عالمی کپ کا سب سے بڑا مقابلہ آج، پاکستان بھارت آمنے سامنے
وریندر سہواگ سامنا کریں عمر گل کا، گوتم گمبھیر شاہد آفریدی کا اور سچن ٹنڈولکر ممکنہ طور پر مقابل ہوں شعیب اختر کے تو اسے دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا مقابلہ کہتے ہیں۔ روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان مقابلے کا لمحہ آ چکا ہے جس کا دنیا کے ہر کرکٹ شائق کو شدت سے انتظار تھا۔ آج دونوں روایتی حریف موہالی، چندی گڑھ کے پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن اسٹیڈیم میں آمنے سامنے ہوں گے۔
دنیا بھر کی نظریں اس میچ پر جمی ہیں جس کا فاتح عالمی کپ 2011ء کے فائنل میں سری لنکا کا مقابلہ کرے گا۔ ساتھ ساتھ شائقین کو کئی سوالات کےجواب بھی مل جائیں گے؛ کیا سچن ٹنڈولکر اپنی 100 بین الاقوامی سنچری بنا پائیں گے؟ کیا شعیب اختر اور سچن ٹنڈولکر آخری مرتبہ آمنے سامنے ہوں گے؟ کیا پاکستان کے کپتان شاہد آفریدی قائدانہ خوبیوں اور آل راؤنڈ کارکردگی کا مظاہرہ جاری رکھ سکیں گے؟ کیا یووراج سنگھ اپنی آل راؤنڈ کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھ سکیں گے؟ ان تمام ہی سوالات کا جواب آج موہالی کے میدان میں مل جائے گا۔
آج میدان میں صرف پاکستان و ہندوستان کے تماشائی ہی موجود نہیں ہوں گے بلکہ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور منموہن سنگھ بھی تشریف رکھیں گے۔ خاص مہمانوں کی جگہ پر بھارتی فلمی صنعت کے ستارے بھی جگمگائیں گے اور بھارت اور دنیا بھر کی اہم کاروباری و معروف شخصیات بھی نظریں جمائے بیٹھیں گی۔
اس صورتحال کے باعث اس میچ سے قبل دونوں ٹیموں کو توقعات کے شدید دباؤ تلے آ گئی ہیں گو کہ دونوں قائدین یہی کہہ رہے ہیں کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
دونوں ٹیموں نے گروپ مرحلے میں صرف ایک، ایک میچ ہارا ہے۔ پاکستان کو نیوزی لینڈ اور بھارت کو جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست ہوئی اس کے علاوہ بھارت کا ایک مقابلہ ٹائی بھی ہوا۔
یہ مقابلہ دراصل پاکستان کی باؤلنگ اور بھارت کی بلے بازی کا ہے۔ پاکستان نے پورے ٹورنامنٹ میں اچھی گیند بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کو محض 176 اور کوارٹر فائنل میں ویسٹ انڈیز کو 112 رنز پر ڈھیر کیا ہے جبکہ بھارت نے بلے بازی میں اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کے پانچ بلے باز اب تک ٹورنامنٹ میں سنچریاں بناچکے ہیں جبکہ کوئی پاکستانی 100 رنز کا ہندسہ عبور نہیں کر سکا۔
البتہ پاکستان نے ٹورنامنٹ میں بھارت کے مقابلے میں زیادہ میچز جیتے ہیں، اس کی فتوحات کا مارجن بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود بھارت میچ میں فیورٹ ہے کیونکہ اسے ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ کا ایڈوانٹیج حاصل ہوگا۔
پاکستان
عالمی کپ 2011ء کے آغاز سے قبل کس نے سوچا ہوگا کہ پاکستان جیسی ناقابل اعتبار اور تنازعات و مسائل میں گھری ٹیم نہ صرف دفاعی چمپئن کو عرصہ دراز کے بعد عالمی کپ میں شکست سے دوچار کرے گی بلکہ باآسانی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرے گی۔
