[باؤنسرز] کیا ’’چڑیا‘‘ بھی اُڑنے والی ہے ؟

8 1,033

دنیا بھر میں پیشہ ورانہ کھیلوں کے معاملات کو سنجیدگی سے چلایا جاتا ہے مگر پاکستان میں اب تک کھیلوں کو ’’تماشہ‘‘ ہی بنا کر رکھاہوا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے وہ اپنے سنجیدہ کاموں سے فرصت پاکران کھیلوں سے دل بہلانے کیلئے آجاتا ہے ۔پاکستان کرکٹ تو ایک طویل عرصے سے ہی سرپرائز بنی ہوئی ہے جہاں وہ کچھ ہوجاتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔ قومی ٹیم کی شکستیں بھی سرپرائز ہوتی ہیں اور فتوحات بھی جبکہ بورڈ کے اندر ملنے والے سرپرائز تو ایسے ہیں جن پر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔چمپئنز ٹرافی میں گرین شرٹس نے جس قسم کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی کسی سرپرائز سے کم نہیں ہے مگر پاکستان میں کرکٹ سے محبت کرنے والے شائقین کو سب سے بڑا سرپرائز چمپئنز ٹرافی کے بعد اس وقت ملا جب معروف صحافی اور کچھ عرصہ صوبہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے فرائض انجام دینے والے نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا قائم مقام چیئرمین مقرر کردیا گیا۔

ذکا اشرف کا خود کو چار سال کیلئے چیئرمین منتخب کروانا زیادہ بڑا سرپرائز تھا یا نجم سیٹھی کا قائم مقام چیئرمین بن جانا (تصویر: AP)
ذکا اشرف کا خود کو چار سال کیلئے چیئرمین منتخب کروانا زیادہ بڑا سرپرائز تھا یا نجم سیٹھی کا قائم مقام چیئرمین بن جانا (تصویر: AP)

یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ ذکاء اشرف کا بند کمرے میں گورننگ بورڈ کے من پسند ممبران سے خود کو چار سال کیلئے چیئرمین منتخب کروانا زیادہ بڑا سرپرائز تھا یا نجم سیٹھی کا قائم مقام چیئرمین بن جانا۔بہر حال جس طرح ذکاء اشرف کا اگلے چار برس کیلئے چیئرمین منتخب ہوجانا غیر آئینی تھا بالکل اسی طرح نجم سیٹھی کی تقرری بھی غیر آئینی ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی سی بی چیئرمین کو معطل ضرور کیا ہے مگر کرکٹ بورڈ کا آئین کسی معطلی کا شکار نہیں ہے جس کی رو سے چیئرمین کے معطل ہوجانے یا کسی بھی وجہ سے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہونے کے باعث 45 دن کے اندر گورننگ کے ممبران اپنے کسی ساتھی کو چیئرمین کے عہدے کیلئے نامزد کرسکتے ہیں مگر ذکاء اشرف کی معطلی کے 45 دنوں کے دوران حکومت نے نجم سیٹھی کو پی سی بی کا قائم مقام چیئرمین بنادیا جو نہایت طمطراق کے ساتھ آئی سی سی کے سالانکہ اجلاس میں شرکت کیلئے لندن روانہ ہوگئے ۔ نجم سیٹھی کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے کہ جبکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی آئی سی سی کو نجم سیٹھی کی غیر آئینی تقرری کے بارے میں خبردار کردیا ہے مگر دوسری جانب سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے مسکراتے چہرے کے ساتھ سخت احکامات جاری کررہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ’’آپس کی بات‘‘ کرنے والے نجم سیٹھی نے پی سی بی کے افسران کوخبردار بھی کردیا ہے کہ ان کی ’’چڑیا‘‘ انہیں ہر خبر دے رہی ہے۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جس اعتماد کے ساتھ نجم سیٹھی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایوانوں میں قدم رکھا ہے اس اعتماد کا مظاہرہ کوئی سابق چیئرمین نہیں کرسکا۔نجم سیٹھی کے اعتماد کے پیچھے حکومت وقت کا ہاتھ ہے جس کی حمایت کے ساتھ نجم سیٹھی اس اہم ترین عہدے پر براجمان ہوئے ہیں۔اہم سیاستدانوں سے دوستیاں اور وزارت اعلیٰ کا تجربہ اپنی جگہ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ میں جہاں بڑے بڑے ہاتھی بھی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے وہاں نجم سیٹھی کی ’’چڑیا‘‘ کو اُڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے نجم سیٹھی نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وہ لمبی اننگز کھیلنے نہیں آئے بلکہ ان کا ارادہ شارٹ اننگز کھیل کر واپس چلے جانے کا ہے ۔نجم سیٹھی مختصر اننگز کے خواہاں تھے جس کیلئے اسکول کے زمانے میں اوپننگ کرنے والے قائم مقام چیئرمین کو زوردار ہٹس لگانے کی ضرورت تھی مگر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید اس کی اب ضرورت پیش نہ آئے کیونکہ لندن سے وطن واپسی پر نجم سیٹھی کو پاکستان کرکٹ کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے اپنی وکٹیں بچانے کی کوششیں کرنا ہونگی کیونکہ عدالتی فیصلے کا ایک یارکر قائم مقام چیئرمین کی وکٹیں بکھیر سکتا ہے ۔نجم سیٹھی کی تقرری پی سی بی میں حکومتی مداخلت کی پہلی مثال نہیں ہے کیونکہ ماضی میں بھی ہر حکومت اپنے من پسند شخص کو پی سی بی کا چیئرمین بناتی رہی ہے جبکہ دیگر اہم عہدوں پر بھی سیاسی بندربانٹ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن عجلت اور بوکھلاہٹ میں فیصلے کرنے والی نئی حکومت کیلئے نجم سیٹھی کی تقرری سانپ کے منہ میں چھپکلی جیسی ہوگئی ہے جسے نہ نگلا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُگلا جاسکتا ہے ۔

