قلعے کا محافظ کون؟
2010ء کے دورۂ انگلستان میں وکٹوں کے عقب میں ناقص کارکردگی کے بعد کامران اکمل کے کیرئیر پر سوالیہ نشان لگ گیا اور اگلے برس عالمی کپ کھیلنے کے بعد وہ ٹیسٹ کے ساتھ ساتھ ون ڈے ٹیم سے بھی باہر ہوگئے۔کامران اکمل کے جانے کے بعد متعدد وکٹ کیپر آزمائے گئے مگر محدود اوورز کے فارمیٹ میں کوئی بھی تجربہ کار وکٹ کیپر کا متبادل ثابت نہ ہوسکا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو ون ڈے اور ٹی 20 طرز کی کرکٹ میں کسی اسپیشلسٹ وکٹ کیپر کی بجائے عمر اکمل کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا پڑ رہا ہے۔
کامران اکمل کو بدنام زمانہ لارڈز ٹیسٹ 2010ء کے بعد ڈراپ کردیا گیا تو اگلی ہی سیریز میں ذوالقرنین حیدر کے ’’فرار‘‘ کا واقعہ پیش آ گیا اور یوں عدنان اکمل کو پاکستان سے طلب کرکے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کروایا گیا۔ پستہ قد کے وکٹ کیپر نے پہلی ہی سیریز میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا جبکہ نیوزی لینڈ کے اگلے دورے پر عدنان نے ویلنگٹن میں 8 کیچز بھی پکڑے۔
عدنان اکمل نے جہاں عمدہ وکٹ کیپنگ کے جوہر دکھائے وہیں نمبر سات کھیلتے ہوئے کئی مرتبہ پاکستان کو نزاعی صورتحال سے بھی نکالا ۔ زمبابوے کے دوررے پر 64رنز کی کیرئیر بیسٹ اننگز کھیلنے والے عدنان اکمل نے صحیح معنوں میں ٹیسٹ فارمیٹ میں وکٹ کیپنگ کا مسئلہ حل کیا کہ ون ڈے اور ٹی20 طرز کی کرکٹ میں وکٹ کیپنگ کے حوالے سے افراتفری کا شکار پاکستانی ٹیم ٹیسٹ میں سکون کا سانس لے سکتی ہے۔
مگر جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وکٹوں کے پیچھے کچھ غلطیاں کرنے والے عدنان کے سر پر تلوار لٹکا دی گئی کہ سری لنکا کے خلاف سیریز میں ان کی جگہ کسی اور وکٹ کیپر کو آزمایا جائے۔ اب یہ ’’دوسرا وکٹ کیپر‘‘ کون ہوسکتا ہے سوائے سرفراز احمد کے۔ 4 ٹیسٹ، 26 ون ڈے اور 4 ٹی ٹوئنٹی مقابلے کھیلنے والے سرفراز احمد نے پریزیڈنٹ ٹرافی میں 165 رنز کی اننگز کھیل کر بلاشبہ خود کو ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت کا مضبوط امیدوار ثابت کردیا ہے۔
دیگر وکٹ کیپرز کے مقابلے میں عدنان اکمل وکٹوں کے پیچھے بہت کم غلطیاں کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب عدنان کوئی غلطی کردے تو اس کا چرچا بھی بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔جنوبی افریقہ کے خلاف ابو ظہبی ٹیسٹ میں عدنان نے سعید اجمل کی بالنگ پر دو اہم کیچز چھوڑے حالانکہ اس سے قبل اسپنرز کی باؤلنگ کے دوران عدنان اکمل کی مہارت کو بے عیب تسلیم کیا جاتا تھا مگر جنوبی افریقہ کے خلاف سعید اجمل کی بالنگ پر عدنان کو کچھ مشکلات کا شکار دیکھا گیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ایک وکٹ کیپر جو پچھلے تین برسوں سے مسلسل پرفارم کررہا ہے اسے ایک میچ کی خراب کارکردگی پر باہر کردیا جائے۔
سرفراز احمد کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں اوسط 40سے زائد ہے جو ایک ڈبل سنچری سمیت اس فارمیٹ میں 7 سنچریاں اسکور کرچکا ہے جبکہ ڈومیسٹک ون ڈے مقابلوں میں بھی سرفراز کا ریکارڈ متاثر کن ہے مگر ابھی تک ’’سیفی‘‘ خود کو انٹرنیشنل کرکٹ میں منوانے میں ناکام رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر وکٹوں کے پیچھے واجبی سی کارکردگی کے ساتھ ساتھ بیٹنگ کی وہ صلاحیت بھی کہیں غائب ہوجاتی ہے جس کا مظاہرہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کرتا ہے۔ جونیئر کرکٹ میں پاکستان کی کپتانی کرنے والا سرفراز احمد مجموعی طور پر ایک اچھا وکٹ کیپر ہے لیکن فی الوقت سرفراز کو عدنان اکمل پر ترجیح دینا مناسب نہ ہوگا۔
میری اطلاعات کے مطابق عدنان اکمل ہی سری لنکا کے خلاف سیریز میں پاکستانی قلعے کا محافظ ہوگا لیکن جو لوگ سرفراز احمد کو ٹیم میں شامل کروانے کی کوشش کررہے ہیں اگر وہ حقیقتاً ’’سیفی‘‘ کے ہمدرد ہیں تو پھر انہیں اپنے من پسند وکٹ کیپر کو قومی ٹیم میں شامل کروانے کے لیے اچھے وقت کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ اس سے قبل دورہ زمبابوے میں سرفراز کو عجلت میں ٹیم کا حصہ بنوا کر وکٹ کیپر کے لیے مشکلات کھڑی کرچکے ہیں جو اس دورے پر ناکام ہوگیا تھا اور پاکستانی ٹیم کومحدود اوورز کی کرکٹ میں دوبارہ عمر اکمل پر ہی تکیہ کرنا پڑا۔
’’سیفی‘‘ کو مجھ سے بھی یہ شکایت رہتی ہے کہ میں اس کی حمایت نہیں کرتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرفراز اس وقت پاکستان میں موجود چند اچھے وکٹ کیپرز میں سے ایک ہے مگر بدقسمتی ہے وہ ملنے والے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکا لیکن اس کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں ہے۔ اسے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہوئے خود کو ذہنی طور پر مضبوط کرنا چاہیے کہ دوبارہ موقع ملنے پر اسے ٹیم سے باہر نہ ہونا پڑے جبکہ سلیکشن کمیٹی کو چاہیے کہ وہ عدنان اکمل پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالیں بلکہ عدنان کو سری لنکا کے خلاف پورا چانس دیں جو اس سیریز میں اگر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا تو پھر ان کے پاس سرفراز کو کھلانے کا ٹھوس جواز پیدا ہوجائے گا۔