نیوزی لینڈ کے خلاف ایک اور "بنگلہ واش"
تین سال قبل جب نیوزی لینڈ دنیائے کرکٹ کی "کمزور ترین ٹیم" کے خلاف ایک روزہ سیریز کھیلا تھا تو چار-صفر کی ناقابل یقین شکست کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ ہم نے بھرپور تیاری نہیں کی تھی لیکن اس مرتبہ جبکہ نیوزی لینڈ نے دورۂ بنگلہ دیش سے قبل سری لنکا میں کھلاڑیوں کا تربیتی کیمپ بھی لگایا تاکہ وہ برصغیر کے ماحول سے آشنا ہوجائيں اور پچھلی شکست کا داغ دھوئیں، لیکن نتیجہ وہی 'ڈھاک کے تین پات' یعنی ایک مرتبہ پھر کلین سویپ!
بنگلہ دیش نے سیریز کے تیسرے و آخری مقابلے میں میزبان نے 308 رنز کا بڑا عبور کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ اسے کم از کم اپنے میدانوں میں ایک بڑی قوت تسلیم کیا جانا چاہیے۔ پھر اپنے اہم ترین کھلاڑی شکیب الحسن کی عدم موجودگی میں سیریز اتنے شاندار مارجن سے جیتنا بنگلہ دیش کا کارنامہ ہے جس پر انہیں جتنی داد دی جائے کم ہے۔
فتح اللہ کے خانصاحب عثمان علی خان اسٹیڈیم میں بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر پہلے نیوزی لینڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی تو انہوں نے اس 'دعوت شیراز' کے خوب مزے لوٹے۔ بالخصوص روز ٹیلر اور کولن منرو نے، جن کے درمیان چوتھی وکٹ پر 130 رنز کی بھرپور شراکت داری بھی قائم ہوئی۔ ان دونوں سے قبل اوپنرز انتون ڈیوکچ اور ٹام لیتھم کے درمیان پہلی وکٹ پر 66 رںز بنے۔ ڈیو کچ 38 گیندوں پر 8 چوکوں سے مزین 46 رنز کی باری کھیلنے کے بعد پویلین واپس آئے جبکہ لیتھم بھی اپنی نصف سنچری مکمل نہ کرسکے اور 43 تک محدود ہوگئے۔ گرانٹ ایلیٹ کی ناکامی کے باعث اب تجربہ کار ٹیلر کی ذمہ داری تھی کہ اننگز کو درست خطوط پر چلائیں اور انہوں نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ خوش قسمتی سے انہیں منرو کا بھرپور ساتھ ملا جنہوں نے چوتھی وکٹ پر ایک بہترین رفاقت بنائی۔
کولن منرو کے 85 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد آخری 39 گیندوں پر نیوزی لینڈ نے 76 رنز لوٹے، جس میں بنیادی کردار ٹیلر کی دھواں دار بیٹنگ کا تھا۔ وہ 93 گیندوں پر 9 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے 107 رنز بنا کر ناقابل شکست میدان سے لوٹے۔ 50 اوورز کی تکمیل پر نیوزی لینڈ کا اسکور 5 وکٹوں کے نقصان پر 307 رنز تھا۔نیوزی لینڈ نے آخری 5 اوورز میں 73 رنز لوٹے۔
بنگلہ دیش کی جانب سے محمود اللہ 2 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب باؤلر رہے جبکہ ایک، ایک وکٹ روبیل حسین، سہاگ غازی اور عبد الرزا ق کو ملی۔
ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں بنگلہ دیش کو ایک لمبی ہی نہیں بلکہ تیز رفتار ابتدائی شراکت کی بھی ضرورت تھی۔ پھر بنگلہ دیشی کھلاڑیوں پر سیریز ہارنے کا کوئی دباؤ بھی نہیں تھا، وہ پہلے ہی ابتدائی دونوں مقابلے جیت کرسیریز اپنےنام کر چکا تھا، اس لیے اوپنرز نے کھل کر کھیلا۔جب آٹھویں اوور میں ضیاء الرحمٰن آؤٹ ہوئے تو اسکور بورڈ پر 61 رنز موجود تھے اور بعد ازاں کسی کھلاڑی نےرنز بنانے کی رفتار کو آ کر کم نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ ابتدائی 20 اوورز کی تکمیل پربنگلہ دیش تین وکٹوں سے محروم ہونے کے باوجود 129 رنز بنا چکا تھا۔
گو کہ آخر میں نعیم اسلام کے 63 اور ناصر حسین کے ناقابل شکست 44 رنز نے بنگلہ دیش کو فتح کے نزدیک پہنچایا لیکن حقیقی کارکردگی اوپنر شمس الرحمٰن کی تھی جنہوں نے 107 گیندوں پر 96 شاندار رنز بنائے۔ بدقسمتی سے وہ اپنی سنچری مکمل نہ کرپائے اور صرف چار رنز قبل کوری اینڈرسن کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہوگئے لیکن 34 اوورز میں 204 رنز کا اسکور بنگلہ دیش اور خود ان کے لیے بھی اطمینان کا باعث تھا۔
بنگلہ دیش کے آخری لمحات میں بھی کچھ بہت زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا گو کہ محمود اللہ بہت نازک موقع پر 48 ویں اوور کی پہلی گیند پر متنازع انداز میں آؤٹ ہو گئے تھے لیکن ناصر حسین اور سہاگ غازی نے مقابلے پر گرفت مضبوط رکھی اور 48 ویں اوور کی پہلی گیند کو چوکے کی راہ دکھا کر بنگلہ دیش نے 4 وکٹوں سے مقابلہ جیت کر ایک اور تاریخی کلین سویپ مکمل کیا۔
نیوزی لینڈ کے باؤلرز سے جیسی کارکردگی کی توقع تھی، وہ انہو ں نے نہیں دکھائی۔ قائم مقام کپتان اور اسٹرائیک باؤلر کائل ملز کے 8 اوورز میں 55 رنز پڑے جبکہ ایڈم ملنے نے 7 اوورز میں 4 رنز کھائے۔ ان کے علاوہ مچل میک کلیناہن کو 9.2 اوورز میں 69، کوری اینڈرسن کو 10 اوورز میں 56 اور ناتھن میک کولم کو 8 اوورز میں 44 رنز سہنے پڑے۔ آخری باؤلر انتون ڈیوکچ کو بھی 7 اوورز میں 36 رنز مارے گئے۔ میک کلیناہن نے دو جبکہ اینڈرسن، ناتھن اور ڈیوکچ نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔
شمس الرحمٰن کو شاندار بلے بازی پرمیچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ بنگلہ دیشی کپتان مشفق الرحیم سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