آئی سی سی نے تمام رکن ممالک کے کرکٹ بورڈز کو 30جون تک حکومتی مداخلت سے آزاد جمہوری سیٹ اَپ لانے کی ڈیڈ لائن دی تھی جسے سامنے رکھتے ہوئے ذکاء اشرف نے عام انتخاب سے صرف دو دن قبل خود کو ’’آئینی‘‘طور پر چیئرمین منتخب کرواکر پی سی بی میں جمہوری سیٹ لانے کی کوشش کی تھی جسے عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے اور اس پرمزید جہالت یہ کہ حکومت نے نجم سیٹھی کو قائم مقام چیئرمین بنا کر ایک اور مصیبت اپنے گلے ڈال لی ہے کیونکہ پی سی بی کا موجودہ سیٹ اَپ نہ جمہوری ہے اور نہ ہی آئینی جس کی وجہ سے جولائی کا سورج طلوع ہوتے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی آئی سی سی میں رکنیت معطل ہونے کی تلوار بھی لٹکنا شروع ہوجائے گی جس بارے میں کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔نجم سیٹھی ان دنوں انگلینڈ میں آئی سی سی کے سالانہ اجلاس میں شریک ہیں اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ’’چغلی‘‘کے بعد یقینا آئی سی سی بھی نجم سیٹھی کی تقرری کے حوالے سے خبردار ہوگئی ہے اس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ محمد عامر کی واپسی کی درخواست لے کر لندن جانے والے نجم سیٹھی اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کس طرح آئی سی سی کے عہدیداروں کو رام کرتے ہیں کیونکہ اگر چند دن بعد پاکستان کی رکنیت معطل ہوگئی تو پھر پاکستان کرکٹ مزید مشکلات سے دوچار ہوجائے گی۔ اس لیے کرکٹ بورڈ میں مختصر اننگز کو ’’انجوائے‘‘ کرنے کی خواہش لے کر چیئرمین کا عہدہ حاصل کرنے والے نجم سیٹھی کے کندھوں پر اچانک ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے جس کا ادراک انہیں بورڈ میں آنے سے پہلے نہ تھا ۔

کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ غیر آئینی تقرری کے باعث نجم سیٹھی کی چڑیا قذافی اسٹیڈیم سے اُڑنے والی ہے اور خود سیٹھی صاحب بھی زیادہ دن تک اپنی چڑیا کو قذافی اسٹیڈیم میں قید نہیں رکھنا چاہتے تھے جو گزشتہ کئی برسوں سے انہیں حکومتی ایوانوں سے اہم ترین خبریں لانے کا فریضہ انجام دے رہی ہے اور جس طرح نجم سیٹھی نے ’’ہنستے کھیلتے‘‘ الیکشن کے دوران پنجاب کی ’’نگرانی‘‘کی بالکل اسی طرح وہ پی سی بی کے ہیڈ کواٹر سے بھی ہنسی خوشی جانے کے خواہشمند تھے کیونکہ نگران وزیر اعلیٰ کے منصب کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی حاصل کرکے وہ ساتھی صحافیوں میں اپنا قد تو اونچا کرچکے ہیں لیکن اب انہیں سنجیدگی کے ساتھ کرکٹ بورڈ کے اہم ترین عہدے پر ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ آئی سی سی میں پاکستان کی رکنیت بچانے کیلئے حکومت نجم سیٹھی کی تقرری کو جمہوری رنگ دے ڈالے جس کے بعد ٹی20میچ کھیلنے کی منصوبہ بندی کرنے والے نجم سیٹھی کو ٹیسٹ میچ کھیلنا پڑ جائے!!