یونس خان اور گیندبازوں کی بدولت پاکستان ہرارے میں فتح یاب
ہرارے میں کھیلا گیا پہلا پاک-زمبابوے ٹیسٹ پہلے تین دن تک زمبابوے کی گرفت میں رہا لیکن اس کے بعد یونس خان کی ڈبل سنچری اور دوسری اننگز میں پاکستانی باؤلرز کی شاندار کارکردگی کے باعث ایسا ہاتھ سے نکلا کہ پانچویں دن کھانے کے وقفے سے قبل ہی پاکستان 221 رنز کے بھاری مارجن سے جیت گیا۔
تین دن تک مقابلے کو برابری کی سطح پر رکھنے پر زمبابوے کے لیے کچھ تعریف و تحسین تو بنتی ہے لیکن جس طرح پاکستان یونس خان کی شاندار بیٹنگ کے ذریعے مقابلے میں واپس آیا اور پھر زمبابوے کی دوسری اننگز کو صرف 120 رنز پر لپیٹا، وہ پاکستان کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔
دراصل پاکستان اپنی پہلی اننگز میں صرف 249 رنز پر ڈھیر ہو گیا تھا اور اس کے بعد زمبابوے ہر گزرتے سیشن کے ساتھ مقابلے پر حاوی ہوتا چلا گیا۔ پہلی بار میں صرف 27 رنز پر تین وکٹیں گنوانے کے بعد اظہر علی کے 78 اور مصباح الحق کے 53 رنز پاکستان کو ایک قابل عزت مجموعے تک لے جا سکتے تھے لیکن پے در پے وکٹیں گرنے سے اس پیشرفت کو سخت ٹھیس پہنچی۔ اگر نویں وکٹ پر سعید اجمل اور جنید خان کی 67 رنز کی شراکت داری نہ ہوتی تو پاکستان کہیں کم مجموعے تک پہنچتا۔ یہ سعید اجمل کی 49 رنز کی اننگز ہی تھی جس نے پاکستان کے اسکور کو ڈھائی سو کے قریب پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
زمبابوے کے باؤلرز نے قائم مقام کپتان ہملٹن ماساکازا کے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کے فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔ ٹینڈائی چتارا اور تناشے پنیانگرا کے علاوہ شنگی ماساکازا اور پراسپر اتسیا نے بھی بہت اچھی باؤلنگ کی اور جب میزبان بلے بازوں نے اپنا کمال دکھایا تو گویا پاکستان دیوار سے لگ چکا تھا۔
ویسے تو زمبابوے کا آغاز بھی اتنا اچھا نہ تھا اور 68 رنز تک اس کی تین وکٹیں گر چکی تھیں، جن میں ووسی سبانڈا اور ہملٹن ماساکازا کی قیمتی وکٹیں بھی شامل تھیں، لیکن یہ سکندر رضا اور میلکم والر کے درمیان 127 رنز کی رفاقت تھی جس نے زمبابوے کو بالادست پوزیشن تک پہنچایا۔
پاکستانی نژاد سکندر رضا،جو اپنے کیریئر کا پہلا ہی ٹیسٹ اپنے آبائی ملک کے خلاف کھیل رہے تھے، نے تجربہ کار والر کا بہت عمدگی سے ساتھ دیا اور اس موقع پر جب پاکستان باؤلرز مقابلے پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہے تھے، ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس رفاقت کا خاتمہ سعید اجمل کے ہاتھوں والر کے سلپ میں کیچ دینے کے ساتھ ہوا۔ والر نے صرف 100 گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے 7 رنز بنائے جبکہ سکندر رضا 118 گیندوں پر 10 چوکوں کی مدد سے 60 رنز بنا کر سعید اجمل کی تیسری وکٹ بنے۔
اس مقام پر جب 212 رنز پر آدھی زمبابوین ٹیم پویلین لوٹ چکی تھی، پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ اننگز کی بساط لپیٹ کر زمبابوے کو برتری حاصل کرنے سے روکے لیکن ایلٹن چگمبورا کے شاندار 69 رنز اور ٹیل اینڈرز کی جانب سے بھرپور ساتھ نے پاکستان کے ارادوں کو ناکام کردیا۔ زمبابوے اپنی پہلی اننگز میں 327 رنز تک پہنچ گیا، یعنی کہ پاکستان پر پہلی اننگز میں 78 رنز کی شاندار برتری۔
