[گیارہواں کھلاڑی] سوال جواب قسط 23

0 1,198

قارئین کے سوالات کے جوابوں کا سلسلہ اب 23 ویں قسط پر پہنچ چکا ہے۔ جوابات سے زیادہ اہم اس سلسلے میں قارئین کی دلچسپی کا مسلسل بڑھنا اہم ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کرکٹ کے پرانے اور نئے ریکارڈز اور اعدادوشمار کے حوالے سے ہمیں سوالات بھیجتے رہیں گے۔ اگر آپ بھی کوئی سوال کرنا چاہتے ہیں تو اس صفحے پر موجود سادہ سا فارم استعمال کریں اور کرک نامہ سے اس کا جواب پائیں۔

سوال: تمام طرز کی کرکٹ میں تیز ترین 50، 100 اور 200 وکٹیں کن باؤلرز نے حاصل کی ہیں؟ عبد اللہ

جواب: ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے کم مقابلوں میں 50 وکٹیں حاصل کرنے کا ریکارڈ آسٹریلیا کے چارلی ٹرنر کے پاس ہے جنہوں نے 1888ء میں مانچسٹر کے مقام پر اپنی 50 ویں وکٹ صرف چھٹے ٹیسٹ میں حاصل کی۔ ٹیسٹ میں 100 تیز ترین وکٹوں کا ریکارڈ انگلستان کے جارج لومین کے پاس ہے جنہوں نے 1896ء میں جوہانس برگ کے مقام پر اپنی 100 ویں وکٹ صرف 16 ویں ٹیسٹ میں حاصل کی۔ ٹیسٹ میں کم مقابلوںمیں 200 وکٹیں حاصل کرنے کا رنامہ آسٹریلیا کے کلیری گریمٹ نے انجام دیا جنہوں نے 1936ء میں جوہانس برگ کے مقام پر صرف 36 ویں ٹیسٹ مقابلے میں 200 ویں بلے باز کو شکار بنایا۔

ایک روزہ کرکٹ میں سب سے کم مقابلوں میں 100، 150، 200 اور پھر 250 وکٹیں حاصل کرنے کے تمام ریکارڈز ثقلین مشتاق کے پاس ہیں (تصویر: Getty Images)
ایک روزہ کرکٹ میں سب سے کم مقابلوں میں 100، 150، 200 اور پھر 250 وکٹیں حاصل کرنے کے تمام ریکارڈز ثقلین مشتاق کے پاس ہیں (تصویر: Getty Images)

ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین 150 وکٹوں کا ریکارڈ انگلستان کے سڈنی بارنیس کے پاس ہے جنہوں نے 1913ء میں ڈربن کے مقام پر اپنی 150 ویں وکٹ محض 24 ویں مقابلے میں حاصل کی۔ ان کے بعد پاکستان کے وقار یونس کا نمبر آتا ہے جنہوں نے 1994ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف آکلینڈ کے مقام پر اپنا 27 واں ٹیسٹ کھیلتے ہوئے 150 واں کھلاڑی آؤٹ کیا۔ تیسرے نمبر پر آسٹریلیا کے کلیری گریمٹ ہیں جنہوں نے 1934ء میں 28 ویں ٹیسٹ مقابلے میں اپنی 150 ویں وکٹ لی۔

اس وقت پاکستان کے سعید اجمل 27 ٹیسٹ مقابلوں میں 144 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں اور اگر وہ آج شروع ہونے والے ہرارے ٹیسٹ میں 6 وکٹیں حاصل کر لیتے ہیں تو وہ ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے تیزی سے 150 وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑیوں میں تیسرے نمبر پر آ جائیں گے۔ اگر سعید اجمل اپنے اگلے 8 ٹیسٹ مقابلوں میں 56 وکٹیں حاصل کرلیتے ہیں تو وہ تیز کرکٹ کی تاریخ میں سب سے کم مقابلوں میں 200 وکٹیں لینے والے باؤلر بن جائیں گے۔

