 بار میچ میں پانچ یا زائد وکٹیں حاصل کی ہیں۔ جن میں آسٹریلیا کے خلاف دبئی میں 2009ء میں 38 رنز دےکر 6 وکٹیں حاصل کرنا ان کی بہترین باؤلنگ ہے۔ تمام 8 مقابلوں، جن میں آفریدی نے پانچ یا زائد وکٹیں حاصل کیں، میں پاکستان نے فتح حاصل کی۔

شاہد آفریدی نے کینیا کے خلاف دو بار اور انگلستان، آسٹریلیا، سری لنکا، کینیڈا، بنگلہ دیش اور افغانستان کے خلاف ایک، ایک یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ 8 میں سے 7 بار شاہد آفریدی کو اس کارکردگی پر میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔ صرف ایک بار ایسا ہوا ہے کہ شاہد آفریدی نے پانچ یا زیادہ وکٹیں لی ہوں اور انہیں مین آف دی میچ کا ایوارڈ نہ ملا ہو۔ میرا خیال ہے انہوں نے خود نہیں لیا تھا، جب عالمی کپ 2011ء کے میچ میں انہوں نے کینیا کے خلاف 16 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ شاہد نے ایوارڈ کے لیے عمر اکمل کی سفارش کی جنہوں نے اس مقابلے میں 52 گیندوں پر 71 رنز بنائے تھے۔ شاہد آفریدی نے 2011ء میں چار مرتبہ میچ میں پانچ یا زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا جو کسی بھی باؤلر کی جانب سے ایک سال میں حاصل کی گئی دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ سال میں سب سے زیادہ مرتبہ پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ پاکستان ہی کے وقار یونس کے پاس ہے جنہوں نے 1990ء میں پانچ مرتبہ حریف ٹیم کے نصف یا اس سے زیادہ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ شاہد آفریدی نے متحدہ عرب امارات میں تین، سری لنکا میں دو، پاکستان، بنگلہ دیش اور انگلستان میں ایک، ایک بار یہ وکٹیں حاصل کی ہیں۔

سوال: فرسٹ کلاس اور لسٹ 'اے' کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے اور سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑیوں کے بارے میں بتائیں۔ حسیب رزاق

جواب: فرسٹ کلاس کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز انگلستان کے سر جیک ہوبس کو حاصل ہے۔ انہوں نے 50.70 کے اوسط سے 61 ہزار 760 رنز بنا رکھے ہیں، جن میں 199 سنچریاں اور 277 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کریں تویہ اعزاز ظہیر عباس کو حاصل ہے جنہوں نے 51.54 کی اوسط سے 34 ہزار 843 رنز بنائے، جو کہ ایشیا میں کسی بھی بلے باز کے سب سے زیادہ رنز ہیں۔

فرسٹ کلاس میں زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ انگلستان کے ولفریڈ رہوڈز کے پاس ہے جنہوں نے 16.72 کے زبردست اوسط سے 4 ہزار 204 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں جن میں 287مرتبہ اننگز میں پانچ یا زیادہ وکٹیں حاصل کرنے اور 48 بار میچ میں 10 یا زائد وکٹیں لینے کے کارنامے بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں انتخاب عالم 27.67 کے اوسط سے 1571 وکٹوں کے ساتھ سب سے آگے ہیں ، جو ایشیا میں کسی بھی باؤلر کی طرف سے سب سے زیادہ فرسٹ کلاس وکٹیں ہیں۔

لسٹ اے کرکٹ میں انگلستان کے گراہم گوچ نے 40.16 کے اوسط سے 22 ہزار 213 رنز بنا رکھے ہیں، ان کے بعد گریم ہک 22 ہزار 059 اور بھارت کے سچن تنڈولکر 21 ہزار 999 رنز کا نام آتا ہے۔ سچن نے 60 سنچریاں بنا رکھی ہیں جو کہ لسٹ اے میں سب سے زیادہ سنچریوں کا ریکارڈ بھی ہے۔ پاکستان کی طرف سے لسٹ اے میں زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز جاوید میانداد کو حاصل ہے جنہوں نے 42.60 کے اوسط سے 13 ہزار 973 رنز بنائے ہیں۔

لسٹ اے میں پاکستان کے لیجنڈری وسیم اکرم کو سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل ہے جنہوں نے 21.91 کے بہترین اوسط سے 881 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ان کے بعد جنوبی افریقہ کے ایلن ڈونلڈ ہیں، جنہوں نے 21.84 کے اوسط سے 684 وکٹیں حاصل کیں۔

سوال: بھارت نے چیمپئنز ٹرافی بھی جیت لی، کیا وہ تاریخ کی پہلی ٹیم ہے جو آئی سی سی کے تمام بین الاقوامی ٹورنامنٹس جیت چکی ہے؟ فہد احمد

بھارت ویسٹ انڈیز کے بعد دوسرا ملک ہے جس نے آئی سی سی کے تینوں بڑے اعزازات حاصل کر رکھے ہیں (تصویر: Getty Images)
بھارت ویسٹ انڈیز کے بعد دوسرا ملک ہے جس نے آئی سی سی کے تینوں بڑے اعزازات حاصل کر رکھے ہیں (تصویر: Getty Images)

جواب: بھارت نے عالمی کپ 1983ء اور 2011ء، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007ء اور چیمپئنز ٹرافی 2013ء جیت رکھے ہیں، اس طرح بھارت نے آئی سی سی کے تمام تین طرز کے ٹورنامنٹس جیتے ہیں۔ بھارت کے علاوہ ویسٹ انڈیز ایسی دوسری ٹیم ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہے۔ ویسٹ انڈیز نے 1975ء اور 1979ء کے عالمی کپ، 2004ء کی چیمپئنز ٹرافی اور پھر 2012ء کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیت رکھا ہے۔ آسٹریلیا بھی 2010ء میں یہ اعزاز حاصل کر سکتا تھا مگر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء کے فائنل میں اسے انگلستان کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ لیکن آسٹریلیا کو اس فہرست میں شامل ہونے کے لیے صرف ایک ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ عالمی کپ اور چیمپئنز ٹرافی ایک نہیں بلکہ کئی بار جیت چکا ہے۔ جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ ماضی میں چیمپئنز ٹرافی جیت چکے ہیں، اس لیے انہیں ورلڈ کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹس جیتنے ہوں گے جبکہ وہ ٹیمیں جو کبھی چیمپئنز ٹرافی نہیں جیت سکیں، جیسا کہ انگلستان اور پاکستان، کبھی بھی اس فہرست میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ چیمپئنز ٹرافی کے سلسلے کا آخری ٹورنامنٹ تھا اور آئندہ اس کے انعقاد کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ آئی سی سی نے اس کا پہلا ہی اعلان کردیا تھا۔