سعید اجمل نے 95 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں جنید خان اور ایک وکٹ راحت علی کو ملی۔
78 رنز کا خسارہ ایسا تھا، جو پاکستانی بلے بازوں کی پہلی اننگز کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ماہرین کو فیصلہ کن عنصر لگ رہا تھا اور کم از کم پاکستان کی دوسری اننگز کا جس بری طرح آغاز ہوا، اس سے تو واقعی ایسا لگ رہا تھا۔ صرف 23 رنز تک پہنچتے پہنچتے خرم منظور، اظہر علی اور محمد حفیظ تینوں اپنی وکٹیں دے گئے۔ خرم دوسری اننگز میں بھی ناکام ہوئے اور ایک مرتبہ پھر پنیانگرا کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ اظہر علی صفر پر پنیانگرا کی دوسری وکٹ بنے جبکہ پاکستان کو تیسرا اور بڑا جھٹکا محمد حفیظ کے آؤٹ ہونے کی صورت میں لگا جو چتارا کی گیند پر شارٹ ایکسٹرا کور پر گیند تھما کے چلتے بنے۔
اس وقت جبکہ 55 رنز کا خسارہ ابھی باقی تھا، پاکستان کے تین مستند بلے باز میدان بدر ہو چکے تھے۔ اس مرحلے پر تجربہ کار مصباح الحق اور یونس خان پر بھاری ذمہ داری تھی کہ وہ مقابلے کو بچائیں اور دونوں کے درمیان چوتھی وکٹ پر 116 رنز کی شراکت داری نے اس مقصد کے لیے بنیاد فراہم کی۔ گو کہ ان دونوں کی رفاقت کو کہیں آگے جانا چاہیے تھا لیکن مصباح شنگی ماساکازا کے بچھائے گئے جال میں پھنس گئے اور کور پر کیچ دے گئے۔ 157 گیندوں پر 52 رنز کی باری اپنے اختتام کو پہنچی، اس وقت پاکستان کا اسکور صرف 139 رنز تھا۔
اسد شفیق سے کافی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ یونس خان کا ساتھ دیں گے لیکن وہ ایک مرتبہ پھر بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے اور چتارا کی ایک خوبصورت اندر آتی ہوئی گیند ان کی بیلز اڑا گئی۔ پاکستان کی برتری ابھی تہرے ہندسے میں بھی نہیں پہنچی تھی اور آدھی ٹیم آؤٹ ہو چکی تھی۔
اس مقام پر کہ جب ایک اینڈ سے مستند بلے بازوں کا خاتمہ ہو چکا تھا، وکٹ کیپر عدنان اکمل نے یونس خان کو وہ ساتھ فراہم کیا، جس کی پاکستان کو ضرورت تھی۔ دونوں نے چھٹی وکٹ پر 118 رنز جوڑ کو زمبابوے کے امکانات کو پہلی بڑی ٹھیس پہنچائی۔ عدنان نے 154 گیندوں پر 64 رنز بنا کر یونس کا بھرپور ساتھ دیا جو دوسرے اینڈ پر ڈٹے ہوئے تھے اور خراب گیندوں پر حریف باؤلرز کو پوری سزا دے رہے ہیں۔ یونس نے اس دوران 221 گیندوں پر اپنے کیریئر کی 22 ویں سنچری بھی بنائی۔
گو کہ عدنان اکمل کے رن آؤٹ ہونے کے بعد تین وکٹیں بہت جلد گر گئیں جن میں عبد الرحمٰن، سعید اجمل اور جنید خان شامل تھے، اور تینوں ہی اتسیا کی گیندبازی کا نشانہ بنے لیکن یہ آخری وکٹ پر راحت علی اور یونس کے درمیان 88 رنز کی تیز رفتار شراکت داری تھی ، جس نے یونس کو ڈبل سنچری کے قریب پہنچایا۔
