باؤلرز اور مصباح کی سرتوڑ کوشش بھی پاکستان کو آخری مقابلہ نہ جتوا سکی

1 1,345

مصباح آخری جنگجو کے طور پرلڑتے رہے لیکن دوسرے اینڈ سے کوئی ایک کھلاڑی بھی ان کا ساتھ نہ دے پایا اور پاکستان ایک مرتبہ پھر بلے بازی نہ چلنے کی وجہ سے مقابلہ ہار گیا اور یوں تاریخی کلین سویپ سے بھی محروم ہوگیا۔

فلینڈر کی عمدہ باؤلنگ نے ابتداء ہی میں پاکستان کے جیتنے کے امکانات ختم کردیے (تصویر: AFP)
فلینڈر کی عمدہ باؤلنگ نے ابتداء ہی میں پاکستان کے جیتنے کے امکانات ختم کردیے (تصویر: AFP)

سنچورین کے سپر اسپورٹ پارک میں ہونے والے سیریز کے تیسرے و آخری ایک روزہ مقابلے میں جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی۔ پاکستان آج اپنے مرکزی کھلاڑیوں شاہد آفریدی اور محمد حفیظ کے علاوہ جنید خان اور ناصر جمشید کے بغیر میدان میں اترا اور ان کی جگہ عمر امین، عبد الرحمٰن، اسد شفیق اور سہیل تنویر کو کھیلنے کا موقع دیا گیا اور بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی آج اپنی کارکردگی سے متاثر نہ کرسکا۔

پاکستان نے آج کھیلنے کے لیے جس ٹیم کا انتخاب کیا، وہ سمجھ سے بالاتر تو تھا ہی لیکن ساتھ ہی اس حکمت عملی کو بھی ظاہر کر رہا تھا کہ پاکستان کا کلین سویپ کرنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ زمبابوے کے خلاف کلین سویپ کا موقع میسر آنے پر بھی مکمل قوت کے ساتھ کھیلنے والا پاکستان آج نجانے کن خیالوں میں تھا کہ ایک ہی مقابلے میں تمام کھلاڑیوں کو آزمانے کی ٹھان لی اورنتیجہ بعد ازاں شکست کی صورت میں نکلا۔

بہرحال، جب احمد شہزاد اور عمر امین اننگز کے آغاز کے لیے میدان میں اترے تو پہلے ہی اوور میں اندازہ ہوگیا کہ ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل کے بغیر بھی جنوبی افریقہ پاکستانی بلےبازوں کو ناکوں چنے چبوا دے گا کیونکہ پہلے ہی اوور میں ویرنن فلینڈر کی گیند پر احمد شہزاد سلپ میں کھڑے ہاشم آملہ کو دن کا پہلا کیچ دے گئے۔ گزشتہ مقابلے میں سنچری داغ کر پاکستان کو ناقابل یقین سیریز فتح دلانے والے احمد کو آج حد سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی۔ ان کی جگہ اسد شفیق نے سنبھالی، جن کو ایک مرتبہ پھر ثابت کرنا تھا کہ ان کو منتخب نہ کرکے ٹیم کے ساتھ کتنی زیادتی کی جارہی ہے۔ لیکن انہوں نے ٹیم انتظامیہ کی سوچ کو اس مقام پر پہنچنے ہی نہ دیا اور اننگز کے چوتھے اوور کی پہلی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کوئنٹن ڈی کوک کو کیچ تھما کر چلتے بنے۔ یوں ایک روزہ مقابلوں میں اسد شفیق کی ناکامی کا سلسلہ دراز تر ہوگیا۔ گزشتہ 13 ایک روزہ میں انہوں نے 15.54 کے معمولی اوسط کے ساتھ صرف 202 رنز بنائے ہیں جن میں واحد قابل ذکر اننگز آئرلینڈ کے خلاف 84 رنز کی رہی۔

صرف 7 رنز پر دو وکٹوں سے محروم پاکستان کو نوجوان عمر امین اور صہیب مقصود نے مقابلے میں واپس لانے کی کوشش کی۔ کچھ خوش قسمتی اور کچھ عمدہ اسٹروکس کی بدولت پاکستان کا اسکور 48 رنز تک پہنچ گیا لیکن یہاں راین میک لارن کی آمد ہوئی اور انہوں نے اپنے پہلے ہی اوور میں وکٹ میں موجود اچھال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمر امین کو واپسی کی راہ دکھا دی۔ 35 گیندوں پر 25 رنز بنانے کے بعد عمر امین واپس لوٹے تو کپتان مصباح الحق نے ایک مرتبہ پھر نازک ترین صورتحال میں ذمہ داری سنبھالی۔ لیکن دوسرے اینڈ سے وکٹیں روکنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ صہیب مقصود کریز پر جم جانے اور کچھ بہت ہی خوبصورت شاٹس لگانے کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنی وکٹ دے کر چلتے بنے۔ میک لارن نے اپنی ہی گیند پر ان کا ایک شاندار کیچ لیا۔

