شاندار باؤلنگ، بیٹنگ اور بال ٹمپرنگ، جنوبی افریقہ جیت گیا
عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ اپنی شاندار باؤلنگ، بیٹنگ اور بال ٹمپرنگ کے ذریعے دوسرا ٹیسٹ بھاری مارجن سے جیت کر سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یوں جنوبی افریقہ کا بیرون ملک ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی برقرار رہا اور پاکستان بھی وہی نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا جو اس نے تین سال پہلے متحدہ عرب امارات کے انہی میدانوں میں جنوبی افریقہ کے خلاف حاصل کیا تھا۔ لیکن دبئی، جہاں پاکستان آج تک کوئی ٹیسٹ مقابلہ نہیں ہارا تھا، بالآخر پاکستان کا مضبوط قلعہ نہیں رہا۔
پہلی اننگز میں عمران طاہر کی شاندار باؤلنگ اور پھر جنوبی افریقہ کے کپتان گریم اسمتھ کے 234، ابراہم ڈی ولیئرز 164 اور دونوں کی 338 رنز کی ریکارڈ شراکت داری اس میچ کی اہم ترین جھلکیاں رہیں، لیکن ان سے بھی زیادہ گرما گرم خبر جنوبی افریقہ کا اس وقت بال ٹمپرنگ کرنا تھا جب 418 رنز کے خسارے میں موجود پاکستان 57 رنز پر 3 وکٹیں گنوا چکا تھا۔ دوسری جانب اگر آخری دن اسد شفیق اور مصباح الحق کی مزاحمت نہ ہوتی تو شاید پاکستان ریکارڈ مارجن سے شکست کھاتا لیکن اسد شفیق کی سنچری اور مصباح کے شاندار 88 رنز نے پاکستان کی کچھ لاج رکھ لی لیکن اس کے باوجود شکست کا مارجن ایک اننگز اور 92 رنز رہا۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے اگر جنوبی افریقہ اور اس سے قبل زمبابوے کے خلاف سیریز کے صرف نتائج پر نظر رکھی جائے تو یہ سیریز بہت حوصلہ افزاء رہی۔ عالمی درجہ بندی کی سب سے آخری ٹیم کے خلاف سیریز جیتنے میں ناکامی کے بعد عالمی نمبر ایک کے خلاف سیریز برابر کھیلنا ایک بہت اچھا نتیجہ تھا، جس کی توقع بہت کم لوگوں کو تھی۔
درحقیقت پاکستان دبئی ٹیسٹ اسی وقت ہار گیا تھا جب ٹاس جیتنے کے بعد صرف 99 رنز پر اس کی پہلی اننگز مکمل ہوگئی تھی۔ گزشتہ میچ کے ہیرو خرم منظور پہلی ہی اوور میں ڈیل اسٹین کی وکٹ بنے تو اس کے بعد وکٹیں گرنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چار کھلاڑی صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے جن میں خرم کے علاوہ عدنا ن اکمل، سعید اجمل اور محمد عرفان شامل تھے جبکہ سب سے زیادہ رنز ذوالفقار بابر نےبنائےجن کی تعداد 25 تھی۔کپتان مصباح الحق، جن سے بہت امیدیں وابستہ تھے، محض2 رنز بنانے کے بعد عمران طاہر کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوئے۔
پاکستانی نژاد عمران طاہر، جنہوں نے نومبر 2012ء میں آسٹریلیا کے خلاف اپنے آخری ٹیسٹ مقابلے میں ریکارڈ 260 رنز کھا کر کوئی وکٹ نہ لی تھی، بہترین انداز میں ٹیسٹ اکھاڑے میں واپس آئے اور 130 رنز دے کر 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور جنوبی افریقہ کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔
اگر پاکستان پہلی اننگز میں جنوبی افریقہ کو بڑی برتری حاصل نہ کرنے دیتا تب بھی معاملہ قابو میں رہتا۔ جیسا کہ 2012ء میں انگلستان کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میں وہ 99 رنز پر ڈھیر ہونے کے بعد انگلستان کو 142 رنز پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ لیکن یہاں حالات مختلف تھے۔ 134 رنز پر 4 وکٹیں حاصل کرنے کے بعد جب پہلی ہی گیند پر عدنان اکمل نے ابراہم ڈی ولیئرز کا کیچ چھوڑا تو پھر ایک لمحے کے لیے بھی پاکستان مقابلے میں واپس نہ آ سکا۔
ڈی ولیئرز اور کپتان گریم اسمتھ نے پانچويں وکٹ کی ریکارڈ شراکت داری جوڑ کر پاکستان کی حالت قابل رحم کردی۔ دوسرے پورے دن کی محنت کے باوجود پاکستانی باؤلرز صرف نائٹ واچ مین ڈیل اسٹین ہی کی وکٹ حاصل کرپائے۔
