مقابلہ ڈرا، لیکن حقیقی فاتح سری لنکا

4 1,080

پہلی اننگز میں سری لنکا کو 204 رنز پر ڈھیر کرنے اور جواب میں 383 رنز جوڑ دینے کے باوجود پاکستان ابوظہبی میں سری لنکا کو نہ جھکا سکا جو کپتان اینجلو میتھیوز کی دو قائدانہ اننگز کی بدولت واضح شکست سے بچ گیا۔

مرد میدان اینجلو میتھیوز کی شاندار بیٹنگ نے سری لنکا کو یقینی شکست سے بچایا (تصویر: AFP)
مرد میدان اینجلو میتھیوز کی شاندار بیٹنگ نے سری لنکا کو یقینی شکست سے بچایا (تصویر: AFP)

پاکستان شیخ زاید اسٹیڈیم میں تین روز تک مقابلے پر حاوی رہا۔ ٹاس جیت کر سری لنکا کو بلے بازی کی دعوت گویا چیلنج تھا، جس میں مہمان بلے باز بری طرح ناکام ہوئے۔ 57 رنز کا آغاز ملنے کے باوجود سری لنکا کا ٹاپ آرڈر جنید خان اور پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے بلاول بھٹی کے سامنے نہ ٹک سکا اور تہرے ہندسے میں پہنچنے سے پہلے پہلے آدھی لنکن ٹیم میدان سے باہر تھی۔

نوجوان بلاول بھٹی نے کھانے کے وقفے کے بعد کوشال سلوا کو پہلی سلپ میں محمد حفیظ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرایا اور پھر اپنے اگلے ہی اوور میں مہیلا جے وردھنے اور دنیش چندیمال کو ٹھکانے لگا کر سری لنکا کو پچھلے قدموں پر دھکیل دیا۔ جنید نے دوسرے اینڈ سے کمار سنگاکارا کی اہم وکٹ حاصل کرکے گویا اعلان کردیا کہ اب مقابلہ پاکستان کی گرفت میں ہے۔ یوں بلاول، جن کے انتخاب پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ رہے تھے، نے ہی پاکستان کو مقابلے میں بالادست پوزیشن تک پہنچا دیا۔ سری لنکا کے لیے وکٹیں روکنا بہت مشکل نظر آ رہا تھا اور 40 ویں اوور میں 124 رنز تک وہ اپنی 8 وکٹوں سے محروم ہو چکا تھا۔

اس موقع پر کپتان اینجلو میتھیوز نے اپنی قائدانہ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف ایک اینڈ کو محفوظ بنایا بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ رنز بھی بناتے رہے۔ انہوں نے نویں وکٹ پر شامنڈا ایرنگا کے ساتھ 61 رنز کااضافہ کیا اور جب خود 91 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے تو سری لنکا 200 رنز کی نفسیاتی حد عبور کر چکا تھا۔ میتھیوز نے صرف 127 گیندوں پر 15 چوکوں کی مدد سے یہ 91 رنز بنائے جبکہ ان کے بعد کسی بھی بلے باز کا زیادہ سے زیادہ اسکور 38 تھا۔

پاکستان کی جانب سے جنید خان نے بہت ہی عمدہ باؤلنگ کی اور 58 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ بلاول بھٹی نے 3 وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بقیہ 2 وکٹیں سعید اجمل کو ملیں جو بحیثیت مجموعی بجھے بجھے دکھائی دیے اور یہ وکٹیں بھی انہيں بالکل آخری بلے بازوں کی ملیں۔

سری لنکا کو توقعات سے کہيں کم مجموعے تک محدود کرنے کے بعد اب پاکستان کی باری تھی کہ وہ بیٹنگ کے لیے سازگار حالات میں فاتحانہ وار کرے۔ گو کہ پہلا دن پاکستان کے نام رہا لیکن دن کا اختتام اچھے انداز میں نہیں ہوا جب خرم منظور رن آؤٹ ہوگئے۔ اس وقت پاکستان کا مجموعہ صرف 46 رنز تھا یعنی کہ سری لنکا کی برتری محض 158 رنز کی رہ گئی تھی۔ پہلے دن کے اختتام پر تو کسی نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ یہ مقابلہ بے نتیجہ ثابت ہوگا۔

بہرحال، اگلے روز پاکستان نے صبح کے سیشن میں دو مزید وکٹیں گنوانے کے بعد تجربہ کار مصباح الحق اور یونس خان نے مقابلے کی سب سے بڑی 218 رنز کی شراکت داری قائم کر ڈالی۔ ابوظہبی میں بلے بازوں کے لیے سازگار ہوتے حالات، تھکے ہارے باؤلرز اور سامنے تجربہ کار بیٹسمین، سری لنکا کے لیے مقابلہ سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا تھا۔

