[آج کا دن] کرکٹ تاریخ کا ہنگامہ خیز ترین مقابلہ، اوول ٹیسٹ 2006ء

0 1,159

ٹیسٹ کرکٹ کی 136 سالہ تاریخ کا واحد مقابلہ جس میں کسی ایک ٹیم کی جانب سے کھیلنے کے انکار کے باعث دوسری ٹیم کو فاتح قرار دیا گیا۔ ہمارے خیال میں یہ پاکستان کرکٹ کے زوال کا نقطہ آغاز تھا، جی ہاں! 2006ء کا بدنام زمانہ اوول ٹیسٹ۔ جہاں امپائروں کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں پر گیند سے چھیڑ چھاڑ (بال ٹمپرنگ) کرنے کے الزام پر کپتان انضمام الحق نے ٹیم کو میدان میں اتارنے سے انکار کردیا اور بالآخر مقابلے میں انگلستان کو فاتح قرار دے دیا گیا۔

انضمام الحق کا احتجاج کا فیصلہ نہ صرف مقابلہ ہارنے کی صورت میں نکلا بلکہ پاکستان کرکٹ کو غیر ضروری دباؤ اور عالمی تنہائی میں ڈال گیا (تصویر: Getty Images)
انضمام الحق کا احتجاج کا فیصلہ نہ صرف مقابلہ ہارنے کی صورت میں نکلا بلکہ پاکستان کرکٹ کو غیر ضروری دباؤ اور عالمی تنہائی میں ڈال گیا (تصویر: Getty Images)

جولائی و اگست 2006ء میں پاکستان چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے انگلستان میں تھا اور ابتدائی ٹیسٹ کے ڈرا ہونے کے بعد اگلے دونوں مقابلوں میں شکست کھاکر سیریز سے باہر ہوگیا۔ اوول میں ہونے والے آخری ٹیسٹ کے چوتھے دن چائے کے وقفے سے کچھ دیر قبل آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے "مشہور زمانہ" امپائر ڈیرل ہیئر نے گیند کو جانچنے کے بعد نہ صرف پاکستان پر ٹمپرنگ کا الزام عائد کیا بلکہ انگلستان کو جرمانے (پنالٹی) میں پانچ رنز بھی دے دیے۔ پاکستانی کپتان انضمام الحق اس وقت تو سٹپٹاتے ہی رہ گئے اور لیکن چائے کے وقفے میں غوروخوض کے بعد بطور احتجاج ٹیم کو میدان میں دوبارہ اتارنے سے انکار کردیا۔امپائروں نے کافی دیر انتظار کے بعد پاکستان کی شکست کا اعلان کردیا۔ جب کوچ باب وولمر کے اصرار پر ٹیم تاخیر سے میدان میں اتری تو امپائروں نے دوبارہ میچ شروع کروانے سے انکار کردیا۔

ڈیرل ہیئر وہی امپائر ہیں جنہوں نے اپنے پہلے مقابلے سے لے کر آخری مقابلے تک تنازعات کے ذریعے شہرت پائی یہاں تک کہ امپائروں کے ہاتھوں پیدا ہونے والے کرکٹ تاریخ کے بڑے تنازعات میں سے دو میں وہ مرکزی کردار رہے۔ ایک سری لنکا کے عظیم اسپنر مرلی دھرن کی گیندوں کو نو بال قرار دینے کے معاملے میں اور دوسرا مذکورہ پاک-انگلستان ٹیسٹ۔ ویسے اس مقابلے میں ڈیرل ہیئر کے علاوہ دوسرے امپائر بلی ڈاکٹروو تھے۔ 2000ء کا اینٹیگا ٹیسٹ یاد ہے نا؟ ہاں، وہی والے 🙂 یعنی کہ یک نہ شد دو شد!

