پاک-جنوبی افریقہ سیریز: ایک مایوس کن سال میں امید کی آخری کرن

0 1,013

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے ایک مایوس کن سال اپنی آخری سہ ماہی میں داخل ہو چکا ہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف تین-صفر کی ہزیمت اور پھر زمبابوے کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد شکستہ حوصلوں کے ساتھ پاکستان اب ایک مرتبہ پھر عالمی نمبر ایک کے سامنے ہے یعنی "ایک اور دریا کا سامنا" ہے!

زائد العمر اور آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کے ساتھ دنیا کے بہترین باؤلرز کا مقابلہ کیسے ہوگا؟ (تصویر: AFP)
زائد العمر اور آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کے ساتھ دنیا کے بہترین باؤلرز کا مقابلہ کیسے ہوگا؟ (تصویر: AFP)

تین سال قبل جب پاکستان متحدہ عرب امارات کے انہی میدانوں میں جنوبی افریقہ کے سامنے آیا تھا تو حالات اس وقت بھی بدترین تھے۔ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ تین مرکزی کھلاڑی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی پابندیاں بھگتنے کے لیے تیار تھے جبکہ قومی ٹیم مصباح الحق کی زیر قیادت صحراؤں کی خاک چھان رہی تھی۔ ان حالات میں پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئنٹی اور پھر ایک روزہ سیریز ہارا اور پھر زبردست مزاحمت کے بعد بالآخر ٹیسٹ سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

لیکن اب جن حالات کا پاکستان کو سامنا ہے وہ بھی کم سنگین نہیں ہیں۔ اہم کھلاڑی زائد العمر ہیں یا فارم میں نہیں ہیں جبکہ نوجوان کھلاڑی اتنا تجربہ نہیں رکھتے کہ دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کا سامنا کر سکیں۔ صرف اوپننگ ہی کے معاملے کو لے لیجیے۔ ٹیم کے ساتھ جو تین اوپنرز ہیں ان میں سب سے تجربہ کار خرم منظور ہیں، جن کے پاس 9 ٹیسٹ میچز کھیلنے کا تجربہ ہے۔ جس میں انہوں نے 29.80 کے معمولی اوسط سے 447 رنز بنا رکھے ہیں جبکہ دیگر دو اوپنرز احمد شہزاد اور شان مسعود تو کبھی ٹیسٹ اکھاڑے ہی میں نہیں اترے۔ احمد شہزاد تو پھر بھی 27 ایک روزہ اور 15 ٹی ٹوئنٹی بین الاقوامی مقابلے کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن شان مسعود نے تو کبھی کوئی بین الاقوامی مقابلہ کھیلا ہی نہیں۔

اب ان تینوں میں سے جو بھی بحیثیت اوپنر منتخب ہوگا، اسے اس وقت دنیا کے بہترین گیند بازوں کو بھگتنا ہوگا۔ ڈیل اسٹین، مورنے مورکل اور ویرنن فلینڈر جیسے باؤلرز سے نمٹنے کا بوجھ کہیں ان نازک کاندھوں کی برداشت سے زیادہ کا بوجھ تو نہ ہوگا؟ یہ وقت بتائے گا۔

مڈل آرڈر میں سوائے مصباح الحق کے کوئی کھلاڑی ایسا نہیں جو تواتر کے ساتھ رنز بنا رہا ہو۔ یونس خان سے امیدیں بہت وابستہ ہیں لیکن ان کا معاملہ اب "چلے تو چاند تک، ورنہ شام تک" والا ہوگیا ہے۔ اظہر علی اور اسد شفیق کے بلے گویا رنز اگلنا بھول گئے ہیں اور زمبابوے جیسے کمزور حریف کے خلاف بھی وہ کوئی قابل ذکر باری نہ کھیل سکے۔

دوسری جانب اگر باؤلنگ کا بھی جائزہ لیا جائے تو پاکستان صرف تین تیز اور تین اسپن گیندبازوں کے ساتھ دنیا کے بہترین بلے بازوں کو زیر کرنے چلا ہے، وہ بھی ایسی وکٹوں پر جو 'بلے بازوں کی جنت' سمجھی جاتی ہیں۔

یہاں کھیلی گئی آخری پاک-جنوبی افریقہ ٹیسٹ سیریز کا اسکور کارڈ ہی دیکھ لیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ابوظہبی اور دبئی کی وکٹیں بلے بازوں کی جنت ہیں۔ نومبر 2010ء میں کھیلے گئے پاک-جنوبی افریقہ ابوظہبی ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ نے پہلی اننگز میں 380 اور دوسری میں صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 318 رنز بنا کر اننگز ڈکلیئر کی جبکہ پاکستان نے پہلی اننگز میں 248 اور دوسری اننگز میں صرف تین وکٹو ں کے نقصان پر 343 رنز بنا کر مقابلہ ڈرا کردیا۔ پھر دبئی میں کھیلا گیا دوسرا ٹیسٹ ایسا ہی 'ہائی اسکورنگ اور بورنگ ' مقابلہ تھا۔ جنوبی افریقہ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ابراہم ڈی ولیئرز کے 278 رنز کی بدولت 584 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر پہلی اننگز ڈکلیئر کی جس کے بعد پاکستان نے 434 رنز بنائے۔ جنوبی افریقہ نے دوسری اننگز 203 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی اور آخری روز پاکستان تین وکٹوں کے نقصان پر 153 رنز بنا پایا اور یوں یہ مقابلہ بھی ڈرا ہوا۔ یعنی کہ دو ٹیسٹ میچز کی آٹھ اننگز میں 2663 رنز بنے اور صرف 52 وکٹیں گریں۔

اب اگر حالات زیادہ نہ بدلے ہوں تو تصور کیجیے پاکستانی باؤلنگ کا کیا حال ہونے والا ہے۔ آؤٹ آف فارم سعید اجمل، عبد الرحمٰن اور جنید خان کے بل بوتے پر پاکستان جنوبی افریقہ کی آہنی دیوار کو آخر کیسے گرائے گا؟ یا بلے بازی میں یونس خان اور مصباح الحق جیسے 'پرانے محافظ' کیسے دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کا مقابلہ کریں گے؟ پاکستان اس سنگ میل کو کیسے عبور کرے گا؟ معجزوں سے یا کسی کھلاڑی کی تاریخی انفرادی کارکردگی سے؟ اس سوال کا جواب تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سیریز پاکستان کے لیے بہت بڑا امتحان ثابت ہونے جا رہی ہے اور اس کا نتیجہ کئی کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