پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: "ایک اور دریا کا سامنا "

0 1,043

آپ کو معلوم ہوگا کہ 'بھارت-سری لنکا' مقابلے ہندوستانی شائقین کی چڑ ہيں۔ جب بھی دونوں ملکوں کو دس - پندرہ دن کی فراغت ملتی ہے تو یہ آپس میں ایک سیریز طے کرلیتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں تو یہ اتنی بار آمنے سامنے آئے کہ دونوں ممالک کے شائقین تک بیزار ہو گئے اور اب لگتا ہے کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مقابلوں کا ہوگا۔ دونوں ممالک رواں سال کے اوائل میں تین ٹیسٹ، پانچ ون ڈے اور دو ٹی ٹوئنٹی پر مشتمل ایک بھرپور اور طویل سیریز کھیل چکے ہیں، اور اس وقت بھی متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں 2 ٹیسٹ، 5 ون ڈے اور 2 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی سیریز کھیل رہے ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر محدود اوورز کی ایک سیریز طے کرلی گئی ہے۔

قومی ٹیم کے کھلاڑی جنوبی افریقہ سے کنی کترانا چاہتے ہیں، لیکن بورڈ نے انہیں ایک بار پھر تابڑ توڑ مکے سہنے کے لیے سامنے کردیا ہے (تصویر: AFP)
قومی ٹیم کے کھلاڑی جنوبی افریقہ سے کنی کترانا چاہتے ہیں، لیکن بورڈ نے انہیں ایک بار پھر تابڑ توڑ مکے سہنے کے لیے سامنے کردیا ہے (تصویر: AFP)

جنوبی افریقہ کے خلاف رواں سال کے اوائل میں بدترین انداز میں ہارنے کے بعد پاکستان کو عرب امارات میں اس وقت بھی سخت مقابلہ درپیش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قومی ٹیم جس قدر پروٹیز سے کنی کترانے کی کوشش کر رہی ہے، بورڈ اتنا ہی اسے ان مقابلوں میں پھنسا رہا ہے۔

دراصل یہ سیریز بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی کا نتیجہ ہے۔ بھارت نے اگلے ماہ جنوبی افریقہ کے خلاف 3 ٹیسٹ، 7 ایک روزہ اور 2 ٹی ٹوئنٹی میچز کی ایک طویل سیریز کھیلنا تھی لیکن ہارون لورگاٹ کو کرکٹ ساؤتھ افریقہ کا سربراہ بنانے اور ان کے ساتھ بھارت کی دیرینہ دشمنی ہونے کی وجہ سے سیریز بمشکل ختم ہونے سے بچی لیکن اب صرف 2 ٹیسٹ اور 4 ون ڈے میچز تک محدود رہ گئی ہے۔ یعنی کرکٹ ساؤتھ افریقہ کے لیے ایک بڑا مالی دھچکا بھی ثابت ہوگی۔ بس اس مالی نقصان کو کم سے کم کرنے یا فائدے میں بدلنے کے لیے پاکستان کو پیشکش کی گئی اور وہ راضی ہوگیا۔ کیوں نہ ہوتا؟ 15 لاکھ ڈالر ملیں گے آخر!

بہرحال، جس پاک-جنوبی افریقہ سیریز پر اتفاق کیا گیا ہے وہ دو ٹی ٹوئنٹی اور تین ایک روزہ مقابلوں پر مشتمل ہوگی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم حالیہ سیریز کے اختتام کے بعد 18 نومبر کو جنوبی افریقہ پہنچے گی جہاں اس کا اولین مقابلہ 20 نومبر کو جوہانسبرگ میں پہلے ٹی ٹوئنٹی کی صورت میں ہوگا۔ سیریز 30 نومبر تک جاری رہے گی، جس روز دونوں ٹیمیں سنچورین میں تیسرا و آخری ون ڈے مقابلہ کھیلیں گی۔

درحقیقت، قومی کرکٹ ٹیم کو اس وقت فتوحات کی سخت ضرورت ہے، رواں سال جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہارنے اور اس کے بعد دورۂ زمبابوے میں ٹیسٹ سیریز جیتنے میں ناکامی اور اب متحدہ عرب امارات میں ایک مرتبہ پھر پروٹیز کے خلاف سخت مشکل میں موجود پاکستان کے لیے پورے سال میں دورۂ ویسٹ انڈیز ہی واحد خوش کن لمحہ رہا۔ اس صورتحال میں ایک اور دورۂ جنوبی افریقہ کے لیے رضامند ہونا مالی لحاظ سے تو پی سی بی کے لیے فائدہ مند ہوگا لیکن کھلاڑیوں کے لیے ایک اور پریشان کن صورت حال ہوگی، بقول شاعر " ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مُجھ کو " !

حیران کن امر یہ ہے کہ محض ایک روز پہلے تک یہ خبریں موجود تھیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے انتظامی بحران کی وجہ سے دورۂ جنوبی افریقہ سے ہاتھ کھینچ چکا ہے لیکن گزشتہ روز اسلام آباد کی عدالت عالیہ کی جانب سے حکم امتناعی جاری کرتے ہی گویا 'سب کچھ ٹھیک ہوگیا' اور اگلے ہی روز یہ سیریز بھی طے ہوگئی۔