مصباح اور یونس کی ڈبل سنچری شراکت داری نے پاکستان کی گرفت مضبوط کی لیکن میتھیوز نے پاکستانی امیدوں کے سب چراغ گل کردیے (تصویر: AFP)
مصباح اور یونس کی ڈبل سنچری شراکت داری نے پاکستان کی گرفت مضبوط کی لیکن میتھیوز نے پاکستانی امیدوں کے سب چراغ گل کردیے (تصویر: AFP)

یونس خان نے اپنے کیریئر کی 23 ویں سنچری مکمل کی اور یوں اپنی تہرے ہندسوں کی اننگز کی تعداد جاوید میانداد کے برابر کرلی جبکہ مصباح نے کیریئر میں پانچویں مرتبہ سنچری بنائی۔ سری لنکا بمشکل آخری سیشن میں یونس خان کی وکٹ لے سکا۔ یوں سکھ کا سانس ضرور لیا لیکن انہیں مقابلے کو بچانے کے لیے اب کسی معجزے کا ہی انتظار تھااور انہوں نے اس کے بعد اپنی باؤلنگ اور پھر بیٹنگ کے ذریعے ایسا کرکے بھی دکھا دیا۔

جب یونس آؤٹ ہوئے تو پاکستان کے رنز کی تعداد 301 تھی لیکن پوری ٹیم 383 رنز تک پہنچتے پہنچتے آؤٹ ہوگئی۔ یعنی صرف 82 رنز کے اضافے پر 7 وکٹیں گریں جن میں یونس 136 اور مصباح 135 رنز کی وکٹیں بھی شامل رہیں۔ ان کے علاوہ صرف بلاول بھٹی 14 اور اسد شفیق 13 رنز کے ساتھ دہرے ہندسے میں داخل ہوئے۔ چوتھے روز یہی شاندار باؤلنگ سری لنکا کو مقابلے میں واپس لائی۔ پاکستان جو 400 رنز سے کہیں آگے جاتا دکھائی دیتا تھا، 383 رنز تک ہی محدود ہوا اور 200 رنز کی برتری بھی نہ حاصل کرسکا۔

پھر سری لنکا نے معجزے کا دوسرا حصہ دکھایا۔ 47 رنز کا آغاز ملنے کے بعد دوسری وکٹ پر کمار سنگاکارا اور کوشال سلوا کی 99 رنز کی شراکت داری اور اس کے بعد مہیلا جے وردھنے اور کوشال کی وکٹیں جلد گرنے کے باوجود چندیمال اور اینجلو کی شاندار بلے بازی نے پاکستان کے جبڑے سے مقابلہ نکال لیا۔

تجربہ کار کمار سنگاکارا جو پچھلی اننگز میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے تھے، اس مرتبہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور 55 رنز کی عمدہ باری کھیلنے کے بعد آؤٹ ہوئےلیکن یہ پے در پے گرنے والی تین وکٹیں تھیں جنہوں نے سری لنکا کے لیے مشکلات کھڑی کردیں۔ سنگا کے بعد مہیلا جے وردھنے ایک مرتبہ پھر ناکام ہوئے اور دوسری مرتبہ بھی ان کی وکٹ بلاول بھٹی ہی کے ہاتھ لگی۔ پاکستان نے خطرناک روپ دھارتے ہوئے کوشال سلوا کو اس وقت آؤٹ کیا جب ان کی نظریں سنچری پر تھیں۔ 81 رنز بنانے کے بعد وہ جنید خان کا دوسرا شکار بنے۔

186 رنز پر 4 وکٹیں گنوا بیٹھنے کے بعد اب سری لنکا کی امید صرف ایک تھی، ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کپتانوں کے درمیان ایک طویل شراکت داری اور دونوں نے 138 رنز جوڑ کو اپنی ذمہ داری کو بخوبی پورا کیا۔ چندیمال کی وکٹ اس وقت گری جب سری لنکا پاکستان پر کافی برتری بھی حاصل کر چکا تھا۔ انہوں نے 166 گیندوں پر 89 رنز بنائے اور بلاشبہ سنچری کے حقدار تھے لیکن جنید خان نے انہیں آؤٹ کرنے کے لیے جو جال بچھایا، وہ اس میں جکڑے گئے اور ایک پل شاٹ پر راحت علی کو کیچ دے کر چلتے بنے۔ اب پاکستان کو فوری طور پر حریف کی اننگز لپیٹنے کی ضرورت تھی لیکن اینجلو کے ہوتے ہوئے وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا بالخصوص انہیں دوسرے اینڈ سے وکٹ کیپر پرسنا جے وردھنے کا جو بھرپور ساتھ ملا اس نے پاکستان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔ دونوں نے چھٹی وکٹ پر 156 رنز کی ناقابل شکست ساجھے داری قائم کی۔

