اعصاب شکن معرکہ، پاکستان کی تاریخی سیریز جیت
جنوبی افریقہ نے ایک مرتبہ پھر جیتی ہوئی بازی ہار کر پاکستان کو وہ تاریخی لمحہ عطا کردیا جس کے لیے وہ ہمیشہ ترستا رہا ہے، جی ہاں! ایک انتہائی سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان نے جنوبی افریقہ کو 1 رن سے شکست دے کر بالآخر پہلی بار باہمی ایک روزہ سیریز جیت لی۔ آخری دو اوورز میں سعید اجمل اور جنید خان کی بہترین گیندبازی اور اس سے پہلے احمد شہزاد اور دیگر بلے بازوں کی شاندار بیٹنگ نے پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سینٹ جارجز پارک، پورٹ ایلزبتھ میں میزبان جنوبی افریقہ اس وقت تک مکمل بالادست پوزیشن پر تھا جب تک کپتان ابراہم ڈی ولیئرز کریز پر موجود تھے۔ درحقیقت انہوں نے تو پاکستان کے باؤلرز کو دن میں تارے دکھا دیے تھے، صرف 45 گیندوں پر 74 رنز مقابلے کو پاکستان کے قبضے سے نکال کر جنوبی افریقہ کی سخت گرفت میں لے آئے۔ آدھے سے زیادہ دن خاموشی کے ساتھ گزارنے والے جنوبی افریقی تماشائی خوشی کے شادیانے بجاتے اور گاتے نظر آ رہے تھے کیونکہ جنوبی افریقہ کو آخری 7 اوورز میں صرف 44 رنز کی ضرورت تھی اور ڈی ولیئرز اور ہاشم آملہ پاکستانی باؤلرز کو تگنی کا ناچ نچا رہے تھے۔
پھر مقابلے کا وہ لمحہ آیا، جہاں سے غالباً وہ پاکستان کے حق میں جھکنا شروع ہوا۔ اننگز کے 39 ویں اوور کا آغاز ڈی ولیئرز کے بلے سے نکلنے والے دو شاندار چوکوں کے ساتھ ہوا۔ اے بی کا اعتماد آسمان کو چھو رہا تھا اور شاید یہی حد درجہ خود اعتمادی ان کی وکٹ گرنے کا سبب بنی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اب وہ جس گیند کو جہاں چاہیں گے موڑ کر اپنی مرضی کے رنز سمیٹیں گے لیکن چوک ہوگئی اور اوور کی چوتھی گیند ڈیپ اسکوائر لیگ پر کھڑے شاہد آفریدی کے ہاتھوں میں براہ راست پہنچ گئی۔ پروٹیز کپتان کو اپنی وکٹ گرنے پر مایوسی ضرور ہوئی لیکن اسکور بورڈ پر درکار رنز دیکھ کر انہیں ڈھارس بندھی ہوگی کہ 38 گیندوں پر صرف 36 رنز تو درکار ہیں، یہاں سے مقابلہ نہیں ہاریں گے۔
پاکستان نے ڈی ولیئرز کے بعد اگلے 4 اووز میں 24 رنز ضرور دیے، مقابلہ آخری دو اوورز کے مرحلے میں داخل ہوا جہاں صرف ایک اچھا اوور میچ کا نقشہ پلٹ سکتا تھا اور وہ اوور پاکستان کو مل گیا۔ جنوبی افریقہ کو 12 گیندوں پر 11 رنز کی ضرورت تھی اور سعید اجمل نہ صرف اس اوور میں محض 2 رنز دیے بلکہ ہاشم آملہ کی قیمتی ترین وکٹ بھی حاصل کی جو گیندیں ضایع کرنے کے بعد اگلی گیند کو چھکے کی راہ دکھا کر سنچری مکمل کرنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہ کرسکے۔ اس کے ساتھ ہی 131 گیندوں پر 98 رنز کی اننگز کا خاتمہ ہوا۔ محمد حفیظ نے ان کا بہت عمدہ کیچ لیا اور معاملہ آخری اوور میں درکار 9 رنز تک پہنچ گیا۔
آخری اوور میں جنید خان نے زخمی ہونے کے باوجود کمال مہارت سے گیندبازی کی اور انور علی کے خوبصورت کیچ کی بدولت نہ صرف جے پی دومنی کی قیمتی وکٹ سمیٹی بلکہ پے در پے خوبصورت یارکرز کے ذریعے مقابلے کی آخری گیند تک پہنچا دیا جہاں جنوبی افریقہ کو 6 رنز درکار تھے۔ ڈیوڈ ملر لیگ بائے کے چار رنز ہی لے پائے اور یوں پاکستان نے حریف کے جبڑوں سے فتح کو چھین لیا!
