نوجوان اوپنرز کے سر پر لٹکتی تلوار!

1 1,068

مجھے یاد ہے کہ 1997-98ء میں جنوبی افریقہ کے دورۂ پاکستان کے موقع پر سائیڈ میچ میں عامر سہیل کی کپتانی میں کراچی کے ایک غیر معروف اوپنر علی نقوی کو موقع دیاگیا جس نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری اننگز میں سنچری اسکور کرڈالی۔ یہ سنچری علی نقوی کو پروٹیز کے خلاف ٹیسٹ کیپ دلوانے کا سبب بن گئی اور راولپنڈی اسٹیڈیم میں بھی قسمت کی دیوی علی نقوی پر مہربان رہی ہے جس نے ایلن ڈونلڈ، شان پولاک، بریٹ شولٹز، ژاک کیلس اور پیٹ سمکوکس پر مشتمل باؤلنگ اٹیک کے خلاف تہرے ہندسے کی اننگز کھیل کر ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری بنانے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

اگر سائیڈ میچ میں کھلائے گئے دونوں اوپنرز ناکام رہے تو کیا فیصلہ کیا جائے گا؟ (تصویر: AFP)
اگر سائیڈ میچ میں کھلائے گئے دونوں اوپنرز ناکام رہے تو کیا فیصلہ کیا جائے گا؟ (تصویر: AFP)

آج 16 برس بعد بھی پاکستان کرکٹ کو یہی صورتحال درپیش ہے کہ جس طرح ماضی میں سعید انور کا ساتھی ڈھونڈنے کیلئے سائیڈ میچ میں علی نقوی اور محمد رمضان کا ٹرائل لیا گیا تھا، بالکل اسی طرح جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں دوسرے اوپنر کے انتخاب کیلئے سائیڈ میچ کا سہارا لیا جارہا ہے جس میں دو نوجوان اوپنرز احمد شہزاد اور شان مسعود ٹیسٹ کیپ حاصل کرنے کیلئے اپنے کیریئر کی سب سے عمدہ اننگز کھیلنے کی کوشش کریں گے ۔

احمد شہزاد پاکستان کرکٹ کا ونڈر بوائے ہے جس کے باصلاحیت ہونے پر شک نہیں ہے جبکہ شان مسعود بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کرکے زمبابوے کے دورے پر جانے میں کامیاب ہوا تھا۔یہ دونوں اوپنرز باصلاحیت ہیں مگر دونوں کے درمیان ہونے والی ٹائی نے ان دونوں کے سر پر تلوار لٹکا دی ہے کہ انہیں تین روزہ پریکٹس میچ میں ہر حال میں کارکردگی دکھانا ہوگی تاکہ وہ پاکستان کیلئے ٹیسٹ کھیلنے کا اعزاز حاصل کرسکیں۔

سہ روزہ پریکٹس میچ میں پاکستان 'اے' کے کپتان عمر امین نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ٹیسٹ ٹیم کے ممکنہ امیدوار اوپنرز کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کیلئے شاید ایک ہی اننگز میسر آئے اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کے خلاف ایسی دباؤ کی صورتحال میں کھیلنا دونوں اوپنرز کیلئے آسان نہ ہوگا اور جو بھی اوپنر ٹیسٹ میچ کھیلنے میں کامیاب ہوگا پانچ روزہ میچ میں کئی گنا زیادہ دباؤ اس کا منتظر ہوگا جسے دوسرے اینڈ پر کسی سینئر اوپنر کی سپورٹ حاصل نہ ہوگی۔

احمد شہزاد یا شان مسعود میں سے جو بھی اوپنر ٹیسٹ کھیلنے کا اہل قرار پائے گا اگر وہ اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوگیا تو وہ اگلی سیریز میں بھی موقع حاصل کرلے گا ورنہ دوسری صورت میں اس کا کیریئر غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجائے گا کیونکہ ناکامی کی صورت میں سری لنکا کے خلاف توفیق عمر، عمران فرحت، ناصر جمشید یا محمد حفیظ میں سے کسی ایک کو واپس بلالیا جائے گااور جنوبی افریقہ کے پیس اٹیک کے ہتھے چڑھنے والا نوجوان اوپنر اگلے موقع کا انتظار ہی کرتا رہ جائے گا۔

پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی اس سیریز میں ایک نوجوان اوپنر کو موقع دے رہی ہے جو کہ اچھا فیصلہ ہے لیکن اس فیصلے کا وقت بہت غلط ہے کیونکہ نوجوان اوپنر کو آزمانے کا اصل موقع زمبابوے کے خلاف سیریز تھی جس میں محمد حفیظ کو باہر بٹھا کر نوجوان بلے باز کو موقع دیا جاسکتا تھا جو جنوبی افریقہ کے خلاف مشکل سیریز سے قبل اعتماد حاصل کرلیتا۔ اب کیونکہ سلیکٹرز وہ موقع گنواچکے ہیں تو پھر لاہور میں تین روزہ میچ سے قبل 12 کھلاڑیوں کا اعلان کرنے کے بعد بقیہ تین پوزیشنز پر کھلاڑیوں کا ٹرائل لے لیا جاتا جس میں سے ایک پوزیشن اوپنر کی بھی تھی۔

اگر محمد حفیظ کو خارج کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا تو ٹیم کااعلان بھی پریکٹس میچ سے پہلے کیا جاتا۔ اگر سلیکٹرز نے ذوالفقار بابر کو پریکٹس میچ میں اس کی کارکردگی کی وجہ سے منتخب کیا ہے تو یہ سمجھنا بھی غلط ہے کیونکہ ذوالفقار بابر اگر اس میچ میں 6 وکٹیں نہ بھی لیتا تو تب بھی کھبے اسپنر کو ہی منتخب کیا جاتا جو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں خود کو منوانے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے ۔اس لیے پریکٹس میچ سے قبل 12 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرنے کے ساتھ احمد شہزاد اور شان مسعود کو یہ واضح پیغام دے دیا جاتا کہ اس میچ میں اچھی پرفارمنس دینے والے اوپنر کو 15 رکنی اسکواڈ میں جگہ مل جائے گی۔ ایسا کرنے سے دونوں اوپنرز کو نسبتاً آسان کنڈیشنز اور سازگار ماحول میں کھیلنے کا موقع ملتا اور میچ کی کارکردگی کی بنیاد پر جس اوپنر کو بھی منتخب کیا جاتا اسے شارجہ میں تین روزہ میچ کھلا کر مزید اعتماد دیا جاتا ۔

اب یہ صورتحال ہے کہ میدان میں اترنے والے دونوں کو اوپنرز کو ابھی تک یہ نہیں پتہ کہ وہ ٹیسٹ میچ کھیلیں گے یا نہیں اور اگر دونوں کی کارکردگی یکساں رہی تب بھی آخری وقت دونوں قرعہ فال اپنے نام نکلنے کا انتظار کرتے رہیں گے ۔دوسری جانب اگر یہ دونوں اوپنرز سائیڈ میچ میں ناکام ہوگئے تو کیا تب بھی ٹیم مینجمنٹ کسی ناکام اوپنر کو ٹیسٹ کیپ دے کر اس کے اعتماد کو مزید گرانے کی کوشش کرے گی یا پھر ہنگامی حالات میں اظہر علی یا عمر امین کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے اوپننگ کی مشکل پوزیشن پر بھیج دیا جائے گا؟