ایک روزہ میں تیز ترین 50 وکٹوں کا ریکارڈ سری لنکا کے اجنتھا مینڈس کے پاس ہے جنہوں نے 2009ء میں ڈھاکہ کے مقام پر زمبابوے کے خلاف میچ میں اپنی 50 ویں وکٹ حاصل کی اور یہ ان کے کیریئر کا محض 19 واں مقابلہ تھا۔ ایک روزہ میں تیز ترین 100، 150، 200 اور 250 وکٹوں کے تمام ریکارڈ پاکستان کے ثقلین مشتاق کے پاس ہیں جنہوں نے اپنے 53 ویں ون ڈے میں 100 ویں، 78 ویں مقابلے میں 150 ویں، 104 ویں مقابلے میں 200 ویں اور 138 ویں مقابلے میں 250 ویں وکٹ حاصل کیں۔ ثقلین نے اپنے ایک روزہ کیریئر میں 169 مقابلے کھیلے اور 288 وکٹیں حاصل کیں۔ اگر وہ 2004ء میں صرف 28 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ نہ لیتے تو جس حساب سے وہ وکٹیں لے رہے تھے آج وہ یقیناً اس طرح کے کافی ریکارڈز کے مالک ہوتے۔

ٹی 20 بین الاقوامی کرکٹ میں اب تک 7 گیندباز 50 یا زیادہ وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جن میں عمر گل، سعید اجمل، شاہد آفریدی، اجنتھا مینڈس، اسٹورٹ براڈ، لاستھ مالنگا اور گریم سوان شامل ہیں۔ ان سب میں اجنتھا مینڈس کو تیز ترین 50 وکٹیں حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے جنہوں نے اکتوبر 2012ء میں آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے پہلے سیمی فائنل میں پاکستان کے خلاف اپنے ٹی ٹوئنٹی کیریئر کی 50 ویں وکٹ حاصل کی جبکہ یہ ان کے کیریئر کا محض 26 واں ٹی ٹوئنٹی مقابلہ تھا۔ مینڈس کی 50 ویں وکٹ عمران نذیر تھے، جنہیں بولڈ کیا گیا تھا۔

سوال: ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان نے آج تک کتنی بار 300 سے زیادہ کا ہدف حاصل کیا ہے اور سب سے زیادہ کس ٹیم کے خلاف 300 سے زیادہ کا ہدف حاصل کیا ہے؟ منیر احمد بھیو

پاکستان نے ایک روزہ میں چار مرتبہ 300 رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا اور چاروں مرتبہ مقابل بھارت کی ٹیم تھی (تصویر: AFP)
پاکستان نے ایک روزہ میں چار مرتبہ 300 رنز کا ہدف کامیابی سے حاصل کیا اور چاروں مرتبہ مقابل بھارت کی ٹیم تھی (تصویر: AFP)

جواب: پاکستان نے ایک روزہ کرکٹ میں اب تک 4 مرتبہ 300 کا ہدف کامیابی کے ساتھ عبور کیا ہے اور چاروں بار مخالف ٹیم بھارت کی تھی۔ جس میں سب سے بڑا ہدف 322 رنز کا تھا جو موہالی کے مقام پر 8 نومبر 2007ء کو 6 وکٹوں کے نقصان پر عبور کیا گیا۔ اس مقابلے میں فاتحانہ شاٹ آخری یعنی پچاسویں اوور کی پانچویں گیند پر شاہد آفریدی نے مارا تھا۔ اس مقابلے میں یونس خان نے شاندار 117 رنز کی باری کھیلی تھی اور مصباح الحق نے 49 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ دونوں کھلاڑیوں کے درمیان پانچویں وکٹ پر 102 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی، وہ بھی صرف74 گیندوں پر۔ پاکستان کی جانب سے 300 رنز کا ہدف حاصل کرنے کے بقیہ تینوں واقعات یہ ہیں: اپریل 2005ء میں احمد آباد کے مقام پر 319 رنز، فروری 2006ء میں پشاور کے مقام پر 311 رنز جبکہ جولائی 2008ء میں کراچی کے مقام پر 309 رنز کا ہدف کامیابی سے عبور کیا گیا۔