جنید خان نے 9 اوورز میں 42 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں شاہد آفریدی کو بھی ملیں جنہوں نے اپنے مقررہ 9 اوورز میں صرف 38 رنز دیے۔ سعیداجمل گو کہ درمیان میں بہت مہنگے ثابت ہوئے لیکن اہم ترین اوور میں انہوں نے ہی پاکستان کی مقابلے میں واپسی کو ممکن بنایا اور ہاشم آملہ کی قیمتی وکٹ حاصل کی۔ گزشتہ مقابلے کے ہیرو انور علی اور بلاول بھٹی آج بجھے بجھے دکھائی دیے جنہوں نے بالترتیب 7اور 4 اوورز میں 39، 39 رنز دیے۔
قبل ازیں، جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ بارش کی وجہ سے دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تھا جس کی وجہ سے میچ کو 45 اوورز فی اننگز تک محدود کردیا گیا تھا اور بیٹنگ کے لیے وکٹ سازگار دکھائی دینے کے باوجود مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے جنوبی افریقہ نے باؤلنگ کا انتخاب کیا اور ابتداء ہی میں ڈیل اسٹین کی طوفانی باؤلنگ کے سامنے ناصر جمشید اور محمد حفیظ کے آؤٹ ہوجانے کے باعث یہ فیصلہ درست بھی دکھائی دیا۔
البتہ صرف 22 رنز پر دو وکٹیں گنوا بیٹھنے کے بعد احمد شہزاد اور صہیب مقصود نے جس طرح پاکستان کو مقابلے میں واپس لانے کی جدوجہد کی، وہ ان دونوں کے مضبوط اعصاب کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھی۔ طویل عرصے بعد پاکستان کے نوجوان بلے بازوں کو ایک بڑے حریف کے خلاف نامانوس ماحول میں یوں کھیلتا دیکھ کر بلاشبہ کئی پاکستانی شائقین کو مسرت حاصل ہوئی ہوگی۔ بالخصوص احمد شہزاد نے جس طرح حریف گیندبازوں پر حاوی ہوکر پاکستانی اننگز کو آگے بڑھایا وہ بہت نیک شگون ہے۔ وہ 112 گیندوں پر 102 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے اور اگر عمر اکمل کی غلطی ان کی واپسی کا پروانہ نہ بنتی تو شاید وہ آخر تک کھیلتے۔ بہرحال انہوں نے اپنے کیریئر کی تیسری سنچری ایک انتہائی مضبوط حریف کے خلاف خود اسی کے میدان میں بنائی اور ایسے حالات میں بھی جب پاکستان کو ایک بڑی اننگز کی اشد ضرورت تھی۔
احمد شہزاد نے نوجوان صہیب مقصود کے ساتھ تیسری وکٹ پر 124 رنز کی فتح گر شراکت داری بھی بنائی اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں ابتدائی وکٹیں گرنے کے بعد خول میں بند نہیں ہوئے، جیسا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بلے باز کرتے آ رہے ہیں بلکہ کھل کر کھیلا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ شراکت داری صرف 128 گیندوں پر بنائی اور یہیں سے پاکستان مقابلے میں برابری کی سطح پر آیا۔ صہیب 59 گیندوں پر 42 رنز بنانے کے بعد ایک غیر ضروری شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے اور جب کچھ دیر بعد مصباح الحق کی وکٹ گری تو پاکستان کی اننگز کو پے در پے تین نقصان سہنے پڑے۔ مصباح کے کچھ ہی دیر بعد احمد شہزاد اور پھر شاہد آفریدی اپنی وکٹیں دے گئے۔
ساتویں وکٹ پر بلاول بھٹی اور عمر اکمل نے 27 رنز جوڑے جس میں بلاول کا حصہ 21 رنز کا تھا۔ ان کی مختصر اننگز کی خاص بات ڈیل اسٹین کو ایک ہی اوور میں لگائے گئے تین چوکے تھے گو کہ وہ اسی اوور کی آخری گیند پر آؤٹ بھی ہوئے لیکن 14 گیندوں پر 21 رنز بنا کر اپنے حصے کا کام مکمل کرگئے۔ عمر اکمل کی 30 گیندوں پر 42 رنز کی اننگز بھی آخری اوور میں مکمل ہوئی جبکہ اس سے قبل انور علی کا متنازع انداز میں دیا گیا "آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ" آؤٹ اسٹین کی اسپورٹس مین اسپرٹ کا منہ چڑاتا رہے گا۔ مقررہ 45 اوورز کے اختتام پر پاکستان نے تمام وکٹوں کے نقصان پر 262 رنز بنائے۔
اسٹین نے اپنے کیریئر کی بہترین باؤلنگ کی۔ 9 اوور زمیں صرف 36 رنز 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ ایک، ایک وکٹ عمران طاہر اور راین میک لارن کو بھی ملی۔
دونوں ممالک کے درمیان تیسرا و آخری ایک روزہ ہفتے کے سنچورین میں کھیلا جائے گا۔