عالمی کپ 2011ء میں بھی فکسنگ کی کوشش؛ دہلی پولیس کے انکشافات

0 1,022

بھارت میں فکسنگ کا معاملہ مزید گمبھیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ سٹے بازوں نے عالمی کپ 2011ء کے مقابلوں پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی اور سٹے باز اپنے مقاصد کے حصول کے لیے چیئرلیڈرز کو استعمال کرتے ہیں۔

عالمی کپ 2011ء میں تینوں سٹے بازوں نے ہوٹل تاج پیلس میں کھلاڑیوں سے ملاقاتوں کی کوشش کی (تصویر: Getty Images)
عالمی کپ 2011ء میں تینوں سٹے بازوں نے ہوٹل تاج پیلس میں کھلاڑیوں سے ملاقاتوں کی کوشش کی (تصویر: Getty Images)

انڈین پریمیئر لیگ میں فکسنگ کا تنازع ابھرنے کے بعد اب معاملے کی عدالتی کارروائی جاری ہے اور دہلی پولیس نے عدالت میں جو چارج شیٹ پیش کی ہے، اس میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فکسنگ کے لیے چیئرلیڈرز کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ عدالت میں پیش کردہ چارج شیٹ میں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے اینٹی کرپشن اینڈ سیکورٹی یونٹ (اے سی ایس یو) کے ریجنل مینیجر دھرم ویر سنگھ کا بیان ہے کہ آئی پی ایل فکسنگ تنازع میں گرفتار ہونے والے سٹے باز سنیل بھاٹیہ، بابو یادیو راؤ اور الیاس افضل کی کھلاڑیوں سے ملاقاتوں کی تصویریں موجود ہیں۔ 2010ء میں بھارت کے دورۂ بنگلہ دیش میں بھی سنیل بھاٹیہ اسی ہوٹل میں مقیم تھا جس میں بھارتی ٹیم کا قیام تھا جبکہ عالمی کپ 2011ء میں بھی ان تینوں نے ہوٹل تاج پیلس میں کھلاڑیوں سے ملاقاتوں کی کوشش کی تھی، جس سے واضح ہے کہ عالمی کپ کے دوران بھی سٹے باز سرگرم تھے۔

اس چارج شیٹ کے مطابق سنیل بھاٹیہ نے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی ٹیم کے دورۂ سری لنکا کے دوران ایک چیئرلیڈر نے انہيں پہلے ایک سری لنکن کھلاڑی اور بعد ازاں دو بھارتی کرکٹرز سے ملوایا۔ یہ چیئرلیڈر ان تینوں کھلاڑیوں کی دوست تھی اور سنیل بھاٹیہ کے مطابق یہ تینوں کھلاڑی اس وقت بھی اپنے ملکوں کی ٹیم میں موجود ہیں۔

اس بیان نے تہلکہ مچا دیا ہے کہ آخر وہ کون سے سری لنکن اور بھارتی کھلاڑی ہیں جن کے سٹے بازوں سے تعلقات ہیں؟ اگر پوری قوم کی طرح ہماری یادداشت بھی کمزور نہیں تو آپ کو کچھ عرصہ قبل کی وہ خبریں یاد ہوں گی جب سری لنکا میں ہونےوالے ایشیا کپ کے دوران فکسنگ اور ایک بھارتی کھلاڑیوں کی خبروں کا غلغلہ اٹھا تھا۔ 2010ء میں کئی ویب سائٹس نے بھارت کے سریش رینا کو فکسنگ میں ملوث قرار دیا تھا لیکن بین الاقوامی کرکٹ کونسل ایک مرتبہ پھر 'صم بکم عمی' بنی رہی۔ وجہ؟ غالباً بھارتی بورڈ کا آئی سی سی پر اثر و رسوخ۔

واقعہ کچھ یوں تھا کہ سریش رینا سری لنکا کے ایک نائٹ کلب میں ایک ایسی خاتون کے ساتھ دیکھے گئے تھے جو سٹے بازوں سے رابطے میں تھی۔ اسی سال سری لنکا کے اوپنر تلکارتنے دلشان کے متعلق بھی ایسی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنی رہیں کہ ان کے سٹے بازوں سے تعلقات ہیں۔ اس سلسلے میں آئی سی سی کی جانب سے کچھ اقدامات اٹھانے کی خبریں بھی سامنے آئیں لیکن پھر ایسا لگا کہ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو گیا۔

اب دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں ایک سری لنکن اور دو بھارتی کھلاڑیوں کے سٹے بازوں کے رابطوں سے انکشاف کا حوالہ دیکھا جائے تو رینا اور دلشان کے نام تو سامنے آ ہی جاتے ہیں جبکہ دوسرے بھارتی کھلاڑی کا نام بھی جلد مل جائے گا۔

اس موقع پر یہ سوال یقیناً شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں آتا ہوگا کہ جب ان بڑے کھلاڑیوں کے نام فکسنگ میں آتے ہیں تو ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں ہوتا؟ اگر ان کی جگہ پاکستانی کھلاڑی ہوتے تو انہیں طویل عرصے کے لیے کرکٹ کے میدانوں سے باہر پھینک دیا جاتا۔ تو اس کا سیدھا سادا جواب ہے بھارتی کرکٹ بورڈ کا بین الاقوامی کرکٹ کونسل پر حد سے زیادہ، جس کی وجہ سے بھارتی کھلاڑیوں کے کرتوتوں کی خبریں تو دب ہی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی بورڈ کی آئی سی سی میں کمزور پوزیشن اس کے کھلاڑیوں کے لیے بھی خطرہ بنی رہتی ہے۔