اس کے علاوہ اپریل 1998ء میں جنوبی افریقہ میں کھیلی گئی ایک روزہ سیریز میں کمبرلے کے مقام پر سری لنکا کے خلاف پاکستان نے ہدف کے کامیاب تعاقب میں پورے 300 رنز بنائے لیکن اس مقابلے میں ہدف 296 رنز تھا، جو پاکستان نے 6 وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا۔ اس مقابلے میں انضمام الحق نے 110 گیندوں پر ناقابل شکست 116 رنز بنائے تھے اور میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

سوال: حال ہی میں پاکستانی نژاد فواد احمد نے آسٹریلیا کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی کیريئر کا آغاز کیا۔ اب تک کتنے پاکستانی نژاد کھلاڑی دوسرے ممالک کی جانب سے ڈومیسٹک یا بین الاقوامی کرکٹ کھیل چکے ہیں؟ احسان علی صابری

فواد احمد عثمان خواجہ کے بعد پہلے پاکستانی نژاد کھلاڑی ہیں جنہیں آسٹریلیا کی نمائندگی کا موقع ملا (تصویر: Getty Images)
فواد احمد عثمان خواجہ کے بعد پہلے پاکستانی نژاد کھلاڑی ہیں جنہیں آسٹریلیا کی نمائندگی کا موقع ملا (تصویر: Getty Images)

جواب: بین الاقوامی کرکٹ میں بہت سارے پاکستانی نژاد کھلاڑی دوسرے ممالک کی طرف سے کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ ان میں کینیڈا اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے کھیلنے والے درجنوں ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے لیکن بڑی ٹیموں کی طرف سے کھیلنے والے ایسے کھلاڑی بہت کم ہیں جن کا جنم پاکستان میں ہوا ہو۔ آسٹریلیا کی طرف سے ایسے کھلاڑی عثمان خواجہ اور فواد احمد ہیں جبکہ انگلستان کی طرف سے عثمان افضال اور اویس شاہ، زمبابوے کی طرف سے سکندر رضا اور جنوبی افریقہ کی طرف سے عمران طاہر ہیں۔ ان کے علاوہ کافی سارے پاکستانی نژاد کھلاڑی انگلش کاؤنٹی کھیل رہے ہیں۔

سوال: کیا یہ سچ ہے کہ جنوبی افریقہ کے باؤلر وین پارنیل نے اسلام قبول کرلیا ہے؟ محمد جاوید

وین پارنیل نے جولائی 2011ء میں اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا (تصویر: Getty Images)
وین پارنیل نے جولائی 2011ء میں اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا (تصویر: Getty Images)

جواب: وین پارنیل نے جنوری 2011ء میں اسلام قبول کیا، جس کا باقاعدہ اعلان انہوں نے جولائی 2011ء میں کیا۔ پارنیل نے جولائی 2011ء میں ایک بیان میں کہا کہ "میں نے ابھی تک اپنے اسلامی نام کا فیصلہ نہیں کیا، لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ اپنا نام ولید رکھوں جس کا مطلب نیا پیدا ہونے والا بیٹا، لیکن اب میرا نام وین ڈیلن پارنیل ہی رہے گا، میں اپنی ٹیم کے ساتھیوں اور ٹیم کو سپورٹ کرنے والی شراب ساز کمپنی کا احترام جاری رکھوں گا۔ پارنیل نے ضاحت کی کہ میرا اسلام قبول کرنا ذاتی فیصلہ ہے۔ ٹیم مینیجر محمد موسیٰ جی نے کہا کہ پارنیل کا اسلام قبول کرنااس کا اپنا فیصلہ ہے، اس میں ہاشم آملہ یا عمران طاہرکاکردار نہیں۔ پارنیل کے ٹیم دوستوں کا کہنا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ بہت سنجیدہ ہے اور اس نے شراب نوشی سے توبہ کرلی ہے۔ واضح رہے کہ وین پارنیل نے ابھی تک اپنا نام تبدیل نہیں کیا۔