[باؤنسرز] ڈومیسٹک کرکٹ پھر تجربات کی بھینٹ

0 1,041

آج پاکستانی ٹیم میں ایسے کئی کھلاڑی کھیل رہے ہیں جو اگر 90ء کے عشرے میں ہوتے تو شاید پاکستانی ٹیم کے قریب بھی نہ پھٹک سکتے کیونکہ دو عشرے قبل پاکستان کو ڈومیسٹک کرکٹ سے اتنا ٹیلنٹ مل رہا تھا کہ ذرا سی خراب کارکردگی کسی کھلاڑی کو ٹیم سے باہر کروادیتی تھی کیونکہ اس کی جگہ لینے کیلئے بیک اَپ میں کئی کھلاڑی موجود ہوتے تھے مگر آج کی کرکٹ میں اوسط درجے کے کھلاڑی اس لیے پاکستانی ٹیم میں کھیل رہے ہیں کہ پاکستان کرکٹ میں صلاحیت کا کال پڑ چکا ہے اور بیک اَپ میں ایسے کھلاڑی موجود نہیں ہے جو موجودہ کھلاڑیوں سے بہتر ہوں اس لیے مجبوری کے عالم میں اوسط درجے کی کارکردگی کے حامل کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرنا پڑ رہا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ڈومیسٹک سطح پر میچز کی بہت زیادہ تعداد کو کامیابی کی کنجی سمجھا جا رہا ہے (تصویر: PCB)
بدقسمتی سے پاکستان میں ڈومیسٹک سطح پر میچز کی بہت زیادہ تعداد کو کامیابی کی کنجی سمجھا جا رہا ہے (تصویر: PCB)

پاکستان کرکٹ میں صلاحیت کا قحط ڈومیسٹک کرکٹ کے ایک مربوط نظام نہ ہونے کے باعث پڑا ہے اور ہر سال ڈومیسٹک سیزن میں ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کرکٹ کو پیچھے لے کر جارہی ہیں ۔پچھلے دس پندرہ سالوں سے ڈومیسٹک کرکٹ میں نہایت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔ماضی میں پاکستان کو خام صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی مل رہے تھے اس لیے ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو بہتر کرنے کیلئے کسی نے توجہ نہ دی حالانکہ یہی وہ وقت تھا جب ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو بہتر کرلیا جاتا تو آج پاکستان کرکٹ کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا لیکن ہر سال ڈومیسٹک کرکٹ کو تجربات کی بھینٹ چڑھا کر پاکستان کرکٹ کو مشکلات کا شکار کیا گیا ہے اور 2013-14ء کے سیزن کیلئے پی سی بی نے ایک مرتبہ پھر ڈومیسٹک کرکٹ کے فارمیٹ کو تبدیل کردیا ہے۔

اس سیزن میں 23اکتوبر سے 6 مختلف ڈومیسٹک ٹورنامنٹس ایک ساتھ شروع ہونگے جن میں دو فرسٹ کلاس ٹورنامنٹس قائد اعظم ٹرافی، پریذیڈنٹ ٹرافی کے علاوہ دو ون ڈے ٹورنامنٹس قائد اعظم کپ، پریذیڈنٹ کپ اور انڈر19کے تین روزہ اور ایک روزہ ٹورنامنٹس کھیلے جائیں گے۔قائد اعظم ٹرافی میں 14 ریجنل ٹیمیں نبردآزما ہوں گی جنہیں دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہی ٹیمیں ون ڈے کپ میں بھی مدمقابل آئیں گی۔اسی طرح پریذیڈنٹ ٹرافی میں 11ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گی اور پھر پریذیڈنٹ کپ میں بھی یہ ٹیمیں آپس میں کھیلیں گی۔ اس سال ریجنز کے ٹی 20 ٹورنامنٹ کے علاوہ ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں بھی ٹی20ایونٹ میں مقابلہ کریں گی۔ 2013-14ء کے سیزن میں ریجنل اور ڈیپارٹمنٹس کے ٹورنامنٹس ایک ساتھ شروع کروانے کا مقصد ریجنل کرکٹ کو فروغ دینا ہے تاکہ کرکٹ کی نرسریوں سے پاکستان کرکٹ کو ٹیلنٹ مل سکے کیونکہ قائد اعظم ٹرافی میں ڈیپارٹمنٹس کے کھلاڑی شریک نہیں ہونگے اور ریجن کے لڑکوں کو کھیلنے کا زیادہ موقع ملے گا کیونکہ اس سال ٹیموں کے اسکواڈمیں کھلاڑیوں کی تعداد 20سے 25کردی گئی ہے ۔