تیسرے دن پاکستانی باؤلرز نے اچھی باؤلنگ کی اور جنوبی افریقہ کو صرف 57 رنز کا اضافہ کرنے دیا لیکن اس مرحلے پر پروٹیز کی برتری اتنی زیادہ ہوچکی تھی، اور مقابلے میں اتنا وقت باقی تھا کہ پاکستان کے واپس آنے کے امکانات ایک فیصد بھی نہیں نظر آتے تھے۔
جو موہوم سی امید تھی وہ خرم منظور کے'پیئر' اور شان مسعود کے مختصر کیریئر کے دوسرے 'انڈے' نے پوری کردی۔ صرف 70 رنز تک پہنچتے پہنچتے پاکستان اپنی چار وکٹیں گنوا چکا تھا جن میں اوپنرز کے علاوہ اظہر علی اور یونس خان کی قیمتی وکٹیں بھی شامل تھیں۔ 418 رنز کی برتری کے جواب میں 70 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ۔ کوئی تاریخی معجزہ ہی پاکستا ن کو اس مقام سے بچا سکتا تھا کیونکہ دو دن کا کھیل ابھی باقی تھا۔
چوتھے دن کپتان مصباح الحق اور اسد شفیق نے قابل ذکر مزاحمت کی۔ ابتدائی دو سیشنز میں انہوں نے جنوبی افریقہ کو کوئی وکٹ حاصل نہ کرنے دی۔ اسد شفیق نے اپنے کیریئر کے بہترین 130 رنز بنائے جبکہ مصباح الحق سنچری سے صرف 12 رنز کے فاصلے پر اپنے ہاتھوں سے وکٹ گنوا بیٹھے۔ 88 رنز بنانے کے بعد وہ پارٹ ٹائم گیندباز ڈین ایلگر کو قیمتی وکٹ تھما گئے۔ 197 رنز کی عمدہ شراکت داری کا خاتمہ ہوا۔
پھر مصباح کی عدم موجودگی میں کیا ہوتا ہے؟ وہی ہوا۔ وکٹیں گرتی چلی گئیں۔ اسد دوسرے اینڈ پر کھڑے یہ تماشہ دیکھتے رہے اور بالآخر دومنی کے ہاتھوں ان کے اسٹمپ ہونے سے 326 رںز پر پاکستان کی باری کا خاتمہ ہو گیا۔ اسد کیریئر بیسٹ 130 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور جنوبی افریقہ مقابلہ جیت گیا۔
دوسری اننگز میں بھی عمران طاہر سب سے نمایاں باؤلر رہے جنہوں نے تین وکٹیں حاصل کیں جبکہ جے پی دومنی کو بھی تین وکٹیں ملیں۔ ایک، ایک کھلاڑی کو اسٹین، فلینڈر اور ایلگر نے آؤٹ کیا۔
ان تمام شاہکار کارکردگیوں کے باوجود جس وجہ سے یہ مقابلہ طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا وہ جنوبی افریقہ کے کھلاڑیوں کی کھیل کی روح کے خلاف حرکات تھیں۔ تیسرے روز جب جنوبی افریقہ میچ میں غالب پوزیشن پر تھا اور پاکستان ریکارڈ مارجن سے شکست کے قریب،اس وقت فف دو پلیسی کو گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ وہ اپنے ٹراؤزر کی زپ کے ساتھ گیند کو رگڑ کر اس کی شکل بگاڑنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ جنوبی افریقی باؤلرز کو مدد ملے اور وہ جلد از جلد پاکستان کو آل آؤٹ کرسکیں۔ اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد امپائروں نے نہ صرف گیند تبدیل کی بلکہ پاکستان کو 5 رنز بھی عنایت کیے۔ البتہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے اختیار کیے گئے رویے نے اس معاملے کو اور بدمزہ کردیا۔ انہوں نے فف دو پلیسی کو صرف 50 فیصد میچ فیس کا جرمانہ لگایا جو اس جرم میں سب سے کم سزا ہے اور ساتھ ہی میچ ریفری نے یہ انوکھا بیان بھی داغا کہ "فف نے یہ حرکت جان بوجھ کر نہیں کی تھی"۔ جبکہ ٹیلی وژن کیمروں پر شواہد موجود ہیں کہ فف کے علاوہ دیگر کھلاڑیوں نے بھی گیند کو کھرچنے یا اسے خراب کرنے کی دانستہ حرکات کی تھیں۔
سیریز کے اختتام کے ساتھ ہی عالمی درجہ بندی میں تازہ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں، جس کے مطابق پاکستان ایک مرتبہ پھر چوتھی پوزیشن پر واپس آ گیا ہے۔ دبئی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں فتح نے کلیدی کردار ادا کیا جبکہ جنوبی افریقہ بدستور نمبر ایک ہے۔ واضح رہے کہ زمبابوے کے خلاف دو ٹیسٹ میچز کی سیریز جیتنے میں ناکامی نے پاکستان کو چوتھی سے چھٹی پوزیشن پر پہنچا دیا تھا لیکن دبئی کی فتح اسے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک مرتبہ پھر چوتھے نمبر پر لے آئی ہے۔
گریم اسمتھ کو شاندار ڈبل سنچری پر میچ کا جبکہ ڈی ولیئرز کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اب دونوں ٹیمیں 5 ون ڈے مقابلے کھیلیں گی جن کا پہلا معرکہ 30 اکتوبر کو شارجہ میں کھیلا جائے گا۔