[سالنامہ 2013ء] میدان سے باہر پاکستان کے لیے بحران کا سال

1 1,405

میدانوں میں ملی جلی کارکردگی سے ذرا نظریں ہٹائیں تو 2013ء پاکستان کرکٹ میں بحران کا سال رہا۔ سال رواں میں پاکستان میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ہوا۔ مئی میں پاکستان مسلم لیگ 'ن' کی حکومت آتے ہی منتخب چیئرمین ذکا اشرف کے لیے معاملات گمبھیر ہوتے چلے گئے بلکہ اسی مہینے انہیں کام کرنے سے روک دیا گیا اور چند دنوں بعد معروف صحافی اور انتخابات کے موقع پر پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ  کی ذمہ داریاں نبھانے والے نجم سیٹھی کو پی سی بی کا قائم مقام سربراہ مقرر کردیا گیا۔

نجم سیٹھی کے لیے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا عہدہ پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوا (تصویر: AP)
نجم سیٹھی کے لیے کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا عہدہ پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوا (تصویر: AP)

نئے سربراہ نجم سیٹھی کے لیے پی سی بی کی سربراہی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوئی بلکہ عدالت عالیہ و عظمیٰ کی بارہا مداخلت کے بعد معاملہ اب یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ ایک عبوری انتظامی کمیٹی پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کو سنبھال رہی ہے جس کے سربراہ نجم سیٹھی ہی ہیں، جن کے اختیارات عدالت نے محدود کر رکھے ہیں، جس کا حکم ہے کہ جلد از جلد انتخابات کے ذریعے باضابطہ طور پر چیئرمین کا تقرر کیا جائے۔

کرکٹ بورڈ کے انتظامی بحران سے ہٹ کر قومی کرکٹ ٹیم میں قیادت کے معاملے پر اس سال کافی لے دے ہوئی۔ پہلے دورۂ جنوبی افریقہ میں ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ شکست اور بعد ازاں سال کے اہم ترین ٹورنامنٹ چیمپئنز ٹرافی میں بغیر کوئی مقابلہ جیتے باہر ہونے کے نتیجے میں مصباح الحق کی قائدانہ اہلیت پر بہت سوالات اٹھائے گئے۔ اگر مصباح اپنی انفرادی کارکردگی کے ذریعے ناقدین کو جواب نہ دیتے تو شاید 2013ء ان کا آخری سال ہوتا۔ لیکن تمام تر ہنگاموں کے بعد 39 سالہ کپتان کے لیے سال کا اختتام نسبتاً پرسکون انداز میں ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انہیں عالمی کپ 2015ء تک کے لیے کپتان برقرار رکھنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور اس اعلان کے ساتھ ہی سال بھر قیادت کے معاملے پر ہونے والی کھینچا تانی کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔

مصباح نے اپنی قیادت کو لاحق خطرات کا جواب کارکردگی کے ذریعے دیا (تصویر: AP)
مصباح نے اپنی قیادت کو لاحق خطرات کا جواب کارکردگی کے ذریعے دیا (تصویر: AP)

مصباح الحق کی قیادت کو لاحق خطرات کا خاتمہ تو انہوں نے اپنی کارکردگی کے ذریعے کردیا لیکن غیر ملکی ہیڈ کوچ ڈیو واٹمور اور فیلڈنگ کوچ جولین فاؤنٹین کے پاس خود کو بچانے کے لیے کچھ نہ تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ وہ دونوں کوچز کے ساتھ دو سالہ معاہدے کی تکمیل کے بعد اس میں مزید توسیع نہیں کرے گا۔ محسن خان کی جگہ پاکستان کی کوچنگ سنبھالنے والے ڈیو واٹمور کا دور بہت ہی مایوس کن رہا۔ ان کے ماضی کے ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے توقع تھی کہ وہ پاکستان کو فتوحات کی راہ پر گامزن کریں گے لیکن دو سالہ عہد میں پاکستان ایک ٹیسٹ سیریز جیتنے میں بھی کامیاب نہ ہوسکا، حتیٰ کہ زمبابوے جیسے کمزور حریف کے خلاف بھی نہیں۔ پھر ایک روزہ میں ایشیا کپ جیتنے کے علاوہ ان کے سینے پر کوئی اہم تمغہ نہیں سجا۔ ہاں، جب ان کی روانگی کا اعلان ہوگیا تو اس کے بعد پاکستان نے جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے خلاف دو سیریز ضرور جیتیں اور عین ممکن ہے کہ پاکستان ان کی زیر تربیت رہتے ہوئے سری لنکا کے خلاف شروع ہونے والی سیریز جیت کر انہیں فاتحانہ انداز میں الوداع کہے، لیکن اس کے باوجود جتنی توقعات 'ڈیو' سے وابستہ تھیں، وہ ان میں سے کسی پر بھی پورے نہیں اترے۔ دوسری جانب جولین فاؤنٹین کی زیر تربیت رہنے کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم کی فیلڈنگ میں کوئی خاص و نمایاں فرق محسوس نہیں ہوا بلکہ کئی اہم مقابلے پاکستان نے اپنی بدترین فیلڈنگ کی وجہ سے گنوائے۔

