[باؤنسرز] اَپ سیٹ شکست … سیٹ اَپ تبدیل کرنے کا اشارہ!!
ڈیو واٹمور کا کہا سچ ثابت ہوا کہ اینڈریو والر کی کوچنگ میں زمبابوے کی ٹیم مستحکم ہورہی ہے اور پہلے ون ڈے میں شکست کے بعد گرین شرٹس نے اس مستحکم ٹیم کو مضبوط کردیا ہے۔
کرکٹ ایک غیر متوقع کھیل ہے جس میں بہت کچھ توقعات کے برعکس ہوجاتا ہے اور زمبابوے کے ہاتھوں پاکستان کی شکست بھی انہی غیر متوقع عوامل میں سے ایک ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ زمبابوے نے کسی بڑی ٹیم کو شکست دے کر اَپ سیٹ کیا ہو بلکہ زمبابوے نے عالمی کرکٹ میں قدم ہی اَپ سیٹ کے ساتھ رکھا تھا، جب 1983ء کے عالمی کپ میں ناتجربہ کار ٹیم نے للی،تھامسن، بارڈر،ہیوز اور مارش جیسے کھلاڑیوں پر مشتمل آسٹریلین ٹیم کو شکست سے دوچار کردیا تھا اور اس کے بعد بھی گاہے بگاہے زمبابوے نے بھارت، سری لنکا، نیوزی لینڈ، انگلینڈاور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو شکستوں سے دوچار کیا ہے اوراس کے علاوہ زمبابوے 1995ء اور 1998ء میں بھی پاکستان کو بالترتیب ہرارے اور شیخوپورہ میں شکست دے چکی ہے ۔ یاد رہے کہ شیخوپورہ کے میچ میں شاہد آفریدی بھی قومی ٹیم کا حصہ تھے جبکہ قومی ٹیم کے مینیجر معین خان نے ان دونوں میچز میں وکٹوں کے عقب میں فرائض انجام دیے تھے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی ٹیموں کے ہاتھوں بڑی ٹیموں کی درگت بننے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ ایسا ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے مگر زمبابوے کے ہاتھوں سات وکٹوں کی اس شکست سے یہ کہہ کر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ کرکٹ میں اَپ سیٹ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ تقریباً پندرہ سال بعد زمبابوے کے ہاتھوں اس شکست کے اسباب بھی تلاش کرنا ہوں گے۔
زمبابوے کے خلاف ٹی20سیریز میں پاکستانی باؤلرز کا وکٹیں حاصل نہ کرپانامجھے تشویش میں مبتلا کررہا تھا کہ زمبابوے جیسی ٹیم کے خلاف بھی آفریدی،اجمل اور حفیظ جیسے ورلڈ کلاس اسپنرز وکٹیں حاصل نہیں کرپارہے اور پاکستانی فاسٹ بالرز بالکل ناکارہ ثابت ہورہے ہیں۔
ٹی 20 سیریز میں سامنے آنے والی یہ خامی نہ ٹیم انتظامیہ کو دکھائی دی اور نہ ہی آج اس شکست پر ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ماتم کرنے والے تبصرہ نگاروں کو۔زمبابوے کے خلاف پہلے ون ڈے میں پاکستانی اوپنرز کی سست رفتاری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے جو پندرہویں اوور میں جدا ہونے سے پہلے 56رنز کا آغاز ہی فراہم کرسکے تھے مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حفیظ اور مصباح کی نصف سنچریوں نے پاکستان کو 244رنز کا مناسب مجموعہ دلوادیا تھا جو قابل دفاع بھی تھا۔ مجھے مصباح الحق کی اس بات سے قطعی اتفاق نہیں ہے کہ انہوں نے وکٹ کو پڑھنے میں غلطی کی۔ اگر پاکستانی کپتان وکٹ کو صحیح طرح پڑھ لیتے تو کیا وہ زمبابوے کو پہلے کھیلنے کی دعوت دیتے؟ اور ان کے فتح گر بالرز ہوم سائیڈ کو200 سے کم اسکور پر ڈھیر کردیتے؟ اگر زمبابوے کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتی تو وہ بھی 200 سے زائد رنز بنانے میں کامیاب رہتی اور اس صورت میں میچ جتوانے کی ذمہ داری مصباح الحق کے کندھوں پر ہی آتی جو پاکستان کو فتح دلوادیتے مگر دوسری اننگز میں بالنگ کرتے ہوئے مصباح الحق کی بے بسی نمایاں تھی جو اپنے بالرز کو غلط لائن اور لینتھ پر بالنگ کرتے ہوئے دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر پارہے تھے۔
