ہاتھی نکل گیا، دم پھنس گئی؛ جوہانسبرگ میں تاریخی ٹیسٹ ڈرا ہوگیا
تقریباً 4 دن تک بھارت کی شاندار باؤلنگ اور بے رحمانہ بیٹنگ کی زد میں رہنے کے بعد جنوبی افریقہ کچھ اس دھج سے مقابلے میں واپس آیا کہ دنیا بھر کی نظریں ہر میدان سے ہٹ کر محض جوہانسبرگ پر جم گئیں اور مقابلہ اعصاب شکن مراحل طے کرنے کے بعد آخر میں کسی نتیجے تک نہ پہنچ پایا۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کے لیے آخری روز جتنے نشیب و فراز اس مقابلے نے دیکھے، وہ اس مقابلے کو تاریخ کے عظیم ترین ٹیسٹ میچز میں سے ایک شمار کرنے کے لیے کافی ہے۔
ساڑھے تین دن تک بھارتی بالادستی کے بعد جب جنوبی افریقہ نے 458 رنز کے ریکارڈ ہدف کا تعاقب شروع کیا تو چوتھے دن کے اختتام تک صرف 138 پر اس کے دو کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے جبکہ اس کے بعد وہ پانچویں دن بھی 200 رنز سے قبل مزید دو وکٹیں گنوا بیٹھا۔ لیکن اس مقام پر گزشتہ سال آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ ٹیسٹ بچانے والے دونوں نجات دہندہ نے ایک مرتبہ پھر کارنامہ انجام دے ڈالا۔ فف دو پلیسی اور ابراہم ڈی ولیئرز۔ اس مرتبہ نہ صرف انہوں نے میچ بچایا بلکہ جنوبی افریقہ کو فتح کے انتہائی قریب بھی لے آئی۔ جب ڈی ولیئرز کی 103 رنز کی اننگز اپنے اختتام کو پہنچی تو جنوبی افریقہ فتح سے صرف 56 رنز کے فاصلے پر تھا۔ اس مقام پر ژاں-پال دومنی کے آؤٹ ہوجانے کے باوجود فف نے پیشقدمی جاری رکھی اور بالکل اختتامی لمحات میں ان کا رن آؤٹ بازی پلٹ گیا۔ جنوبی افریقہ کو دن میں بچنے والی 20 گیندوں پر 16 رنز کی ضرورت تھی کہ 134 رنز پر کھڑے فف نے مڈ آف کی جانب کھیل کر تیز رن لینے کی غیر ضروری کوشش کی اور نتیجہ محمد شامی کی براہ راست تھرو کی صورت میں فف کی اننگز کے خاتمے کی صورت میں نکلا اور جنوبی افریقہ کو یقینی فتح سے محروم کرگیا۔
آخری سیشن میں دانتوں میں ناخن دبائے تماشائیوں کے لیے یہ 'اینٹی کلائمیکس' ضرور تھا، لیکن سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں اس مقام پر خطرہ مول لینا جنوبی افریقہ کے لیے واقعی بہت مشکل تھا۔ کیونکہ آنے والے بلے بازوں میں سے ایک عمران طاہر تھے اور دوسرے زخمی مورنے مورکل، جن کے ٹخنے کی 'بھیانک' تصاویر گزشتہ روز دنیا نے دیکھی ہیں۔ اس لیے ویرنن فلینڈر اور ڈیل اسٹین کا آخر میں مقابلے کو ڈرا کرنے کا فیصلہ کسی حد تک درست ہی دکھائی دیتا ہے۔ البتہ صرف 8 رنز کی دوری، صرف 8 رنز!! یہ بات شائقین کا ذہن قبول نہیں کررہا۔
جوہانسبرگ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے سنسنی خیز ترین ڈرا مقابلوں میں بھی شامل ہوا ہے، ایسے مقابلے جہاں چند رنز کا معاملہ مقابلے کو نتیجہ خيز نہ بناسکا۔ 1996ء کا تاریخی انگلستان-زمبابوے بلاوایو ٹیسٹ اس میں پہلے نمبر پر ہے جہاں صرف ایک رن کا معاملہ رہ گیا تھا اور مقابلہ ڈرا قرار پایا جبکہ 2011ء میں بھارت-ویسٹ انڈیز ممبئی ٹیسٹ بھی اسی مارجن سے نتیجہ خیز ہونے سے رہ گیا۔
اگر جوہانسبرگ ٹیسٹ کا دوسرا پہلو دیکھا جائے تو ایک روزہ سیریز میں بدترین ناکامی کے بعد بھارت کی جانب سے پہلے ٹیسٹ میں ایسی شاندار کارکردگی کی توقع کم ہی شائقین کو تھی لیکن اس نے پہلی اننگز میں صرف 280 رنز بنانے کے بعد ظہیر خان اور ایشانت شرما کی شاندار باؤلنگ کی بدولت نہ صرف جنوبی افریقہ کو 244 رنز پر آؤٹ کیا بلکہ دوسری باری میں چیتشور پجارا کے 153 اور پہلی اننگز کے سنچورین ویراٹ کوہلی کے 96 رنز کی بدولت 421 رنز کا ہمالیہ بھی کھڑا کردیا، جس کی وجہ سے پروٹیز کو ریکارڈ 458 رنز کا ہدف ملا۔
ویراٹ کوہلی بدقسمتی سے دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل نہ کرسکے اور دوسری اننگز میں اس وقت آؤٹ ہوگئے جب وہ سنچری سے محض 4 رنز کے فاصلے پر تھے البتہ دوسرے اینڈ پر کھڑے 'چی' نےکمال کر دکھایا۔ انہوں نے بھارت کے بلے بازوں پر گھریلو میدانوں پر ہی کارکردگی دکھانے کے داغ کے ساتھ ساتھ حریف باؤلرز کو بھی دھویا اور 270 گیندوں پر 21 چوکوں سے مزین 153 رنز کی یادگار باری کھیلی۔
دوسری جانب کوہلی نے پہلی باری میں اس وقت 119 رنز بنائے جب بھارت کو سخت ضرورت تھی اور دوسری باری میں بھی تیسری وکٹ پر پجارا کے ساتھ 222 رنز کی شراکت داری قائم کی۔ جو بھارت کو مقابلے میں اتنی برتری دے گئی کہ جنوبی افریقہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی اس کا خاتمہ نہ کرسکا۔
ویراٹ کوہلی کو شاندار بلے بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
سیریز کا دوسرا و آخری ٹیسٹ 26 دسمبر سے ڈربن میں کھیلا جائے گا۔