ہدف کے تعاقب میں ناکامی، پاکستان کی رام کہانی

0 1,076

پاکستان کرکٹ ٹیم ہمیشہ ہی سے ہدف کے تعاقب میں ایک کمزور ٹیم رہی ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے جب سے پاکستان میں بلے باز وں کا قحط پڑا ہے، یہ مسئلہ بہت ہی زیادہ گمبھیر ہوگیا ہے۔ اور اگر معاملہ 250 رنز سے زیادہ کے ہدف کو حاصل کرنے کا ہو تو شاذونادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ پاکستان مقابلے میں فتح یاب ٹھہرا ہو۔

پاکستان نے آخری مرتبہ فروری 2011ء میں 250 رنز سے زیادہ کا ہدف عبور کیا تھا (تصویر: Getty Images)
پاکستان نے آخری مرتبہ فروری 2011ء میں 250 رنز سے زیادہ کا ہدف عبور کیا تھا (تصویر: Getty Images)

جنوبی افریقہ کے خلاف جاری ایک روزہ سیریز میں دو مرتبہ پاکستان ہدف کے تعاقب میں بری طرح ناکام ہوا جس میں چوتھے ایک روزہ میں وہ ایک مرتبہ پھر 250 رنز سے زیادہ کا مجموعہ حاصل نہ کرسکا۔

پاکستان نے آخری مرتبہ 250 یا اس سے زیادہ کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب فروری 2011ء میں کیا تھا یعنی کہ یہ "کارنامہ" انجام دیے ہوئے پاکستان کو تقریباً تین سال ہونے والے ہیں۔اور مذکورہ مقابلہ بھی پاکستان سنسنی خیز مقابلے کے صرف 2وکٹوں سےجیتا تھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف نیپئر میں کھیلے گئے اس مقابلے میں پاکستان 263 رنز کے تعاقب میں 173 رنز تک صرف تین وکٹوں سے محروم تھا لیکن 250 رنز تک پہنچتے پہنچتے اس کی 8 وکٹیں گرچکی تھيں۔ اس موقع پر مصباح الحق نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا اور سہیل تنویر نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس کی بدولت پاکستان آخری 14 رنز کامیابی سے بنا سکا۔

اگر وقت کی گھڑیوں کو تھوڑا اور پیچھے گھمائیں تو 250 یا اس سے زیادہ رنز کے تعاقب کے دو مظاہرے ہمیں 2010ء کی پاک-جنوبی افریقہ سیریز میں ملیں گے جو متحدہ عرب امارات ہی میں کھیلی گئی تھیں۔ اس سیریز میں ایک تو وہ تاریخی مقابلہ تھا جس میں 287 رنز کے تعاقب میں عبد الرزاق کی ناقابل یقین سنچری نے پاکستان کو ہاری ہوئی بازی جتوا دی تھی جبکہ دوسرے میں ذوالقرنین حیدر اور وہاب ریاض کی نویں وکٹ پر 28 رنز کی شراکت داری مقابلہ جتا گئی تھی۔ یہاں پاکستان 275 رنز کا تعاقب کر رہا تھا۔ یہ دونوں مقابلے پاکستان صرف ایک وکٹ کے مارجن سے جیتا تھا یعنی کہ ایک روزہ کرکٹ میں اب معمول سمجھے جانے والے اس ہدف کے تعاقب میں بھی معاملہ آخری وکٹ تک چلا گیا۔

پاکستان کو یہ ہدف باآسانی کامیابی سے حاصل کرلینے کا "شرف" آخری مرتبہ مئی 2009ء میں ملا تھا جب اس نے ابوظہبی کے اسی میدان پر آسٹریلیا کو 7 وکٹوں سے شکست دی تھی۔ ہدف 251 رنز تھا اور کامران اکمل کے 116 اور مصباح کے 76 رنز کام آ گئے تھے البتہ پاکستان سیریز 3-2 سے ہار چکا تھا اس لیے اس فتح سے صرف سیریز میں شکست کا مارجن ہی کم ہوا۔

اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستان کا یہ مسئلہ کتنا پرانا ہے کہ 2012ء اور 2013ء میں تو پاکستان کوئی ایسا مقابلہ نہیں جیت پایا جہاں اسے 250 رنز سے زیادہ کے ہدف کا سامنا ہو بلکہ 2010ء میں صرف دو، 2009ء میں ایک، 2008ء میں دو، 2007ء میں ایک جبکہ 2006ء میں صرف تین ایسے مقابلے جیت سکا۔ یعنی پاکستانی بلے بازوں کی نااہلی کی تاریخ بہت پرانی ہے صاحب!