[آج کا دن] شارجہ سے وابستہ پاکستان کی بدترین یاد

2 1,054

پاکستان ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر عالمی نمبر ایک کا سامنا کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات میں موجود ہے۔ آخری مرتبہ جب پاکستان جب یہاں ورلڈ نمبر ون کے مقابل آیا تھا تو اس نے تاریخی کلین سویپ فتح حاصل کی تھی یعنی انگلستان کے خلاف 2011-12ء کی سیریز میں لیکن آج ہی کے دن 2002ء میں پاکستان نے انہی میدانوں میں اس وقت کے عالمی نمبر ایک آسٹریلیا سے جس بری طرح شکست کھائی تھی، ایسی ہار پاکستان نے کبھی نہیں سہی۔

نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے، نتیجتاً پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال اور نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کے دوران ٹیم ہوٹل کے قریب فرانسیسی انجینئروں پر بم حملے نے پاکستان کو کرکٹ کے لیے ایک غیر محفوظ مقام بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا پاکستان آنے سے گریزاں تھا اور سیریز کا پہلا ٹیسٹ کولمبو میں باقی دونوں ٹیسٹ شارجہ میں کھیلنے قرار پائے۔ کولمبو میں فتح حاصل کرنے کے بعد آسٹریلیا کو متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں سخت گرمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی زیر کرنا تھا۔

پاکستان کی شارجہ سے شاندار یادیں وابستہ تھیں۔ جاوید میانداد کا تاریخی چھکا اور اس کے علاوہ روایتی حریف بھارت کے خلاف درجنوں فتوحات پاکستانیوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہیں لیکن 2002ء میں اکتوبر کے انہی ایام میں پاکستان نے اس میدان پر جس بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس کو کوئی پاکستانی کھلاڑی اور شائق یاد نہیں کرنا چاہے گا۔

شارجہ میں کھیلے گئے سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں کپتان وقار یونس نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو گویا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کردیے۔ صرف اور صرف 59 رنز پر پوری پاکستانی ٹیم میدان بدر ہوچکی تھی۔ اگر "تو چل، میں آیا" کو کبھی عملی صورت میں دیکھنا ہو تو 2002ء کے اس پاک-آسٹریلیا شارجہ ٹیسٹ کی جھلکیاں دیکھ لیجیے۔

گلین میک گرا، شین وارن، بریٹ لی اور اینڈی بکل کے سامنے صرف ایک پاکستانی کھلاڑی دہرے ہندسے کا "شرف" حاصل کرسکا۔ عبد الرزاق کے 21 رنز کے علاوہ صرف فاضل رنز ہی 14 تک پہنچ پائے۔ اوپنرز عمران نذیر اور توفیق عمر دونوں صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے جبکہ خود کپتان وقار یونس اور ثقلین مشتاق بھی صفر پر ہی پویلین لوٹے۔ صرف 59 رنز، یعنی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پاکستان کا کم ترین مجموعہ۔

ایسا لگتا تھا کہ شارجہ کی وکٹ میں بارودی سرنگیں نصب ہیں لیکن جب آسٹریلیا کے بلے باز آئے تو محاورے کی زبان میں بلے بازی 'ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل' دکھائی دی۔ وقار یونس، شعیب اختر اور ثقلین مشتاق جیسے جانے مانے گیندبازوں کے سامنے انہوں نے 310 رنز کا مجموعہ اکٹھا کر ڈالا جس میں اوپنر میتھیو ہیڈن کے شاندار 119 اور رکی پونٹنگ کے قابل ذکر 44 رنز شامل تھے۔

یوں پاکستان کو پہلی اننگز میں 251 رنز کا خسارہ سہنا پڑا اور اس کا دباؤ اتنا زیادہ ثابت ہوا کہ دوسری اننگز میں بلے بازوں کی حالت اور زیادہ شرمناک ہوگئی۔ توفیق عمر اور کپتان وقار یونس کے 'پیئر' اور یونس خان اور راشد لطیف کے صفر پر آؤٹ ہونے کے ساتھ پاکستان صرف 53 رنز پر ڈھیر ہوا۔ یعنی ایک ہی اننگز کے بعد اپنا کم ترین اسکور بنانے کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔

شین وارن نے ایک مرتبہ پھر 4 وکٹیں حاصل کیں اور بقیہ تینوں تیز باؤلرز نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور آسٹریلیا کو صرف دو روز میں ایک اننگز اور 198 رنز کے بھاری مارجن سے فتح سے ہمکنار کرکے سیریز جتوا دی۔

یوں 12 اکتوبر 2002ء پاکستان کی بلے بازی کی تاریخ کا بدترین دن قرار پایا۔ یہ تھا ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا محض 17 واں موقع کہ جب میچ کا فیصلہ صرف دو دن میں ہوا۔

شاید شارجہ میں یہ ہزیمت اٹھانے کے باعث ہی پاکستان اگلے آٹھ سالوں تک اس میدان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے واپس نہ آیا اور اب بھی یہ پاکستان کا ٹیسٹ میں پسندیدہ مقام نہیں ہے۔ اب جنوبی افریقہ کے خلاف چند روز میں شروع ہونے والی سیریز بھی دبئی اور ابوظہبی میں کھیلی جائے گی۔

11 سال قبل اس بدترین شکست کا منہ دیکھنے والی ٹیم کا ایک رکن اس وقت پاکستان کا کپتان ہے یعنی مصباح الحق۔ گو کہ جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کا کوئی ٹیسٹ شارجہ میں طے شدہ نہیں ہے لیکن مصباح عالمی نمبر ایک کے خلاف سیریز شروع ہونے سے پہلے اس بدترین دن کی موہوم سی یاد بھی ذہن میں نہ لانا چاہیں گے۔