بہرحال، معاملہ اتنا آسان نہ تھا کہ کئی ہفتوں کے مذاکرات اور گفت و شنید کے بعد بالآخر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے معاملے کی شنوائی کی اور سب سے پہلے تو تحقیقات کے بعد پاکستان کو بال ٹمپرنگ کے الزام سے بری الذمہ قرار دیا لیکن پاکستانی کپتان انضمام الحق کرکٹ تاریخ کی انوکھی ترین حرکت کی وجہ سے چار ایک روزہ مقابلوں کی پابندی کی زد میں آ گئے۔

اوول ٹیسٹ کا سب سے روشن پہلو یہ رہا کہ ڈیرل ہیئر جیسے متعصب اور غیر ذمہ دار امپائر سے کرکٹ کو نجات مل گئی (تصویر: AFP)
اوول ٹیسٹ کا سب سے روشن پہلو یہ رہا کہ ڈیرل ہیئر جیسے متعصب اور غیر ذمہ دار امپائر سے کرکٹ کو نجات مل گئی (تصویر: AFP)

اس پورے معاملے کا بھیانک پہلو تو امپائروں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا لیکن آئی سی سی کا کردار بھی افسوسناک تھا۔ آئی سی سی نے تقریباً دو سال کے بعد جولائی 2008ء میں مقابلے کو بے نتیجہ قرار دیا لیکن ایک سال بعد دوبارہ 'یو ٹرن' لیتے ہوئے انگلستان کو فاتح قرار دے دیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر انتظامات چلانے والے بورڈ کو شاید خود بھی نہیں معلوم تھا کہ اس نے کرنا کیا ہے۔ وہ کبھی انگلستان کے دباؤ میں آتا تو کبھی 'کرکٹ قوانین کے نگہبان' ایم سی سی کے دباؤ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب سے پہلے امپائروں نے ایک عجیب و غریب نتیجہ دیا، پھر آئی سی سی نے اسے کالعدم قرار دیا اور پھر کچھ ہی عرصہ بعد خود اپنے فیصلے کو غلط قرار دے کر "اصل فیصلے" کو برقرار رکھا۔ پھر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ جب بال ٹمپرنگ کے الزام سے پاکستان کو خود بری الذمہ قرار دیا تو مقابلے کا نتیجہ انگلستان کے حق میں کیوں دیا گیا؟ چلیں، انضمام الحق کو تو اپنی غیر ذمہ داری کی سزا ملی لیکن مچا ہر گز اس صورتحال میں نہیں تھا کہ وہ کسی ایک حریف کی جانب مکمل طور پر جھکا ہوا ہو۔ جب حالات ایسے نہیں تھے، اور سیریز کا نتیجہ بھی اس مقابلے پر منحصر نہ تھا تو کم از کم آئی سی سی نے ڈیرل ہیئر کے اس بچکانہ فیصلے کی توثیق کی توقع نہ تھی۔

اب کچھ دوسرے پہلو پر بات کرلیں کہ آخر یہ مقابلہ کیسے پاکستان کرکٹ کے زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ پاکستان دورۂ انگلستان سے قبل ایک روزہ اور ٹیسٹ دونوں طرز کی کرکٹ میں عروج کی جانب گامزن تھا۔ پاکستانی ٹیم ایک روزہ درجہ بندی میں تیسرے نمبر تک جا پہنچی تھی اور باب وولمر کی شاندار کوچنگ اور انضمام الحق کی ذمہ دارانہ، کسی حد تک دفاعی، قیادت نے پاکستان کو نتائج دینا شروع کردیے تھے لیکن اوول تنازع نے ٹیم پر ایسا نفسیاتی دباؤ ڈال دیا کہ اس کے بعد پاکستان کو یادگار فتح کے لیے کئی سال منتظر رہنا پڑا۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہا ہوا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008ء کا پورا سال پاکستان کو ایک ٹیسٹ میچ بھی کھیلنے کو نہ ملا اور بدقسمتی سے جیسے ہی 2009ء میں پاکستان دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں واپس آیا، پہلی ہی سیریز میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا اور پاکستان اپنی سرزمین پر بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہوگیا۔ ایک جانب پاکستان کے حالات اور پھر ایک کے بعد دوسرے تنازع میں ملوث ہونے نے ٹیم پر کاری ضرب لگائی یہاں تک کہ مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان نے متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں عالمی نمبر ایک انگلستان کو شکست دی اور پھر ایشیا کپ سمیت متعدد اہم ٹورنامنٹس اور سیریز جیت کر ایک مرتبہ پھر عالمی سطح پر اپنی اہمیت ظاہر کی۔ لیکن منزل اب بھی بہت دور ہے اور 2015ء کا عالمی کپ اس سمت کا درست انداز میں تعین کرسکے گا کہ آئندہ ایک دہائی میں پاکستانی کرکٹ کہاں پہنچے گی؟