یوں محض 17 ویں اوور میں یہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی کہ پاکستان مستند بلے بازوں کی آخری جوڑی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ مصباح اور عمر اکمل سے بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن ان کے حریف ہم منصب کوئنٹن ڈی کوک کے ایک ناقابل یقین کیچ نے 'باصلاحیت' کھلاڑی کی اننگز کو 5 رنز سے آگے نہ بڑھنے دیا۔

پہلے میچ کے ہیرو بلاول بھٹی اور انور علی آج ناکام ثابت ہوئے اور صرف1، 1 رن بنانے کے بعد چلتے بنے۔ یہ آٹھویں وکٹ پر مصباح اور عبد الرحمٰن کی 51 رنز کی شراکت داری تھی جس نے پاکستان کی اننگز کو قابل عزت مجموعے تک پہنچایا۔ عبد الرحمٰن 22 رنز بنانے کے بعد بجائے مصباح کو کھیلنے کا موقع دینے کے خود اسکور کو تیز کرنے کی کوشش میں ہاشم آملہ کو دن کا تیسرا کیچ دے گئے۔ سہیل تنویر اور سعید اجمل کی اننگز بھی دہرے ہندسے میں داخل نہ ہو سکیں اور پاکستان کی پوری ٹیم 47 ویں اوور میں 179 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

مصباح الحق 79 رنز پر ناقابل شکست رہے۔ انہوں نے 107 گیندوں کا سامنا کیا اور 4 چوکوں کے علاوہ 2 خوبصورت چھکے بھی لگائے جو انہوں نے عمران طاہ رکو ایک ہی اوور میں رسید کیے تھے۔ یوں مصباح ایک مرتبہ پھر سنچری سے محروم رہ گئے۔ البتہ انہوں نے اس اننگز کے دوران متعدد سنگ میل عبور کیے۔ جیساکہ سال میں سب سے زیادہ نصف سنچریاں بنانے کا عالمی ریکارڈ برابر کیا اور قومی ریکارڈ اپنے نام کیا جبکہ رواں سال سب سے زیادہ رنز اور سب سے زیادہ چھکوں کے ریکارڈ کی جانب بھی پیش قدمی کی۔

جنوبی افریقہ نے، جو آج اپنے دونوں اسٹرائیک باؤلرز سے محروم تھا، بہت ہی عمدہ باؤلنگ کی ۔ بالخصوص فلینڈر نے، جنہوں نے اپنے 10 اوورز میں صرف 26 رنز دیے اور 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ سوٹسوبے اور میک لارن نے دو، دو اور وین پارنیل نے ایک وکٹ حاصل کی۔ دو وکٹیں عمران طاہر کو بھی ملیں لیکن ان کے 10 اوورز میں پاکستانی بلے باز 56 رنز لوٹنے میں ضرور کامیاب رہے۔

صرف 180 رنز کے مجموعے کا دفاع کرنا میدان میں موجود باؤلنگ لائن اپ کے ساتھ پاکستان کے لیے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا ۔ گو کہ پاکستانی باؤلرز نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور 84 رنز تک جنوبی افریقہ کی 4 وکٹیں بھی حاصل کرلی لیکن ہاشم آملہ کی 41 اور ابراہم ڈی ولیئرز کی 48 رنز کی ناقابل شکست باری اور ڈیوڈ ملر کی 24 رنز کی بھرپور حصہ داری نے جنوبی افریقہ کو 39 ویں اوور ہی میں ہدف تک پہنچا دیا۔

ڈی ولیئرز 63 گیندوں پر 3 چوکوں کی مدد سے 48 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے جبکہ وین پارنیل نے سہیل تنویر کو چوکا رسید کرکے مقابلے کا خاتمہ کیا۔

پاکستان کی جانب سے سعید اجمل نے 10 اوورز میں صرف 34 رنز دے کر 2 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ سعید اجمل کے ایک روزہ کیریئر کا 100 واں مقابلہ تھا۔ انہوں نے اس وکٹ پر جتنی عمدہ باؤلنگ کی، اس سے ظاہر ہوا کہ پاکستان نے وکٹ کو سمجھنے میں غلطی کی اور اس وکٹ پر شاہد آفریدی اور محمد حفیظ جیسے اسپنرز کی موجودگی جنوبی افریقہ کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی تھی۔ بہرحال ایک، ایک وکٹ سہیل تنویر، بلاول بھٹی اور عبد الرحمٰن نے بھی حاصل کی۔

ویرنن فلینڈر کو شاندار باؤلنگ پرمیچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ سعید اجمل کو مین آف دی سیریز کا ایوارڈ دیا گیا۔

اب جنوبی افریقہ عالمی نمبر ایک بھارت کا مقابلہ کرے گا جبکہ پاکستان متحدہ عرب امارات میں سری لنکا کے خلاف ایک مکمل سیریز کھیلے گا۔ بھارت-جنوبی افریقہ سیریز کا آغاز 5 دسمبر کو جوہانسبرگ میں پہلے ٹی ٹوئنٹی سے ہوگا جبکہ پاکستان اور سری لنکا 11 دسمبر کو دبئی میں پہلے ٹی ٹوئنٹی سے ایک طویل سیریز شروع کریں گے۔