پی سی بی کی دانست میں یہ فیصلہ بہت اچھا ہوگا لیکن ایسا کرنے سے پی سی بی نے ڈومیسٹک کرکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے جہاں پریذیڈنٹ ٹرافی میں پاکستان کے ٹاپ کھلاڑی ایک دوسرے کے مدمقابل ہونگے جس سے یقینی طور پر اس ٹورنامنٹ میں کرکٹ کا معیار مختلف دیکھنے کو ملے گا لیکن دوسری طرف قائد اعظم ٹرافی میں چونکہ صرف ریجنز کے ناتجربہ اور کم صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی نبردآزما ہونگے اس لیے ریجنل ٹورنامنٹس کا معیار ویسا نہیں ہوگا جو معیار پریذیڈنٹ ٹرافی میں دیکھنے کو ملے گا۔

ڈومیسٹک کرکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے علاوہ پی سی بی کے اس فیصلے کا نقصان ریجنز کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے کیونکہ ماضی قریب میں بھی ریجنل کرکٹ میں عہدیداروں کی من مانیوں کی مثالیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں جہاں اقربا پروری اور سفارش کی بنیاد پر نااہل کھلاڑیوں کو فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا موقع فراہم کردیا جاتا ہے ۔گزشتہ سیزن تک ڈیپارٹمنٹس کے اچھے کھلاڑیوں کو اسکواڈ کو شامل کرنا ریجنز کی مجبوری تھی اس لیے ریجنز کی ٹیموں کے انتخاب میں کرپشن کا امکان کم تھا لیکن اب ڈیپارٹمنٹس کے کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کے باعث ریجنز میں کھلاڑیوں کی سلیکشن میں کرپشن کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں ۔

2013-14ء کے سیزن میں مجموعی طور پر 117فرسٹ کلاس ،101ون ڈے اورٹی20فارمیٹ کے 58میچز کھیلے جائیں گے ۔گزشتہ سیزنوں کی طرح اس سیزن میں بھی یہ میچز کی بہت بڑی تعداد ہے جو فائنل بیٹنگ اور بالنگ ٹیبل پر ہزار سے زائد رنز اور 80کے لگ بھگ وکٹیں لینے والے بیٹسمینوں اور بالرز کو تو ابھار دے گی لیکن اس سے پاکستان کرکٹ کا بھلا نہیں ہوگا کیونکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کم تر کوالٹی کے مقابلوں میں رنز کے ڈھیر اور وکٹوں کے انبار لگانے والے جب انٹرنیشنل کرکٹ میں وارد ہوتے ہیں تو ان کی صلاحیتوں اور بھاری بھر کم ریکارڈز کا پول کھل جاتا ہے ۔ دنیا کے دیگر ممالک اپنی ڈومیسٹک کرکٹ میں مقدار کی بجائے معیار کو ترجیح دے کر اپنی ٹیموں کے معیار کو بلند کررہے ہیں لیکن پاکستان میں ابھی تک میچز کی بہت زیادہ تعداد کو ہی کامیابی کی کنجی سمجھا جارہا ہے جو پاکستان کرکٹ میں صلاحیت کا زنگ آلود ’’تالا‘‘ تو کھولنے میں ناکام ہے لیکن یہ کنجی بہت سے لوگوں پر پی سی بی کی ’’تجوریوں‘‘ کا منہ کھول رہی ہے!!