میتھیوز نے قومی ٹیم کو دیوار سے لگادیا!
پاکستان نے ابوظہبی میں یہ سبق ضرور حاصل کیا ہوگا کہ ٹیسٹ میں کامیابی کے لیے کھیل کے پانچوں دنوں میں اچھا کھیل پیش کرکے مخالف پر دباؤ قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ یہ 50 یا 20 اوورز کا کھیل نہیں کہ ایک انفرادی کارکردگی ٹیم کا بیڑا پار کردے بلکہ ایک نہیں بلکہ دو مرتبہ اپنی صلاحیتوں کا ’’ امتحان‘‘ دے کر فتح کی دیوی کو رام کرنا پڑتا ہے، پھر کہیں جاکر فتح نصیب ہوتی ہے۔
درحقیقت ایسا دکھائی دیا کہ پاکستانی ٹیم میں مخالف کو دیوار سے لگانے کی صلاحیت ہی موجود نہیں بلکہ قومی ٹیم اچھا کھیلنے کے بعد اکثر خود دیوار سے لگ کر حریف کو خود پر حاوی ہونے کا موقع دیتی ہے ۔ سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ کے ابتدائی دو دنوں میں مکمل غلبہ حاصل کرنے کے بعد تیسرے روز کے کھیل مکمل ہونے پر میں نے لکھا تھا کہ 4 وکٹوں پر 186 رنز بنانے والے سری لنکن بلے بازوں کو چوتھی صبح جلد از جلد آؤٹ کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو جیتنے کے لیے کم سے کم ہدف ملے لیکن چوتھے روز تو اینجلو میتھیوز نے پاکستانی باؤلرز کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے جو دن بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد 234 رنز کے بدلے صرف ایک وکٹ ہی حاصل کرپائے۔
پاکستان نے مقابلے پر کئی مرتبہ گرفت مضبوط ہونے کے بعد اسے چھوڑ دیا اور کھلاڑیوں نے ریلیکس ہوکر سری لنکا کو مقابلے میں واپس آنے کا موقع فراہم کیا۔ پہلے دن پاکستان نے صرف 124 رنز پر حریف کے 8 کھلاڑی آؤٹ کر ڈالے تھے مگر اس کے باوجود سری لنکا اسکور میتھیوز کی مہم جویانہ اننگز کی بدولت 204 تک پہنچا۔ پھر یونس خان اور مصباح الحق کی چوتھی وکٹ پر ڈبل سنچری شراکت کے بعد پاکستان مقابلے پر حاوی آ گیا تو آنے والے 6 بلے باز صرف 37 رنز جوڑ سکے۔ یوں پاکستان کی برتری صرف 179 رنز کی رہ گئی۔ اگر لوئر مڈل آرڈر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتا تو پاکستان کو ڈھائی سے تین سو رنز کی برتری مل سکتی تھی اور سے اننگز کی فتح کا امکان پیدا کرسکتی تھی، لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
تیسرے دن کی آخری گیند پر جب جنید خان نے 81 رنز بنانے والے کوشال سلوا کو آؤٹ کیا تو اگلے روز مزید 6 وکٹیں سمیٹنے کے لیے پاکستان کو بھرپور وار کرنا چاہیے تھے لیکن ٹیم میں جارحانہ پن کی کمی دکھائی دی اور 90 اوورز کے کھیل میں صرف ایک وکٹ ہاتھ لگی۔ 91 اور 157 رنز کی باریاں کھیلنے والے سری لنکن کپتان دونوں اننگز میں پاکستانی باؤلرز کے لیے درد سر بنے رہے۔ ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے ٹیم پاکستان نے کوئی حکمت عملی ترتیب نہ دی۔ پہلی اننگز میں میتھیوز اپنے غلطی سے آؤٹ ہوئے جبکہ دوسری باری میں ساڑھے 7 گھنٹے تک پاکستانی باؤلرز کو تگنی کا ناچ نچاتے رہے اور میدان سے ناقابل شکست واپس آئے۔
ابوظہبی ٹیسٹ ڈرا ہونے کی سب سے بڑی وجہ سعید اجمل کی ناکامی ہے جو دوسری اننگز میں 49 اوورز میں ایک وکٹ بھی حاصل نہ کرسکے۔ یہ اسپنر کےکیریئر کا محض چوتھا موقع ہے کہ انہیں پوری اننگز میں کوئی وکٹ نہ ملی ہو۔ آخری مرتبہ فروری 2013ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سنچورین میں سعید اجمل 29 اوورز کرانے کے باوجود وکٹ سے محروم رہے تھے لیکن اس مرتبہ تو 49 اوورز میں بھی کوئی وکٹ ہاتھ نہ لگی جو آف اسپنر کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ کمار سنگاکارا جیسے تجربہ کار بلے باز کو صرف 22 گیندیں پھینکنے اور مہیلا جے وردھنے کا تو سرے سے سامنا نہ کرنے کے باوجود سعید حریف کے کم تجربے کے حامل بلے بازوں کو بھی ٹھکانے نہ لگا سکے۔ گو کہ ابوظہبی کی وکٹ پر چوتھے اور پانچویں دن اسپنرز کا کردار بہت اہم ہوتا ہے لیکن سعید اجمل اس کردار کو نبھانے میں ناکام رہے جس کی وجہ سے سری لنکا کو مقابلے میں واپس آنے کا موقع مل گیا۔
ابوظہبی کا سبق یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ایک اننگز میں اچھی کارکردگی دکھا کر’’ اِترانے‘‘ کی بجائے دونوں اننگز میں مستقل مزاجی کے ساتھ پرفارم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور مصباح الحق کو اپنے بالرز کی بیٹری بھی چارج کرنی ہوگی کیونکہ اگر اگلے ٹیسٹ میں پاکستان سری لنکا کو دیوار سے نہ لگا سکا تو یقیناً سری لنکا سیریز میں ناقابل شکست برتری حاصل کرلے گا، جس نے جس نے پہلے ٹیسٹ میں کم از کم ’’ اخلاقی فتح‘‘ تو حاصل کر ہی لی ہے۔