[باؤنسرز] عمران فرحت کی ’’مجبوری‘‘ اور پی سی بی کی ’’عجلت‘‘
14 اگست کو محمد آصف نے اپنے کالے کرتوتوں کی ’’معافی‘‘ مانگتے ہوئے آزادی کے دن کو یادگار بنانے کی ’’کوشش‘‘ کی اور کمالِ ڈھٹائی سے انہوں نے کرکٹ میں واپسی کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ ایک طرف محمد آصف میدان میں اترنے کے لیے بے چین ہے تو دوسری جانب عمران فرحت نے قومی ٹیم میں منتخب ہونے کے باوجود کھیلنے سے معذرت کرلی ہے۔ عالمی سطح پر ماضی میں ایسی چند ایک مثالیں موجود ہیں کہ کھلاڑیوں نے مختلف وجوہات کی بناء پر بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا ہو مگر دورۂ زمبابوے کے لیے قومی ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیے جانے والے عمران فرحت کا معاملہ مختلف ہے بلکہ یہ ایک طرح سے معمہ بن گیا ہے کہ انہوں نے ’’ذاتی مصروفیت‘‘ کا بہانہ بنا کر ٹیم کے ساتھ جانے سے معذرت کرلی اور سلیکشن کمیٹی نے جھٹ سے نوجوان اوپنر شان مسعود کو متبادل کے طور پر منتخب بھی کرلیا، جو ڈومیسٹک کرکٹ میں عمران فرحت کے ساتھ حبیب بنک کے لیے اننگز کا آغاز کرتے ہیں۔
دورۂ زمبابوے کے لیے قومی ٹیم کا اعلان 6اگست کو ہوا تھا جبکہ عمران فرحت نے 13 اگست کواپنی "عدم دستیابی" کا فیصلہ ظاہر کیا، گو کہٹی ٹوئنٹی اور ایک روزہ سیریز کے لیے ٹیم 19 اگست کو ہرارے روانہ ہوگی اور ٹیسٹ سیریز کے لیے منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کو ستمبر کے آغاز میں زمبابوے جانا ہے۔یعنی عمران فرحت کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے کم از کم دو ہفتوں کا وقت موجود تھا مگر انہیں نجانے کس بات کا خوف تھا کہ انہوں نے ٹیم میں منتخب ہونے کے چند دن بعد ہی ٹور پر نہ جانے کا فیصلہ کرلیا۔
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران فرحت اپنی اہلیہ کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے زمبابوے نہیں جارہے۔ دو برس قبل جولائی میں نے عمران فرحت کا انٹرویو کیا تھا تو وہ انہی دنوں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ شمالی علاقہ جات کی سیر کرکے واپس آئے تھے، اور اس سیرکا مقصد تفریح سے زیادہ اُن کی اہلیہ کی طبیعت تھا، جنہیں معالج نے کچھ دن پُرفضا مقام پر گزارنے کی ہدایت کی تھی۔ اس لیے ممکن ہے کہ عمران فرحت نے واقعی اپنی اہلیہ کی ناسازی طبیعت کے باعث زمبابوے جانے سے معذرت کی ہو مگر میرا نقطہ یہ ہے کہ ابھی ٹیسٹ سیریز میں دو ہفتوں سے زائد کا وقت پڑا ہے اس لیے اُن کا یہ فیصلہ عجلت لگتا ہے۔ چند ذرائع کا خیال ہے کہ عمران فرحت نے خود پر ہونے والی بے پناہ تنقید سے گھبرا کر دورے پر جانے سے معذرت کی ہے۔ چیمپئنز ٹرافی میں ناقص کارکردگی کے بعد انہيں دورۂ ویسٹ انڈیز سے ڈراپ کردیا گیا تھا لیکن زمبابوے کے خلاف عمران فرحت کو ٹیسٹ ٹیم میں اس لیے شامل کیا گیا کہ وہ جنوبی افریقہ کے خلاف اپنے آخری ٹیسٹ میں 30اور43رنز کی باریاں کھیلے تھے، جس میں پہلی اننگز میں یونس خان کے 33رنز کے بعد سب سے زیادہ اور دوسری اننگز میں وہ ٹاپ اسکورر تھے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں تھی کہ عمران فرحت کو زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لیے ٹیم میں شامل نہ کیا جاتا۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ٹیم مینجمنٹ حفیظ کے ساتھ خرم منظور سے اننگز کا آغاز کروانے کا فیصلہ کرچکی تھی کیونکہ قومی ٹیم کے کپتان مصباح الحق بھی عمران فرحت کی سلیکشن سے خوش نہ تھے بلکہ اُن کی خواہش تھی کہ توفیق عمر کو ٹیم میں شامل کیا جاتا جو گزشتہ کچھ عرصے سے خراب فارم کا شکار ہیں۔ اگر عمران فرحت زمبابوے چلے جاتے تو مصباح الحق کے لیے یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہوتا کہ وہ آخری ٹیسٹ میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے بیٹسمین کو فائنل الیون سے ڈراپ کرتے۔ اس کے علاوہ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ عمران فرحت کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بڑی اننگز کھیل کر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرتے مگر کیا وجہ تھی کہ عمران فرحت کو یہ موقع گنوانے پر بھی کوئی پریشانی نہ ہوئی۔
