دعا سے زیادہ ...دوا کی ضرورت!

1 1,054

بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ چوتھے ون ڈے میں کامیابی کی ’’باری‘‘ پاکستان کی ہے اور شائقین یہ اخذ کر بیٹھے تھے کہ جمعہ کے ’’مبارک‘‘ دن پروٹیز پاکستان سے فتح نہیں چھین سکتے، سیریز کو سنسنی خیز بنانے اور اسپانسرز کے نقطہ نظر سے بھی پاکستان کی کامیابی بہت ضروری تھی تاکہ سیریز کا پانچواں اور آخری میچ غیر اہم ہونے کی بجائے سیریز کا سب سے اہم ترین میچ بن جائے۔دعائیں ،مفروضے، قیاس آرائیاں اور خواہشات سب اپنی جگہ لیکن کسی بھی ٹیم کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے میدان میں پرفارم کرنا پڑتا ہے۔ دعا کی اہمیت سے انکار قطعاً ممکن نہیں ہے لیکن دعا کے ساتھ ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہے ۔جنوبی افریقہ کیخلاف چوتھا ون ڈے ہار کر جس طرح پاکستانی ٹیم نے سیریز گنوائی اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ قومی ٹیم کے بہت سے کھلاڑیوں کو ’’اعتماد‘‘ کے ٹیکے لگوانے اور ’’ذمہ داری‘‘ کے خون کی بوتلیں چڑھوانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کھیلے جانے والے میچز میں پاکستانی ٹیم قوم کو اس بری طرح مایوس نہ کرے۔

صہیب مقصود کی اننگز نے کئی نام نہاد سینئرز کو منہ چھپانے پر مجبور کردیا (تصویر: AFP)
صہیب مقصود کی اننگز نے کئی نام نہاد سینئرز کو منہ چھپانے پر مجبور کردیا (تصویر: AFP)

صہیب مقصود کی ڈیبیو اننگز پاکستان کی خراب ترین کارکردگی کا واحد مثبت پہلو تھا اور ان کی باری نے بہت سے نام نہاد سینئرز کو منہ چھپانے پر مجبور کردیا ہے جو خراب کارکردگی کے باوجود نہ اپنی جگہ چھوڑتے ہیں نہ کسی نئے کھلاڑی کو راستہ دیتے ہیں۔جنوبی افریقہ کی بیٹنگ کے آخری اوورز میں نے ایک ٹیسٹ کرکٹر کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے، جن کا کہنا تھا کہ پہلا ون ڈے کھیلنے والے صہیب مقصود کو بھی خراب کرنے کی کوشش کی جائے گی جسے پہلے تین میچز میں چانس نہیں ملا لیکن وہ ڈیبیو پر بڑی اننگز کھیل کر اپنی جگہ پکی کرلے گا۔

اس اہم ترین میچ کے ابتدائی اوورز میں ڈی کوک کا کیچ ڈراپ کرنا ناقابل معافی جرم ثابت ہوا کیونکہ پروٹیز وکٹ کیپر نے بعد ازاں سنچری اسکور کردی اور سلپ میں کیچ ڈراپ کرنے والا’’پروفیسر‘‘ بیٹنگ میں اپنے گناہ کا ’’کفارہ ‘‘ نہ ادا کرسکا بلکہ غیر ضروری طور پر سنگل لینے کی کوشش میں احمد شہزاد کو رن آؤٹ کرواکر ایک اور جرم کا مرتکب ہوگیا۔ یہ تو صہیب مقصود کی قسمت تھی کہ وہ محمد حفیظ کا نشانہ بننے سے بچ گئے ورنہ ’’پروفیسر‘‘ نے نوجوان بیٹسمین کو رن آؤٹ کروانے کی بھی پوری کوشش کی تھی۔ محمد حفیظ مسلسل پاکستان کی طرف سے کھیل رہے ہیں جنہوں نے اس میچ میں بھی 30 سے زائد رنز بناکر اپنی جگہ بچانے کی کوشش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سینئر کھلاڑی ہونے کے وجہ سے محمد حفیظ کب تک اوسط درجے کی کارکردگی کے ساتھ کھیلتے رہیں گے؟

کیا صہیب مقصود جیسا پرجوش کھلاڑی پروفیسر کا متبادل ثابت نہیں ہوسکتا جس نے آف اسپنر کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ قومی ٹیم کے لیے صہیب مقصود بھی اس حیثیت سے کھیل سکتا ہے جس کے لیے محمد حفیظ کو برداشت کیا جارہا ہے۔شاہد آفریدی 400 ون ڈے کے سنگ میل کی جانب بڑھ رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کا لااُبالی پن نہیں گیا جو جذباتی انداز میں کپتان سے پوچھے بغیر خود ہی ریویو لینے کا فیصلہ کرلیتے ہیں جو بعد میں غلط ثابت ہوتا ہے جبکہ بیٹنگ میں بھی ان کی کارکردگی صفر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی سابق کھلاڑی بوم بوم آفریدی کو آخری نمبروں پر بیٹنگ کرنے کا مشورہ دے تو ’’لالا‘‘ کے فینز کو برا لگ جاتا ہے۔

اسد شفیق کی صلاحیتیں بھی بے مثال ہیں لیکن پستہ قد مڈل آرڈر بیٹسمین ون ڈے فارمیٹ میں ملنے والے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتا ہے۔ وکٹ کیپنگ کے دستانے پہننے کے بعد عمر اکمل نے خود کو اس شعبے میں منوانے کی کوششیں شروع کردی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان بیٹسمین کی بیٹنگ متاثر ہورہی ہے۔

آخری پانچ وکٹیں 10رنز پر گنوانے کے باعث چوتھے ون ڈے میں شکست کھانے والی پاکستانی ٹیم ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز ہار گئی ہے۔ گزرے ہوئے وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ 2015ء کا ورلڈ کپ زیادہ دور نہیں ہے جس کے لیے ابھی سے مناسب منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔

نوجوان مگر باصلاحیت کھلاڑیوں کو زیادہ مواقع دینے کے ساتھ ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے ’’خلیفاؤں ‘‘ سے جان چھڑانے کا وقت اب آگیا ہے ۔ماضی میں پاکستان نے آسٹریلیا میں کھیلا گیا ورلڈ کپ معجزوں اور دعاؤں کے سہارے جیتا تھا لیکن اس میں کھلاڑیوں کی غیر معمولی کارکردگی بھی شامل تھی ۔پاکستانی شائقین ہمیشہ اپنی ٹیم کی کامیابی کے لیے دعا مانگتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کو ’’دوا‘‘ کی بھی اشد ضرورت ہے بلکہ ٹیم کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے کچھ ’’کڑوی گولیاں‘‘ بھی نگلنا ہوں گی جس کے بعد ہی ’’سویٹ‘‘ رزلٹ کی توقع کی جاسکتی ہے۔