2007ء کے عالمی کپ کے گروپ مرحلے میں شکست کے بعد سے پاکستانی کرکٹ پر مایوسی کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔ اس عالمی کپ کی سب سے بری یاد آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست اور کوچ باب وولمر کی افسوسناک موت کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ ٹیم کے لیے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے پورے سال 2008ء میں پاکستان کو کوئی ٹیسٹ میچ کھیلنے کو نہ ملا۔ 2009ء کا آغاز لاہور میں سری لنکن پر حملے کے افسوسناک واقعے سے ہوا اور پاکستان عالمی کرکٹ کپ کی میزبانی سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اس صورتحال میں 2010ء کا تباہ کن آغاز ہوا، دورۂ آسٹریلیا میں تمام ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست کا داغ لیے ٹیم وطن واپس پہنچی اور جب انگلستان کے دورے پر پہنچی تو وہاں دنیائے کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا تنازع اس کا منتظر تھا یعنی 'اسپاٹ فکسنگ معاملہ'۔ ٹیم اپنے دو بہترین تیز گیند بازوں اور ٹیسٹ کپتان سے محروم ہو گئی جنہیں بعد ازاں طویل پابندیوں کی سزا دی گئی۔
اس صورتحال میں پاکستان نے انگلستان کے خلاف سخت سیریز کھیلی، جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز برابر کی اور ایک روزہ میچز میں سخت مقابلے کے بعد شکست مانی۔ نیوزی لینڈ کو اس کی سرزمین پر ٹیسٹ اور ایک روزہ دونوں سیریز میں شکست دی اور بلند حوصلوں کے ساتھ عالمی کپ میں پہنچی۔ یہ کسی ٹیم کے لیے کم اعزاز نہیں ہے۔ پاکستان کی جگہ آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم بھی ہوتی تو اس کے حوصلے ٹوٹ جاتے لیکن ۔۔۔۔ گرین شرٹس نے اپنے عزم و حوصلے کو نئی جلا بخشی اور عالمی کپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔
اب ان کا ایک امتحان باقی ہے کہ وہ ماضی کی تمام روایتوں کو غلط ثابت کریں اور بھارت کو عالمی کپ میں شکست دیں۔ اگر وہ اس میں ناکام بھی ہوتے ہیں تب بھی انہوں نے دنیائے کرکٹ پر ثابت کر دیا کہ پاکستانی کرکٹ کبھی تباہ نہیں ہو سکتی۔
ایک ریکارڈ جو پاکستان کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے وہ یہ کہ بھارت آج تک عالمی کپ کے جتنے بھی مقابلوں میں پاکستان کے آمنے سامنے ہوا ہے فتح اسی کو نصیب ہوئی ہے۔ 1992ء کے عالمی کپ کا گروپ مقابلہ، 1996ء کا یادگار کوارٹر فائنل، 1999ء اور 2003ء کے گروپ مقابلے سب کے سب بھارت کے نام رہے اور پاکستان آج تک اس کے خلاف عالمی کپ میں کوئی میچ نہیں جیت سکا۔ اب جبکہ دونوں ٹیمیں پہلی بار سیمی فائنل جیسے اہم معرکے میں آمنے سامنے ہیں، دیکھتے ہیں کہ پاکستان اس روایت کو توڑتا ہے یا بھارت اس کو برقرار رکھتا ہے۔
بھارت
ٹورنامنٹ سے قبل ہی عالمی کپ جیتنے کا سب سے بڑا امیدوار۔ بھارت کا اس کے اپنے میدانوں پر مقابلہ کرنا دنیا کی تمام ٹیموں کے لیے سب سے مشکل ہدف ہوتا ہے۔