یہ نہ کھلائے جانے کا خوف تھا یا عمران فرحت نے کسی ’’مجبوری ‘‘ کے عالم میں اسکواڈ سے اپنا نام واپس لیا ہے کیونکہ اس ٹور کے لیے ٹیم کا اعلان ہونے سے قبل عمران فرحت کا نام ہی سلیکشن کمیٹی کی میٹنگ میں موضوع بحث بنا تھا کیونکہ سلیکشن کمیٹی پر بھی بائیں ہاتھ کے نوجوان اوپنر شان مسعود کو ٹیم میں شامل کرنے کے لیے دباؤ تھا مگر ایک سلیکٹر کے فیصلہ کن ووٹ نے عمران فرحت کو ٹیم میں شامل کروادیا۔ ٹیم کا اعلان ہونے کے بعد بھی میڈیا میں شان مسعود کا نام گردش کرتا رہا کہ اس بیٹسمین کو زمبابوے کے ٹور پر پاکستانی ٹیم کا حصہ بننا چاہیے تھا۔
عمران فرحت کا ٹور پر جانے سے معذرت کا معمہ آنے والے دنوں میں حل ہوجائے گا لیکن تجربہ کار عمران فرحت کی جگہ ایک نوآموز کھلاڑی کو کیوں منتخب کیا گیا ؟ قومی ٹیم کے کوچ ڈیو واٹمور واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ نوجوان کھلاڑیوں کو صرف ون ڈے اور ٹی 20 طرز کے کھیل میں موقع دیا جائے گا جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں تجربہ کار کھلاڑیوں پر بھروسہ کیا جائے گا اور اگر زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ ٹیم کے ناموں پر نگاہ ڈالیں تو بھی یہ واضح ہوجائے گا کہ کوچ اور سلیکشن کمیٹی کی سوچ میں زیادہ فرق نہ تھا مگر کیا وجہ ہے کہ عمران فرحت کے متبادل کے طور پر ایک نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا؟ پاکستانی ٹیم کی ٹیسٹ سیریز میں تین ہفتوں کا وقت باقی ہے اس لیے یہ سوچنا بھی ضروری ہے کہ عمران فرحت کے انکار کے فوراً بعد سلیکشن کمیٹی نے نہایت عجلت میں ان کا متبادل بھی منتخب کرلیا۔
سلیکشن کمیٹی یا پی سی بی کے سربراہ نے عمران فرحت سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کس وجہ سے ٹیم کے ساتھ نہیں جانا چاہ رہے۔ کسی نے انہیں قائل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی عمران فرحت کے فیصلے کے لیے تیار بیٹھی تھی جس نے فوری طور پر 56 فرسٹ کلاس میچز میں تقریباً 34 کی معمولی اوسط رکھنے والے اوپنر شان مسعود کو منتخب کرلیا۔ اگر سلیکشن کمیٹی عمران فرحت کو ٹیم کے ساتھ جانے کے لیے قائل نہیں کرنا چاہتی تھی تو پھر عمران فرحت کی جگہ کسی تجربہ کار اوپنر کو منتخب کیا جاتا۔ جنوبی افریقہ کے دورے پر محمد حفیظ بدترین فارم کا شکار دکھائی دیے جبکہ ٹیم میں منتخب ہونے والے دوسرے اوپنر خرم منظور ساڑھے تین برس بعد قومی ٹیم میں اپنی واپسی کوممکن بنا رہے ہیں اور اب تیسرے اوپنر کے طور پر ڈومیسٹک کرکٹ میں واجبی سی کارکردگی کے حامل شان مسعود کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہے جو سلیکشن کمیٹی کی عجلت کو ظاہر کررہی ہے اور ساتھ میں اس امر کو بھی کہ 40ٹیسٹ میچز کے تجربہ کار عمران فرحت کو ٹور سے دستبردار ہونے کے فیصلے پر مجبور کیا گیا کہ تاکہ شان مسعود کو پاکستانی ٹیم میں شامل کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ جن لوگوں نے شان مسعود کو ٹیم کو شامل کروایا ہے وہ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے اوپنر کے سر پر ٹیسٹ کیپ سجانے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔
میں سلسلہ کلام کو یہیں روکتا ہوں لیکن آپ میری اگلی تحریر میں 23 سالہ شان مسعود کے بارے میں مزید جان سکیں گے کہ پانچ برس قبل فرسٹ کلاس ڈیبیو کرنے والے بلے باز نے ڈومیسٹک کرکٹ میں کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور شان مسعود نے کتنی مرتبہ انڈر19 سمیت پاکستان کی کتنی سیکنڈ اسٹرنگ ٹیموں کی نمائندگی کی ہے؟