لالا کا ریکارڈ تہہ و بالامگر۔۔۔
نئے سال کی پہلی صبح دفتر پہنچتے ہی سال کا پہلا اور بہت بڑا سرپرائز ملا کہ نیوزی لینڈ کے ایک غیر معروف بیٹسمین کوری جیمز اینڈرسن نے شاہد آفریدی کی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ توڑ دیا، جو بوم بوم نے 1996ء میں محض 16 برس کی عمر میں صرف 37 گیندوں پر قائم کیا تھاجبکہ اینڈرسن نے ایک گیند کم کھیلتے ہوئے تین ہندسوں تک رسائی حاصل کی۔
کوری اینڈرسن کا ریکارڈ اور اس سے متعلق اعدادوشمار ہر ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پر بکھرے پڑے ہیں، مگر یہ ریکارڈ بنتے ہی پاکستانی شائقین نے خود کو دو حصوں میں تقسیم کرلیا ہے۔ ایک اس غم سے نڈھال ہورہا ہے کہ ان کے پسندیدہ کھلاڑی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، جبکہ دوسرا محض اس لیے جشن منا رہا ہے کہ شاہد آفریدی کو "محرومی" کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ میری نظر میں یہ دونوں رویے سراسر غلط ہیں کیونکہ ریکارڈز بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔ خود شاہد آفریدی کو بھی اس بات کا "دکھ" ہے کہ ان کا ریکارڈ اب کسی اور کے نام کے آگے لکھا جاچکا ہےمگر سولہ برس پہلے "ٹین ایجر" شاہد آفریدی نے بھی سنتھ جے سوریا سے یہ ریکارڈ چھین لیا تھا جو صرف چھ ماہ تک ہی اس ریکارڈ کا لطف اٹھا سکے تھے۔اس لیے اگر آج ڈیڑھ عشرے بعد کسی نے شاہد آفریدی کو اس ریکارڈ سے محروم کیا تو اس پر نہ شاہد آفریدی کو اداس ہونا چاہیے اور نہ ہی ان کے مداحوں کو کسی کرب میں مبتلا ہونا چاہئے۔
تیز ترین سنچری، سب سے زیادہ چھکے یا سب سے بڑی انفرادی اننگز بھی محدود اوورز کی کرکٹ کے ایسے ریکارڈز ہیں جس پر سازگار حالات اور قسمت کے ساتھ کوئی بھی کھلاڑی قابض ہوسکتا ہے۔ سعید انور کی سب سے بڑی ون ڈے اننگز کا ریکارڈ زمبابوے کے ایک غیر معروف اور واجبی سی صلاحیت کے حامل بیٹسمین چارلس کووینٹری نے اپنے نام کرلیا تھا۔ اس لیے ریکارڈز کے ٹوٹنے پر کسی زحمت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے اور اگر تیز ترین سنچری کا ریکارڈ اب شاہد آفریدی کے نام نہیں رہا تو اس سے آل راؤنڈر کی اہمیت میں کوئی نہیں آئے گی اور نہ ہی دو عشروں تک کرکٹ کے میدانوں میں دکھائے گئے شاہد آفریدی کے کارناموں کو دھندلایا جاسکتا ہے۔
6 ون ڈے میچز کا تجربہ کار 23سالہ اینڈرسن یقینی طور پر سراہے جانے کے قابل ہے، جس نے ویسٹ انڈین بالرز کا بھرکس نکالتے ہوئے ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ جو 27لسٹ اے مقابلوں میں کوئی سنچری نہ بنا سکا، ویسٹ انڈیز کےخلاف ریکارڈ ساز اننگز کھیل کر شاہد آفریدی کے ریکارڈ کو تہہ و بالا کرگیا۔ لیکن کوری اینڈرسن کی اس باری کا موازنہ پھر بھی شاہد آفریدی کی اننگز کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا جو انہوں نے برسوں پہلے سری لنکا کےخلاف کھیلی تھی۔ میں یہاں سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی باؤلنگ کا موازنہ نہیں کرنا چاہتا، جن کے خلاف یہ دو ریکارڈ شکن اننگز کھیلی گئیں اور نہ ہی مجھے میدان کی پیمائش سے کوئی سروکار ہے، مگر یہاں یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ شاہد آفریدی نے اپنی اننگز 50 اوورز کے میچ میں کھیلی تھی جبکہ کوری اینڈرسن نے صرف 21 اوورز کے مقابلے میں یہ ریکارڈ توڑا۔
بظاہرکوری اینڈرسن کی اننگز زیادہ بہتر دکھائی دیتی ہے مگر شاہد آفریدی نے زیادہ مشکل حالات میں تیز ترین سنچری اسکور کی تھی جنہیں ایک بڑے مجموعے کا ٹاسک دے کر ون ڈاؤن پوزیشن پر بھیجا گیا تھا کیونکہ پاکستانی ٹیم کو چار ملکی کے ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے کے لیے آخری میچ ہر حالت میں ایک بڑے مارجن کے ساتھ جیتنا تھااور شاہد آفریدی نے تیز ترین سنچری اسکور کرتے ہوئے اس ذمہ داری کو بھرپور انداز میں نبھایا جبکہ دوسری طرف اگر اینڈرسن کی اننگز کا جائزہ لیا جائے تو بارش کی وجہ سے یہ میچ 21اوورز فی اننگز پر مشتمل تھا جسے دوسرے معنوں میں ٹی20میچ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ اس میچ کی اہمیت کیوی ٹیم کے لیے ویسی نہ تھی جو برسوں پہلے کھیلے گئے پاک-لنکا مقابلے کی تھی۔
اینڈرسن نے جب میدان میں قدم رکھا تو جیسی رائیڈر ویسٹ انڈین بالرز کے پرخچے اڑا رہا تھا اور اینڈرسن نے بھی لانگ ہینڈل کا استعمال کرتے ہوئے رنز کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کردیے جس پر کسی قسم کا دباؤ نہ تھا جو اگر تیس چالیس رنز بنا کر آؤٹ بھی ہوجاتا تو کوئی دوسرا بیٹسمین اس کی جگہ سنبھال کر نیوزی لینڈ کو ایک بڑا مجموعہ دلوادیتا مگر سال کا پہلا دن کوری جیمز اینڈرسن کا تھااور سب کچھ نوجوان بلیک کیپس بیٹسمین کے حق میں ہوتا گیا۔ اور وہ ریکارڈ ساز اننگز کھیلنے کے بعد میدان سے ناقابل شک ست واپس آیا، جس پر وہ بلاشبہ مبارکباد کا مستحق ہے۔
کوری اینڈرسن نے لالا کا ریکارڈ تو ضرور توڑا ہے مگر شاہد آفریدی نے جس دباؤ، ذمہ داری کے ساتھ اپنی پہلی انٹرنیشنل اننگز میں ریکارڈ سنچری بنائی تھی اس کا موازنہ کسی بھی دوسری اننگز سے نہیں کیا جاسکتا!