گروپ 'بی' جسے گروپ آف ڈیتھ کہا جا رہا تھا، میں سے سخت مقابلوں کے بعد ٹیم کوارٹر فائنل میں پہنچی جہاں اس نے دفاعی چیمپیئن آسٹریلیا کا پتہ صاف کیا اور یوں یقینی بنایا کہ اس مرتبہ کوئی نیا عالمی چیمپیئن بنے۔
سچن ٹنڈولکر، وریندر سہواگ، یووراج سنگھ اور گوتم گمبھیر جیسے جانے مانے اور ویرات کوہلی اور سریش رائنا جیسے نوجوان و باصلاحیت بلے باز دنیا کی کسی بھی باؤلنگ لائن آپ کا پتہ پانی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے باؤلنگ لائن۔ جس میں سوائے ظہیر خان کے کسی نے ابھی تک متاثر کن کارکردگی نہیں دکھائی۔ انگلستان کے خلاف میچ میں 328 رنز کا دفاع نہ کر پانا اور جنوبی افریقہ کے خلاف شکست اس کی باؤلنگ کی کمزوری کی عکاس ہے۔ لیکن پاکستان کی بیٹنگ اتنی مضبوط نہیں لگتی کہ وہ بھارتی باؤلنگ لائن اپ کی ان کمزوریوں کا اتنا فائدہ اٹھا سکے جتنا انگلستان اور جنوبی افریقہ نے اٹھایا۔
بھارت 1983ء میں عالمی اعزاز جیت چکا ہے اور اب اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنے ماسٹر بلاسٹر سچن ٹنڈولکر کو ریٹائرمنٹ سے قبل یہ تحفہ دے۔ سچن اپنے طویل کیریئر میں کوئی عالمی کپ نہیں جیت سکے اور اب بھارتی ٹیم کی خواہشوں کا مرکز یہی ہے کہ سچن اس اعزاز کے ساتھ دنیائے کرکٹ سے رخصت ہوں۔
موہالی میں پاک بھارت مقابلے
موہالی کا میدان پاک بھارت مقابلوں میں ہمیشہ پاکستان کے حق میں رہا ہے۔ پاکستان 1999ء میں پہلی بار یہاں بھارت کے مقابل آیا اور جب شعیب اختر اور ثقلین مشتاق کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے بھارت محض 196 رنز پر ڈھیر ہوا اور پاکستان نے محض تین وکٹوں کے نقصان پر ہدف حاصل کر لیا۔
پاکستان اور بھارت کا دوسرا اورآخری مقابلہ یہاں 2007ء کی تاریخی ایک روزہ سیریز میں ہوا جب پاکستان نے یونس خان کی شاندار سنچری اور آخری اوورز میں شاہد آفریدی کی مختصر و اہم اننگ کی بدولت 322 رنز کا بڑا ہدف حاصل کیا۔ اس میچ میں بھارت کے سچن ٹنڈولکر بدقسمتی سے 99 رنز بنا کر عمر گل کا نشانہ بن گئے تھے۔
میدان
پی سی اے اسٹیڈیم کی پچ روایتی طور پر باؤلرز کے لیے مددگار ہوتی ہے، لیکن اس مرتبہ بھارت کو مدد فراہم کرنے کے لیے اسے بلے بازی کے لیے موزوں وکٹ کے طور پر بنایا گیا ہے۔ البتہ جو چیز دونوں کپتانوں کے لیے پریشان کن ہوگی وہ ٹاس جیت کر بیٹنگ یا باؤلنگ کا فیصلہ ہوگا۔
چندی گڑھ میں رات کو اوس بہت زیادہ پڑتی ہے، اور باؤلرز اور فیلڈرز کو دوسری اننگ میں (یعنی رات کو) مشکل پیش آتی ہے جس کا بیٹنگ سائیڈ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن تاریخ یہی ہے کہ اس میدان میں دوسری اننگ میں بڑا ہدف عبور کرنا مشکل رہا ہے۔ آج تک صرف دوٹیمیں ہی 300 سے زائد کا ہدف حاصل کر سکی ہیں جن میں ایک پاکستان کی ٹیم ہے۔ اس لیے اندازہ تو یہی ہے کہ ٹاس جیتنے والی ٹیم پہلے بیٹنگ کرے گی۔
آج دیکھتے ہیں کہ بھارت کی بلے بازی جیتتی ہے یا پاکستان کی گیند بازی۔ جو جیتا وہ 2 اپریل کو ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم میں عالمی کپ 2011ء کا اعزاز جیتنے کے لیے سری لنکا کا سامنا کرے گا۔