چوتھے دن کے اختتامی لمحات میں جب پاکستان کو ضرورت تھی کہ وہ اننگز ڈکلیئر کر کے دن کے آخری اوورز میں زمبابوے کو آزمائے، کپتان مصباح الحق کے سامنے یہ آزمائش تھی کہ اگر وہ اننگز ڈکلیئر کرتے ہیں تو یونس کی ڈبل سنچری رہ جائے گی اور اگر کھیلنے دیتے ہیں تو میچ ڈرا ہونے کی صورت میں ان کے تاخیر سے ہونے والے فیصلے پر بہت تنقید ہوگی۔ اس لیے وہ پویلین میں بیٹھے پیچ و تاب کھاتے رہے اور بار بار یونس خان کو اشارے کرتے رہے کہ اننگز ڈکلیئر کرنے میں اتنے اوورز باقی ہیں اور یونس نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا۔ اس وقت جب پاکستان کے پاس اننگز ڈکلیئر کرنے کے لیے آخری اوور تھا، یونس خان نے اتسیا کو مڈوکٹ پر شاندار چھکا لگا کر اپنی ڈبل سنچری مکمل کی اور اس کے ساتھ پاکستان نے دوسری اننگز 419 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا اور زمبابوے کو میچ جیتنے کے لیے 342 رنز کا بھاری ہدف دیا۔
یہ یونس خان کے کیریئر کی چوتھی ڈبل سنچری تھی، جس کے دوران وہ 10 گھنٹے 14 منٹ تک کریز پر موجود رہے اور 404 گیندوں کا سامنا کیا۔ ان کی باری میں 3 شاندار چھکے اور 15 چوکے شامل تھے۔ آخری وکٹ پر ان کا بھرپور ساتھ دینے والے راحت علی صرف 40 گیندوں پر تین چھکوں اور اتنے ہی چوکوں کے ذریعے 35 رنز بنا کر ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔
زمبابوے کی جانب سے اتسیا نے تین، چتارا اور پنیانگرا نے دو، دو اور شنگی ماساکازا نے ایک وکٹ حاصل کی۔
زمبابوے چوتھے دن کے آخری اوورز کھیلنے کے لیے میدان میں اترا اور دن کے آخری اوور میں سعید اجمل کے ہاتھوں ٹینو ماوویو کی وکٹ گرنے سے اس کے ارادوں پر اچھی خاصی اوس پڑ گئی۔ پانچویں دن زمبابوے کو جیتنے کے لیے 329 رنز اور پاکستان کو 9 وکٹوں کی ضرورت تھی اور میزبان بلے بازوں پر یہ بھاری ذمہ داری تھی کہ وہ پانچویں دن کی استعمال شدہ وکٹ پر پاکستان کے گیندبازوں کا سامنا کریں، اور مقابلہ بچانے کے لیے دن کے پورے 90 اوورز کھیلیں، لیکن وہ 40 اوورز کے مہمان ثابت ہوئے اور جنید خان، عبد الرحمٰن اور سعید اجمل نے 120 رنز پر ہی زمبابوے کی دوسری اننگز کا خاتمہ کر دیا۔
جنید خان نے پانچویں روز اپنے پہلے ہی اوور میں حریف کپتان ہملٹن ماساکازااور اگلے اوور میں ووسی سبانڈآ کو آؤٹ کرزمبابوے کی مزاحمت کےامکانات کا تقریباً خاتمہ کردیا۔ پہلی اننگز کے ہیرو میلکم والر اور سکندر رضا عبد الرحمٰن کے ہاتھ وکٹ دے گئے۔ صرف 58 رنز پر زمبابوے آدھی ٹیم سے محروم ہوچکا تھا۔ پھر سعید اجمل نے ٹیل اینڈرز پر ہاتھ صاف کر کےمیچ میں اپنی وکٹوں کی تعداد 11 کرلی اور پاکستان مقابلہ 221 رنز کے بھاری مارجن سے جیت گیا۔
ایک ایسا مقابلہ جو تین دن تک زمبابوے کی گرفت میں رہا،ایک دن پاکستانی بلے بازوں اور اگلے دن پاکستانی گیند بازوں کی کارکردگی سےایک بہت بڑے مارجن سے زمبابوے کی شکست پر ختم ہوا۔ پاکستانی باؤلرز جو پہلی اننگز میں جدوجہد کرتے دکھائی دیے، دوسری باری میں صرف ایک سیشن میں زمبابوے کی 9 وکٹیں لے اڑے۔
یونس خان کو کیریئر کی یادگار ترین اننگز میں سے ایک کھیلنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
پاکستان اور زمبابوے کے درمیان دوسرا ٹیسٹ جو سیریز سے قبل بلاوایو میں طے شدہ تھا، ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر ہرارے ہی میں منتقل کردیا گیا ہے اور اب دونوں ٹیمیں 10 ستمبر سے ہرارے اسپورٹس کلب ہی میں دوسرا ٹیسٹ کھیلیں گی۔ پاکستان کو سیریز میں ایک-صفر کی ناقابل شکست برتری حاصل ہے۔