پاکستان کے لیے کھیل کا چوتھا دن سب سے مایوس کن رہا۔ پہلے وہ معمولی اضافے پر اپنی تمام وکٹوں سے محروم ہوا اور اس کے بعد باؤلرز دن بھر کی جدوجہد کے بعد صرف ایک وکٹ ہی سمیٹ سکے۔ یہی وہ دن تھا جہاں سے مقابلہ پاکستان کی گرفت سے ایسا نکلا کہ پھر دوبارہ واپس نہ آ سکا۔ اینجلو میتھیوز 343 گیندوں پر 157 رنز کی ماہرانہ اننگز تراشنے کے بعد میدان سے ناقابل شکست لوٹے جبکہ پرسنا نے 63 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔

تصویر سے ظاہر ہے کہ مقابلہ ڈرا ہونا کس کی فتح ہے اور کس کی شکست؟ (تصویر: AFP)
تصویر سے ظاہر ہے کہ مقابلہ ڈرا ہونا کس کی فتح ہے اور کس کی شکست؟ (تصویر: AFP)

سری لنکا نے آخری روز 480 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ پر اپنی دوسری اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا اور یوں پاکستان کو دن کے بقیہ 62 اوورز میں جیتنے کے لیے 302 رنز کا ہدف ملا۔

پاکستان کی دوسری اننگز سے قبل ذرا پاکستان کی باؤلنگ لائن کا حال دیکھ لیں، سعید اجمل نے 115 رنز دے کر کوئی وکٹ حاصل نہیں کی، بلاول بھٹی نے گو کہ 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا لیکن 36 اوورز میں 4 سے زیادہ کے اوسط سے 146 رنز کھائے۔ راحت علی دونوں اننگز میں وکٹوں سے محروم رہے۔ صرف جنید خان نے نسبتاً اچھی باؤلنگ کی اور 36 اوورز میں 93 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور مجموعی طور پر مقابلے میں 8 وکٹیں حاصل کیں۔

اب پاکستان کے لیے تقریباً 5 رنز فی اوور کے اوسط سے 302 رنز کا ہدف حاصل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ بالخصوص پانچ دن کی استعمال شدہ وکٹ پر یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے بہت جس جرات و بہادری کی ضرورت ہے، وہ فی الحال قومی دستے میں مفقود ہے۔ اننگز کا حال بھی یہ رہا کہ پہلی اننگز میں بدقسمتی کے بعد جب خرم منظور کو دوسرا موقع ملا تو دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوئے حالانکہ اسی وکٹ پر کچھ دیر قبل سری لنکا کے آل راؤنڈرز رنز کے انبار لگا رہے تھے۔

دوسری وکٹ پر محمد حفیظ اور احمد شہزاد کی سنچری شراکت داری فتح کی جانب پیشقدمی کرتی ہوئی نہيں بلکہ پاکستان کو شکست سے بچانے کے لیے کھیلتی دکھائی دی۔ پاکستان کی سست رفتاری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 125 رنز 38 ویں اوور میں جاکر مکمل ہوئے یعنی پاکستان کا ابتداء ہی سے مقابلے کو فیصلہ کن مرحلے میں لے جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ پھر جب آخری گھنٹے کے کھیل سے قبل امپائروں نے کریز پر موجود بلے بازوں کو کہا تو وہ حریفوں سے ہاتھ ملا کر مقابلے کو بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام کرنے پر رضامند ہوگئے۔

گو کہ پہلے ٹیسٹ کا نتیجہ ریکارڈ بک میں ڈرا لکھا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تین روز تک پچھلے قدموں پر رہنے کے بعد سری لنکا نے جس طرح واپسی کی ہے، اس سے حوصلے ضرور بلند ہوئے ہوں گے لیکن سری لنکا کو اب بھی بقیہ دو مقابلوں میں فتح سمیٹنے کے لیے اچھے باؤلرز کی ضرورت ہے، جس کی ان کے پاس قلت ہے۔

اینجلو میتھیوز کو دونوں اننگز میں فیصلہ کن بلے بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب پاکستان اور سری لنکا کا دوسرا ٹیسٹ 8 جنوری سے دبئی میں کھیلا جائے گا جہاں جیتنے والی ٹیم سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل کرے گی۔ سری لنکا ابوظہبی سے کئی حوصلہ افزاء یادیں لے کر لوٹے گا جبکہ پاکستان کو اپنی حکمت عملی پر ایک مرتبہ پھر غور کرنے کی ضرورت ہے۔