پاکستان کرکٹ...ایڈہاک کے نرغے میں!!
پاکستان کرکٹ ایک معمہ بن چکی ہے جہاں سب کچھ وقتی اور عارضی دکھائی دیتا ہے نہ ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل ہے جو زمبابوے جیسی ٹیم سے بھی ہار جاتی ہے مگر دنیا کی نمبر ایک ٹیم جنوبی افریقہ کو ناکوں چنے چبوادیتی ہے ۔فیصلوں کا یہ عدم تسلسل پی سی بی کے ایوانوں میں بھی ہے جہاں ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ پالیسی کا راج ہے اورسیاست پی سی بی کے ایوانوں رچ بس گئی ہے۔پاکستان کرکٹ سے سیاست کو الگ کرنا شاید ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اہم عہدوں پر تقرریوں سے لے کر ٹیم سلیکشن تک سب کچھ سیاست کی نظر ہوجاتا ہے۔ سیاسی من مانیوں کی تازہ مثال پی سی بی پر ایڈہاک کا نفاذ ہے کہ وزیر اعظم ایک نوٹیفیکیشن کے تحت پی سی بی کے پیٹرن ان چیف بن گئے ہیں جنہوں نے چند لمحوں میں نگران سیٹ اَپ کو ختم کرتے ہوئے پانچ رکنی عبوری کمیٹی قائم کردی ہے جس کی ذمہ داری 90دن میں نئے چیئرمین کا انتخاب ہے۔
وزیر اعظم اور پی سی بی کے نئے پیٹرن میاں نواز شریف نے گورننگ بورڈ کو تحلیل کرکے کرکٹ کے امور چلانے کیلئے نگران چیئرمین نجم سیٹھی، سابق چیئرمین شہریار خان، ظہیر عباس ،ہارون رشید اور قومی ٹیم کے سابق مینجر نوید اکرم چیمہ پر مشتمل پانچ رکنی عبوری کمیٹی قائم کی ہے ۔اس کمیٹی نے متفقہ طور پر نجم سیٹھی کو کمیٹی کا سربراہ قرار دینے پر اتفاق کیا ہے جو اب 18اور 19اکتوبر کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
چوہدری ذکاء اشرف نے مئی میں خود کو بند کمرے میں غیر آئینی طریقے سے پی سی بی کا چیئرمین منتخب کرواکر جوغلطی کی، اسے سدھارنے کیلئے حکومتی مداخلت سے نجم سیٹھی کو نگران چیئرمین بنا کر اس سے بڑی غلطی کی گئی۔ جنہیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوے دن میں بورڈ کے سربراہ کاالیکشن کروانے کا ٹاسک دیا تھا مگر نجم سیٹھی نے مستقل چیئرمین بننے کا خواب دیکھتے ہوئے جان بوجھ کر الیکشن کا معاملہ لٹکایا اور اب وفاقی حکومت نے نجم سیٹھی کو مستقل چیئرمین بنانے کی راہ ہموار کرتے ہوئے پی سی بی پر ایڈہاک لگا کر بدترین مثال قائم کی ہے۔
چیئرمین کے الیکشن کروانے کی ڈیڈ لائن 18 اکتوبر کو ختم ہورہی تھی اور اس سے قبل نجم سیٹھی کا مطمئن چہرہ یہ کہانی بیان کررہا تھا کہ اُن کی ’’چڑیا‘‘ وزیر اعظم ہاؤس کے چکر باقاعدگی کے ساتھ لگا رہی ہے ۔ الیکشن کی ڈیڈ لائن ختم ہونے سے دو دن قبل پی سی بی پر ایڈہاک لگانایہی ظاہر کررہا ہے کہ ایڈہاک کا اسکرپٹ پہلے ہی لکھا جاچکا تھا تاکہ چیئرمین کے انتخاب کا معاملہ مزید لٹکا رہے اور نجم سیٹھی کا اقتدار مزید طویل ہوتا جائے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ پر پہلی مرتبہ ایڈہاک ستمبر 1960ء میں صدر ایوب خان نے لگائی جس کا دورانیہ 9 برس تک پھیل گیا اور 8 سالوں بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ تین برس کیلئے ایڈہاک کے نرغے میں رہی۔ کرکٹ بورڈ پر تیسری ایڈہاک 1994ء میں لگی جو 1998ء میں ختم ہوئی مگر ایک سال بعد پھر پی سی بی پر ایڈہاک لگا دی گئی اور اس مرتبہ ایڈہاک کا دورانیہ 4 برس تک رہا۔
کرکٹ سے ’’محبت‘‘ کرنے والے وزیر اعظم نے 14برس قبل بھی اپنے دور اقتدار میں پاکستان کرکٹ کو ایڈہاک کے جال میں پھنسایا اور اب ایک مرتبہ پھر کرکٹ کھیلنے کے ’’شوقین‘‘ وزیر اعظم نے کرکٹ کے معاملات کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے پاکستان کرکٹ کے معاملات کو ایڈہاک کی نذر کردیا ہے۔ ماضی میں حکومتی مداخلت کے ساتھ ایڈہاک کے فیصلے کو پی سی بی کا اندرونی معاملہ کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا لیکن اس مرتبہ حالات یکسر مختلف ہیں ۔ آئی سی سی کی وولف رپورٹ کے مطابق ہر ملک کیلئے لازمی تھا کہ وہ رواں سال جون سے قبل اپنے کرکٹ بورڈز میں جمہوری سیٹ اَپ نہ لائے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں مذکورہ کرکٹ بورڈ پر پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔ یہ ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود پی سی بی اپنے سیٹ اَپ کو جمہوری نہیں کرسکی بلکہ ہر آنے والے دن حکومتی مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔
پانچویں مرتبہ پی سی بی پر لگائی جانے والی ایڈہاک کا مقصد صرف اور صرف نجم سیٹھی کو مستقل طور پر پی سی بی کا چیئرمین بنانا ہے جو گھنٹوں میں ہی عبوری کمیٹی کے ’’سردار‘‘ بن گئے اور اب ان کی اگلی منزل مستقل طور پر پی سی بی کی سربراہی ہے جس کیلئے انہیں حکومت وقت کی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔
ایڈہاک کے ان تین مہینوں میں پاکستان کرکٹ کے معاملات بدستور منجمد ہی رہیں گے جبکہ عبوری کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کے سر پر بھی مستقل طور پر عدالتی احکامات کی تلوار لٹکتی رہے گی اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ حکومت عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کررہی ہے جبکہ حکومت اور عدالت میں ہونے والی اس سرد جنگ سے پاکستان کرکٹ متاثر ہورہی ہے۔ حکومت کی یہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں پاکستان کرکٹ کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں، اور اس کا کسی کو ذرا سا بھی احساس نہیں ہے۔