بیٹنگ اور صرف بیٹنگ پاکستان کی کمزوری ہے: رمیز راجہ
کرکٹ کے بارے میں معمولی سی شدھ بدھ رکھنے والے کو بھی معلوم ہوگا کہ حال ہی میں مکمل ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں سب سے ناقص کارکردگی پاکستان کی تھی۔ اتنی گری ہوئی کہ اپنے تینوں میچز میں قومی ٹیم ایک مرتبہ بھی اسکور بورڈ پر 200 رنز کے مجموعے تک نہ پہنچ سکی۔ انہوں نے مجموعی طور پر 502 رنز بنائے (170، 167 اور 165) اور اگر مصباح الحق کے 173 رنز (96، 55 اور 22) کو نکال دیا جائے تو یہ تعداد صرف 329 رہ جاتی ہے۔
گمبھیر مسائل میں گری ٹیم کے ان اعدادوشمار پر وقت ضایع کرنے سے بہتر ہے کہ ماہرین کی بات سنی جائے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔
معروف ویب سائٹ پاک پیشن ڈاٹ نیٹ کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے سابق کپتان اور معروف تبصرہ کار رمیز راجہ نے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کارکردگی اور عالمی کپ 2015ء کی تیاریوں اور منصوبہ بندی پر گفتگو کی اور درپیش مسائل سے نکلنے کے لیے قومی ٹیم کو چند تجاویز بھی پیش کیں۔
چیمپئنز ٹرافی سے پاکستان کے قبل از وقت اور "بہت بے آبرو ہوکر" نکلنے پر رمیز راجہ نے بیٹنگ کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یہ ٹیم کا سب سے کمزور حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگی جب تک کہ پاکستان بیٹنگ کے ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں نہیں لائے گا۔
13 سال تک قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرنے والے رمیز نے کہا کہ پاکستان کو ان باصلاحیت کھلاڑیوں کے قحط الرجال کا سامنا ہے جو بین الاقوامی سطح پر خصوصاً بڑے ٹورنامنٹس میں پاکستان کو مقابلے جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چیمپئنز ٹرافی سے قبل پاکستان کی تیاریوں اور بحیثیت بیٹنگ کوچ ٹرینٹ ووڈہل کی تقرری کے حوالے سے سوال پر رمیز راجہ نے کہا کہ تیاریوں کے حوالے سے کوئی خامی نہیں تھی، ٹیم میں صرف مہارت کی کمی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آزمائے ہوئے کھلاڑیوں کو آزما رہے ہیں۔ البتہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی نام نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹنگ لائن اپ کو ازسرنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ان عالمی ایونٹس میں ناکامی سے دوچار ہوئی ہے جہاں ان سے بھرپور کارکردگی کی توقع تھی۔
رمیز راجہ نے کہا کہ عالمی کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیسے ٹورنامنٹ آپ کی صلاحیتوں کا حقیقی امتحان ہیں، اور اگر کھلاڑی کئی مواقع دیے جانے کے باوجود اس مقام پر کارکردگی پیش نہ کر پائے تو اسے ٹیم میں نہیں ہونا چاہیے۔
عالمی کپ 2015ء کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے لیے جتنا جلدی ممکن ہو سکے تیاری شروع کردینی چاہیے، اور تمام شعبوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ انہوں نے بھارت کی مثال دی کہ بھارت کس طرح اپنی فیلڈنگ میں بہتری لایا ہے کہ اب وہ دوسری ٹیموں کے لیے مثال بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی بیٹنگ لائن اپ میں ڈرامائی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ مایوسی اور اضطراب کی اس کیفیت میں پاکستان کے لیے عمر اکمل اور اظہر علی جیسے کھلاڑی امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک باؤلنگ کا معاملہ ہے ہمیں اچھے باؤلرز ہمیشہ ملتے رہے ہیں، اور ملیں گے بھی، اس ضمن میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہمارا موجودہ باؤلنگ اٹیک کوئی برا ہے۔
آنے والے عالمی کپ میں کپتان کی تبدیلی کے حوالے سے ایک سوال پر رمیز راجہ نے کہا کہ یہ ناگزیر معاملہ ہے۔ ٹنڈولکر، سہواگ اور گمبھیر کے بعد بھارت کے پاس جو کھلاڑی آئے ہیں وہ بہترین ہیں، پاکستان کے پاس بدقسمتی سے اس وقت مصباح کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
آنے والے دورۂ ویسٹ انڈیز میں شاہد آفریدی اور یونس خان کی شمولیت کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں آراء پر رمیز راجہ نے کہا کہ اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ ٹیم میں باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی ہے۔ اور بار بار پرانے کھلاڑیوں کو آزمانے کی بھی یہی وجہ ہے۔
پاکستان اگلے ماہ ویسٹ انڈیز کا دورہ کرے گا، اور اس سے قبل قائم مقام نجم سیٹھی کی نگرانی میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا امتحان ہوگا کہ وہ اس اہم سیریز کے لیے کیسی ٹیم منتخب کرتاہے اور وہ کیریبین سرزمین پر کیسی کارکردگی دکھاتی ہے۔