سابق پلیئرزکا زبانی جمع خرچ یا جیب خرچ کا ذریعہ؟
رات جلدی سو کر صبح ’’تڑکے‘‘اُٹھنے والے بھی چند سکوں کی خاطر آنکھیں ملتے ہوئے رات گئے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ضمیر کا سودا کررہے ہیں جو خود متعدد مرتبہ پاکستان کرکٹ کو منجھدار میں چھوڑ کر ’’غیر قانونی‘‘ لیگوں کے ساحل پر اترتے رہے ہیں، مگر آج انہیں پاکستان کی شکستوں پر ’’دلی‘‘ دکھ اور افسوس ہورہا ہے ۔کئی مرتبہ میدان میں ’’بریک ڈاؤن‘‘ کرنے والا سابق فاسٹ باؤلر آج کھلاڑیوں کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہا ہے جو اپنے آخری دنوں میں ون ڈے میچز میں دس اوورز کا کوٹہ پورا کرنے کے بھی قابل نہیں رہا تھا، لیکن آج ماضی کا ایکسپریس فاسٹ بالر قومی ٹیم کے بخیے ادھیڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا جس نے یہ ’’امید‘‘بھی لگا لی ہے کہ اگر گرین شرٹس کی پرفارمنس ٹھیک نہ ہوئی تو آنے والے عرصے میں بنگلہ دیش کی ٹیم بھی پاکستان کو وائٹ واش کردے گی جبکہ ’’ٹیڑھے‘‘ بالنگ ایکشن کے مالک ایک سابق فاسٹ باؤلر کو افغانستان کے ہاتھوں بھی شکست کا خوف کھانے لگا ہے۔پاکستانی ٹیم کی حالیہ پرفارمنس بالکل بھی اچھی نہیں ہے جسے مسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ان شکستوں پر اس طرح ’’صف ماتم‘‘ بچھائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے پاکستانی ٹیم عالمی کپ کے پہلے مرحلے پر باہر ہوگئی ہے اور یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ سب کچھ تبدیل کردیا جائے۔
ٹی وی اسکرین کے یہ نئے ’’ماہرین‘‘ ورلڈ کپ میں ایسی ٹیموں کا حصہ رہے ہیں جو پہلا مرحلہ بھی عبور نہ کرسکی تھیں لیکن اس شرمناک کارکردگی پر ان کھلاڑیوں نے بورڈ کے سربراہ کے کان میں یہ نہیں کہا تھا کہ کپتان، کھلاڑی، کوچ، سلیکٹرز سب کچھ تبدیل کردیا جائے بلکہ اُس وقت یہ کھلاڑی اپنی جگہ بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع ہوگئے تھے۔
سب کچھ تبدیل کردینے کا مطالبہ اور خواہش بہت خوش کن نظر آتی ہے، اس میں کشش بھی بہت ہے، اور کیوں نہ ہو؟ انقلاب کی صدا آخر کس کے کانوں کو بری لگے گی؟ لیکن بقول ایک سیانے کے "میں نے انقلاب کے بعد کبھی انقلابیوں کو بکھرا ہوا شیرازہ سمیٹتے نہیں دیکھا"۔ بالکل اس طرح تبدیلی کے لیے اس کا لائحہ عمل طے کرنا بہت ضروری ہے ۔ لیکن ایک سابق فاسٹ باؤلر چاہتے ہیں کہ موجودہ ٹیم کے تین چار کھلاڑیوں کے علاوہ سب کو فارغ کردیاجائے جبکہ 90ٹیسٹ کھیلنے والے بیٹسمین کی خواہش ہے کہ پاکستانی ٹیم کا پورا سیٹ اَپ تبدیل کردیا جائے جو چاہتے ہیں کہ نئی ٹیم بنائی جائے اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس ٹیم کو ایک سال کا وقت دیا جائے جبکہ ٹیم پر تنقید بھی نہ کی جائے۔
اگر سابق ٹیسٹ کرکٹر کی یہ ’’عجیب و غریب‘‘ خواہش مان بھی لی جائے تو یہی کھلاڑی کچھ ہی عرصے کے بعد نئی ٹیم کے بھی لتے لینے سے باز نہیں آئیں گے۔پورا سسٹم تبدیل کرنے کے خواہشمند سابق کپتان کے پاس اتنے نوجوانوں کے نام موجود نہیں ہیں جو نئی ٹیم کی نمائندگی کرسکیں لیکن وہ سعید اجمل کو کپتان بنانے کی حمایت کررہے ہیں جو ورلڈ کپ تک کھیل سکتا ہے اور آف اسپنر کا انداز بھی ماضی میں ’’ڈھیلے ڈھالے‘‘ انداز میں پاکستان کی کپتانی کرنے والے سابق کپتان جیسا ہے۔ جس شخص نے نہ جونیئر سطح پر پاکستان کی قیادت کی ہے اور نہ ہی 'اے' ٹیم کی کپتانی ملی ہو لیکن پاکستان کے یہ سابق کپتان سعید اجمل کو کپتان بنوانا چاہتے ہیں لیکن انہیں مصباح الحق کی قائدانہ صلاحیتیں دکھائی نہیں دے رہیں، جس نے اے ٹیم اور ڈومیسٹک سطح پر طویل عرصے تک کپتانی کرکے اپنی صلاحیتوں ثابت کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ کو مفت مشورے دینے والے جذباتی انداز میں بغیر پیسے کے کام کرنے کے لیے بھی تیار ہوں گے لیکن اس کے ساتھ انہوں نے پہلے سسٹم ٹھیک کرنے کی شرط بھی عائد کردی ہے یعنی نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی!!
کیا آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر تبصرے کرنے والے یہ سابق کھلاڑی موسم کی پرواہ کیے بغیر نوجوان کھلاڑیوں کی کوچنگ کرسکتے ہیں اور وہ بھی بلا معاوضہ؟ ٹی وی پر بیٹھ کر باتیں کرنا بہت آسان ہے لیکن حقیقت میں ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ پیسوں کی خاطر ملک کو ٹھکرا کر خود کو غیر ملکی اور غیر قانونی لیگز میں ’’کیش‘‘ کروانے والوں سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ بلامعاوضہ نوجوان کھلاڑیوں کو اپنا تجربہ منتقل کرسکیں ۔جو سابق کھلاڑی ’’بے کاری‘‘ کے دنوں میں صرف پیسہ کمانے کی خاطر اپنی نیند کی قربانی دے کر ٹی وی چینل پر آکر پاکستان کرکٹ میں کیڑے نکالیں تو ان سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی جنہیں پاکستان کرکٹ سے ہمدردی نہیں ہے بلکہ وہ ٹی وی اسکرین پر زبانی جمع خرچ کرکے اپنا ’’جیب خرچ‘‘ بنا رہے ہیں!!