پاکستان کی باؤلنگ میں وکٹیں لینے کا عنصر کم سے کم ہوتا جارہا ہے اور زیادہ بالرز صرف رنز روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ون ڈے سیریز کے پہلے میچ میں وکٹ پڑھنے میں غلطی ہوئی یا بیٹسمینوں نے کم رنز بنائے اور میچ کا نتیجہ کیا نکلا اس سے قطع نظر صرف ایک بات پر غور کریں کہ کیا کسی تیسرے درجے کی ٹیم کے خلاف کھیلتے ہوئے محمد عرفان، جنید خان، سعید اجمل، شاہد آفریدی اور محمد حفیظ جیسے باؤلرز کا پچاس اوورز میں صرف تین وکٹیں لینا قابل قبول ہوسکتا ہے؟ کیا ان میچ ونر بالرز میں اتنی بھی صلاحیت باقی نہیں رہی کہ وہ زمبابوے کے خلاف بھی وکٹیں نہ پائیں؟
ماضی میں پاکستانی باؤلرز میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ کسی بھی مجموعے کا دفاع کرسکتے تھے مگر موجودہ باؤلرز میں یہ صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اننگز کے آدھے حصے میں پاکستانی باؤلرز اوپنرز کی جوڑی کو جدا نہ کرسکے، کیا یہ تشویش کا سبب نہیں ہے؟ فاسٹ باؤلرز نئے گیند کے ساتھ غیر موثر کیوں ثابت ہورہے ہیں اس مسئلے کا حل محمد اکرم نے نکالا ہے یا نہیں؟ ہر گزرنے والا دن سعید اجمل کو زوال کی طرف لے کر جارہا ہے جسے کوئی بھی بلے باز اب آسانی کے ساتھ چھکے کیلئے روانہ کرسکتا ہے مگر سلیکشن کمیٹی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ آف اسپنر کو ڈراپ کرسکے اورنہ ٹیم مینجمنٹ ایسا کرسکتی ہے۔ عبدالرحمٰن اور ذوالفقار بابر موثر کارکردگی دکھانے اور ٹیم کا حصہ ہونے کے باوجود فائنل الیون میں شامل نہیں ہوپارہے تو اس کی ذمہ دار ٹیم مینجمنٹ ہے جو صرف چند مخصوص سینئر کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرنا چاہتی ہے۔ سعید اجمل کے کارنامے اپنی جگہ ہیں لیکن فی الوقت وہ اپنے معیار سے کوسوں سے دور چلے گئے ہیں اس لیے "دوسرا" کرنے والے اسپنر کی بجائے اب کسی دوسرے اسپنر پر بھروسہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔
پاکستانی کپتان نئے کھلاڑیوں کو منتخب نہ کرنے کے سوال پر آگ بگولا ہوجاتے ہیں مگر انہیں ٹیم میں موجود چند "خلیفاؤں" کی پرفارمنس دکھائی نہیں دے رہی جو اب ٹیم پر بوجھ بنتے جارہے ہیں۔اس وقت کوئی ایسا فاسٹ بالر دکھائی نہیں دے رہا جسے فتح گر قرار دیا جاسکے کیونکہ چند ماہ قبل ٹیم میں جگہ پکی کرنے کے بعد اب عرفان اور جنید خان بھی ویسی کارکردگی نہیں دکھا پارہے جس کا مظاہرہ انہوں نے بھارت کے خلاف کیا تھا ۔ بدقسمتی سے بیک اپ میں بھی پاکستان کے پاس ایسا کوئی تیز باؤلر نہیں ہے جسے غیر معمولی کہا جاسکے اس لیے آئندہ بھی گرین شرٹس کو انہی کھلاڑیوں پر بھروسہ کرنا ہوگا اور شاید سلیکشن کمیٹی کی اسی کمزوری نے کھلاڑیوں کو تن آسانی میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ جیسی بھی کارکردگی دکھائیں انہیں ٹیم سے نکالا نہیں جائے گا۔یہ پاکستان کرکٹ کی مجبوری اور کمزوری ضرور ہے لیکن ٹیم کے ساتھ منسلک کوچز پر کسی نے یہ پابندی عائد نہیں کی کہ وہ کھلاڑیوں کی تربیت نہ کریں۔ اگر "سند یافتہ" غیر ملکی کوچ کے ہوتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو زمبابوے کے ہاتھوں بھی شرمندگی سے دوچار ہونا ہے تو پھر ایسے ہائی پروفائل کوچ کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان لگانا چاہیے۔ اگر ہمارے ورلڈ کلاس باؤلرز اوسط درجے کے بیٹسمینوں کو بھی آؤٹ کرنے میں جدوجہد کا شکار ہیں تو پھر اسپیشلسٹ بالنگ کوچ کس مرض کی دوا ہے جو بالرز کو وکٹیں لینے کا گر سکھا نہیں سکا۔ یہ الگ بات ہے کہ 1998میں زمبابوے کے خلاف ہونے والی شکست میں محمد اکرم بھی چھ اوورز میں 31رنز کے عوض کوئی وکٹ نہ لے پائے تھے!
زمبابوے کے ہاتھوں ہونے والی اس شکست کے بعد سوئے ہوئے کرکٹ بورڈ کے سرہانے رکھا الارم بھی شدت کے ساتھ بجنا شروع ہوگیا ہےجس میں سے یہی آواز آرہی ہے کہ یہ "اَپ سیٹ" بہت تکلیف دہ ہےمگر اب ٹیم کا "سیٹ اَپ" تبدیل کرنا بھی ناگزیر ہوگیا ہے!!