پاکستان بنگلہ دیش سمیت کسی ملک کو دورے کے لیے قائل نہ کرسکا، یوں پاکستان کے میدان 2013ء میں بھی ویران رہے (تصویر: AFP)
پاکستان بنگلہ دیش سمیت کسی ملک کو دورے کے لیے قائل نہ کرسکا، یوں پاکستان کے میدان 2013ء میں بھی ویران رہے (تصویر: AFP)

پاکستان کی گزشتہ تین، چار سال میں شکستوں کا سبب ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی عدم موجودگی کو قرار دیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سال کے اوائل تک ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے لیے بہت کوششیں کی گئیں بالخصوص سابق چیئرمین ذکا اشرف نے اس کے لیے کافی تگ و دو کی۔ لیکن ایک سال تک پاکستان کو گومگو کی کیفیت میں رکھنے کے بعد بالآخر بنگلہ دیش نے ڈھاکہ کی عدالت عالیہ کے فیصلے کی وجہ سے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ کبھی ہاں اور کبھی ناں کرنے والے بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کو عدالتی فیصلے نے وہ بہانہ عطا کردیا، جس کا وہ منتظر تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کی کوششوں کو سخت دھچکا بھی پہنچا اور سال 2013ء بھی پاکستان میں بغیر کسی بین الاقوامی مقابلے کے انعقاد کے گزر گیا۔ اب قائم مقام چیئرمین نجم سیٹھی کی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی اور اگر وہ برقرار رہے تو عین ممکن ہے کہ 2014ء میں بھی پاکستان کے میدان یونہی ویران پڑے رہیں۔ بہرحال، پاکستان نے بنگلہ دیش کی اس 'حرکت' کا بدلہ بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں اپنے کھلاڑیوں کو بھیجنے سے انکار کرکے دیا۔

پاکستان کے باصلاحیت مگر بدقسمت تیز باؤلر محمد عامر کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کی کوششیں 2013ء میں بھی ناکام سے دوچار ہوئیں۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے واشگاف انداز میں اعلان کیا کہ وہ محمد عامر کی سزا میں کسی صورت کمی نہیں کرے گا اور یوں نئے چیئرمین نجم سیٹھی کی کوششیں لاحاصل ثابت ہوئی۔

بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں عامر کے علاوہ مزید دو کرداروں یعنی سلمان بٹ اور محمد آصف کی دوڑ دھوپ بھی اس سال اپنے اختتام کو پہنچی جب عالمی ثالثی عدالت برائے کھیل نے ان کی اپیلیں مسترد کردیں۔ یوں تمام دروازے بند ہوجانے کے بعد بالآخر دونوں نے اعتراف جرم کیا اور عوام سے معافی بھی مانگی۔ اس کے علاوہ اس معاملے سے ہٹ کر اسپاٹ فکسنگ کے گھن چکر میں پھنسنے والے چوتھے پاکستانی دانش کنیریا بھی خود پر عائد تاحیات پابندی کے خلاف اپیل ہار گئے اور عدالت نے کاؤنٹی مقابلے میں فکسنگ کے جرم پر لگائی گئی پابندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔

وقار یونس کا آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل ہونا سال میں پاکستان کے لیے میدان سے باہر واحد مثبت خبر رہا (تصویر: Getty Images)
وقار یونس کا آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل ہونا سال میں پاکستان کے لیے میدان سے باہر واحد مثبت خبر رہا (تصویر: Getty Images)

پے در پے بحران کے دوران پاکستان کے لیے میدان سے باہر ایک اچھی خبر بھی رہی جب بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے عظیم تیز باؤلر وقار یونس کو تاریخ کے بہترین کھلاڑیوں میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔ وقار یونس 'آئی سی سی ہال آف فیم' میں شامل ہونے والے پاکستان کے پانچویں کھلاڑی بنے۔ ان سے قبل آئی سی سی حنیف محمد، جاوید میانداد، عمران خان اور وسیم اکرم کو اس فہرست میں شامل کرچکی ہے۔

اب 2014ء پاکستان کرکٹ بورڈ میں ممکنہ طور پر انتخابات کا سال ہوگا اور نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد انتظامی معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اگر اس عمل کے نتیجے میں اعجاز بٹ جیسا کوئی فرد پی سی بی کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا تو یہ پاکستان کرکٹ میں زوال کے اک نئے عہد کا آغاز ہوگا۔ وطن عزیز میں جس طرح عہدوں کی بندر بانٹ ہوتی ہے، اس سے یہ بعید بھی نہیں کہ اب کوئی دوسرا اعجاز بٹ نہیں آئے گا۔ اس کے باوجود ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، جو خود بھی فرسٹ کلاس کرکٹر رہ چکے ہیں، پاکستان میں کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامات کریں گے اور بجائے اقرباء پروری کے ایسے اقدامات کریں گے جس کے نتیجے میں شفاف انداز میں پی سی بی کی قیادت ایک اہل شخص کے سپرد ہو۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی قیادت کے معاملے پر جس بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے کپتان کی طویل مدتی تقرری کو یقینی بنایا ہے، اس کے نتائج سیر حاصل ہوں گے۔ پاکستان کو دیگر ممالک سے سبق سیکھتے ہوئے اس چلن کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ 2014ء کا سورج کرکٹ کے میدانوں میں پاکستان کے نئے عروج کا پیغام لے کر طلوع ہوگا۔