پاک-لنکا پہلا ٹیسٹ: تین فاسٹ باؤلرز کے ساتھ جارحانہ اپروچ کی ضرورت

0 1,032

پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا مقابلہ کل سال 2013ء کے آخری دن یعنی 31 دسمبر سے ابوظہبی کے شیخ زاید زاید اسٹیڈیم میں شروع ہو رہا ہے۔ اس میدان پر اب تک صرف 4 ٹیسٹ مقابلے کھیلے گئے ہیں جن میں سے دو کسی نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوئے جبکہ آخری دونوں مقابلوں میں پاکستان اور انگلستان اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں کو زیر کیا۔

2011ء میں ابوظہبی کے اسی میدان پر سری لنکا جنید خان کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے 197 پر ڈھیر ہوگیا تھا (تصویر: AFP)
2011ء میں ابوظہبی کے اسی میدان پر سری لنکا جنید خان کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے 197 پر ڈھیر ہوگیا تھا (تصویر: AFP)

اس ٹیسٹ سیریز کو سعید اجمل اور رنگانا ہیراتھ کی جنگ بھی قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دونوں ٹیموں کے بلے باز نہایت مہارت کے ساتھ اسپنرز کا مقابلہ کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے سیریز میں نہایت دلچسپ مقابلے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ سیریز اسپنرز کے بجائے اوپنرز کی جنگ ہوگی کہ کس ٹیم کے اوپنرز اپنے ملک کو اچھا آغاز فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں سری لنکا کے اوپنرز کی حالت قدرے بہتر ہے جبکہ تیز باؤلنگ کے شعبے میں پاکستان کو واضح برتری حاصل ہے، جو ان اوپنرز کے لیے امتحان ہوگی۔

ابوظہبی کی وکٹ پہلے دن باؤلرز اور بالخصوص تیز گیندبازوں کے لیے کافی سازگار ثابت ہوتی ہے۔ یہاں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ نے اسکور بورڈ پر 500 رنز سے زیادہ کا مجموعہ سجایا تھا لیکن اس کے بعد تین مواقع پر پہلی اننگز میں سب سے بڑا اسکور 257 رنز ہے۔ 2011ء میں یہاں کھیلے گئے پاک-لنکا ٹیسٹ میں جنید خان کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے سری لنکا 197 رنز پر ڈھیر ہوگیا تھا جس کے بعد توفیق عمر کی ڈبل سنچری نے پاکستان کو 500 رنز سے بھی آگے پہنچا دیا لیکن دوسری اننگز میں کمار سنگاکارا کی شاندار ڈبل سنچری نے مقابلے کو نتیجے تک نہ پہنچنے دیا۔ جب پاکستان نے اس میدان پر انگلستان کے خلاف دوسرا ٹیسٹ کھیلا تھا تو پہلی اننگز میں جیمز اینڈرسن اور اسٹورٹ براڈ نے 6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے گرین شرٹس کو مشکل میں مبتلا کردیا تھا۔ بعد ازاں دوسری اننگز میں سعید اجمل اور عبد الرحمٰن کی تباہ کن باؤلنگ نے انگلش ٹیم کو 72 رنز پر ڈھیر کرکے پاکستان کویادگار کامیابی دلوائی۔ جنوبی افریقہ کے خلاف 7 وکٹوں کی فتح میں جنید خان اور محمد عرفان نے مجموعی طور پر 8 وکٹیں حاصل کیں اس لیے گو کہ سری لنکا کا مڈل آرڈر کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے کی موجودگی میں ہمیشہ کی طرح مضبوط ہے، لیکن اوپننگ کا شعبہ تلکارتنے دلشان کی ریٹائرمنٹ کے بعد قدرے کمزور ہے اور پاکستان اسی پر وار کرکے سری لنکا کو ابتدائی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

شیخ زاید اسٹیڈیم کی وکٹ پر پہلے دن تیز باؤلرز کا کردار نمایاں رہتا ہے، لیکن یہ وکٹ بیٹنگ کے لیے سازگار ہوجاتی ہے اور آخری دو دنوں میں اسپن باؤلرز تہلکہ مچا سکتے ہیں۔ اب تک اس میدان پر تین ڈبل سنچریاں بن چکی ہیں جو میچ کی پہلی، دوسری اور تیسری اننگز میں اسکور کی گئیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بلے باز اسپنرز کے خلاف عمدہ بیٹنگ کرے تو وہ میچ کے چوتھے اور پانچویں دن بھی اچھی اننگز کھیل سکتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی دیگر وکٹوں کی طرح یہاں بھی اسپنرز کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ پاکستان کے لیے سعید اجمل تین مقابلوں میں 16 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب باؤلر ہیں جبکہ عبد الرحمٰن دو مقابلوں میں کیریئر کی بہترین باؤلنگ سمیت 13 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھا چکے ہیں۔

پاکستان کے کپتان مصباح الحق کا ریکارڈ اس میدان پر بہت عمدہ رہا ہے جبکہ بحیثیت کپتان بھی انہیں یہاں کبھی شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ مقابلے میں بھی وہ اس ریکارڈ کو برقرار رکھنا چاہیں گے جس کے لیے انہیں درست کمبی نیشن میدان میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ اظہر علی نے یہاں کھیلے گئے چاروں ٹیسٹ مقابلوں میں حصہ لیا ہے مگر محمد حفیظ کی واپسی کی صورت میں شاید اس مرتبہ انہیں باہر بیٹھنا پڑے اور حفیظ کی فائنل الیون میں موجودگی سے پاکستان کو اسپن باؤلنگ کا ایک آپشن بھی مل جائے گا اس لیے اگر مصباح جارحانہ رویے کے ساتھ میدان میں اتریں تو انہیں دو کے بجائے تین اسپیشلسٹ فاسٹ باؤلرز کو کھلانا چاہیے تاکہ سری لنکا کے ٹاپ آرڈر پر ضرب لگائی جا سکے۔ جنید خان کے ساتھ محمد طلحہ کو یقینی طور پر فائنل الیون کا حصہ ہونا چاہیے اور اگر عمر گل ٹیسٹ کھیلنے کے لیے فٹ ہیں تو انہيں تیسرے پیسر کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ سعید اجمل کے ساتھ محمد حفیظ دوسرے اسپنر کا کردار بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کی صورت میں کھبے اسپنر عبد الرحمٰن کو ایک مرتبہ پھر قربانی دینا ہوگی جو اس میدان میں اچھے ریکارڈ کے حامل ہیں لیکن سری لنکا کے مضبوط مڈل آرڈر کو دیکھتے ہوئے اسپن جال پھینک کو قابو کرنے کی حکمت عملی کچھ بہتر محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے مصباح الیون کو تین فاسٹ باؤلرز کے ساتھ سیریز میں برتری حاصل کرنے کی "نیت" سے میدان میں اترنا چاہیے۔