ایک اور یکطرفہ مقابلہ، آسٹریلیا 5-0 سے ایشیز جیت گیا

0 1,111

آسٹریلیا نے سڈنی میں تقریباً 43 ہزار تماشائیوں کے روبرو انگلستان کے خلاف تمام نئے پرانے حساب چکتا کردیے اور تاریخ میں محض تیسری بار ایشیز سیریز 5-0 کے شاندار مارجن سے جیت لی۔ پوری سیریز میں انگلستان آسٹریلیا کے ہاتھوں کس بری طرح شکست سے دوچار ہوا؟ ملاحظہ کیجیے: مقابلہ 381 رنز سے، دوسرا 218، تیسرا 150، چوتھا 8 وکٹوں اور پانچواں 281 رنز کے واضح ترین مارجن سے آسٹریلیا کے نام رہا۔ ایسالگتا تھا کہ یہ روایتی حریفوں کے درمیان ایشیز سیریز نہیں بلکہ آسٹریلیا-بنگلہ دیش سیریز ہے۔

تاریخ کی محض تیسری آسٹریلوی ٹیم جس نے پانچ-صفر سے ایشیز سیریز جیتی (تصویر: Getty Images)
تاریخ کی محض تیسری آسٹریلوی ٹیم جس نے پانچ-صفر سے ایشیز سیریز جیتی (تصویر: Getty Images)

سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گئے سیریز کے پانچویں و آخری ٹیسٹ میں گو کہ انگلستان نے ٹاس جیتنے کے بعد 100 رنز سے پہلے آسٹریلیا کی آدھی ٹیم کو میدان بدر کردیا تھا لیکن اسٹیون اسمتھ اور بریڈ ہیڈن کے شاندار ساتھ نے انگلستان کو مقابلے پر گرفت نہ کرنے دی۔ اگر یوں کہا جائے کہ سڈنی کے نجات دہندہ یہ دونوں کھلاڑی تھے تو بے جا نہ ہوگا اور ساتھ ساتھ اس کا سہرا باؤلرز کے سر بھی جاتا ہے جنہوں نے بلے بازوں کا سر جھکنے نہ دیا۔

جب آسٹریلیا پہلے روز کھانے کے وقفے سے قبل محض 94 رنز پر اپنی 4 وکٹیں گنوا چکا تھا تو ایسا لگتا نہ تھا کہ مقابلہ تین روز میں ہی ختم ہوجائے گا لیکن اسٹیون اسمتھ اور بریڈ ہیڈن کی چھٹی وکٹ پر 128 رنز کی شراکت داری نے پرتھ کے بعد یہاں بھی اپنا کام کر دکھایا اور ثابت کردیا کہ انگلستان کے پاس آسٹریلیا کی صلاحیتوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمتھ-ہیڈن شراکت داری کا مزاج دفاعی نہ تھا۔ دونوں کھلاڑی اسکور بورڈ کو دیکھ کر اپنے خول میں بند نہیں ہوئے بلکہ ویوین رچرڈز کے مقولے "بہترین دفاع جارح مزاجی ہے" کو اپنایا اور انگلستان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اسمتھ نے سیریز میں اپنی دوسری سنچری محض 142 گیندوں پر مکمل کی جبکہ ہیڈن محض 90 گیندوں پر 75 رنز بنانے اور سیریز کی پانچویں نصف سنچری داغنے کے بعد اسی باؤلر کو وکٹ دے گئے جس کو بیشتر آسٹریلوی بلے بازوں نے اپنی وکٹ تھمائی، یعنی بین اسٹوکس کو۔

گو کہ ہیڈن ساتھ چھوڑ گئے لیکن اسمتھ کا کام ابھی باقی تھا۔ انہوں نے آخری 4 وکٹوں کی مدد سے اسکور میں مزید 101 رنز کا اضافہ کیا اور پہلے روز کے آخری سیشن میں اسٹیون اسمتھ کی وکٹ گرنے کے ساتھ آسٹریلیا کی اننگز 326 رنز پر اختتام کو پہنچی۔ پہلے سیشن کے مقابلے میں کتنا مختلف اسکور ہے نا؟

انگلستان کی جانب سے بین اسٹوکس نے 6 وکٹیں حاصل کیں لیکن انہیں تقریباً 5 کے اوسط سے 99 رنز کی مار بھی سہنا پڑی۔ دو کھلاڑیوں کو اسٹورٹ براڈ نے جبکہ ایک، ایک کو جیمز اینڈرسن اور اسکاٹ بورتھوِک نے آؤٹ کیا۔

انگلستان پہلے دن کے بقیہ 6 اوورز میں بھی ایک وکٹ دے بیٹھا جب مائیکل کاربیری ایک مرتبہ پھر مچل جانسن کے ہتھے چڑھ گئے۔ 8 رنز پر ایک وکٹ کے نقصان کی اسکور لائن کے ساتھ جب پہلے دن کا اختتام ہوا تو آسٹریلیا پرسکون اور انگلستان ایک مرتبہ پھر پریشان تھا۔

دوسرے روز آسٹریلوی باؤلرز ایک مرتبہ پھر قہر کی طرح انگلستان پر ٹوٹ پڑے۔ راین ہیرس، پیٹر سڈل اور مچل جانسن کی مثلث نے ان کو ایک لمحے کے لیے بھی ٹکنے نہ دیا۔ انگلستان کے ابتدائی پانچوں بلے باز تو دہرے ہندسے میں بھی نہ پہنچ سکے۔ بعد میں آنے والوں میں سے بین اسٹوکس کے 47 رںز کے علاوہ کسی نے کوئی قابل ذکر باری نہ کھیلی اور پوری ٹیم 59 ویں اوور میں محض 155 رنز پر ڈھیر ہوئی۔ اسٹورٹ براڈ نے آخری لمحات میں 22 گیندوں پر 30 رنز بنا کر کچھ کفارہ کرنے کی کوشش کی لیکن نجات دہندہ بننے کے لیے انہیں کسی کے ساتھ اور بہت طویل ساتھ کی ضرورت تھی، جو میسر نہ آ سکا۔

'مچ'، 'سڈ' اور 'رائنو' نے نے تین، تین وکٹیں حاصل کیں اور باقی بچ جانے والی ایک وکٹ ناتھن لیون کے ہتھے چڑھی۔

"سو جاؤ بیٹا! ورنہ مچل جانسن آ جائے گا" یہ دورہ ایلسٹر کک کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوا (تصویر: Getty Images)
"سو جاؤ بیٹا! ورنہ مچل جانسن آ جائے گا" یہ دورہ ایلسٹر کک کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوا (تصویر: Getty Images)

اب آسٹریلیا مقابلے پر مکمل طور پر حاوی تھا ۔171 رنز کی برتری ملنے کے بعد گو کہ وہ ایک مرتبہ پھر 100 رنز سے پہلے 4 وکٹوں سے محروم ہوا لیکن کرس راجرز اور ٹی ٹوئنٹی کپتان جارج بیلی کے درمیان 109 رنز کی شراکت داری نے انگلستان کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو بجھانے کے لیے مزید 'ہوا' فراہم کی۔ کرس راجرز نے 169 گیندوں پر 119 رنز کی یادگار باری کھیلی اور بیلی نے 46 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ دیا البتہ آسٹریلیا کا مڈل آرڈر اس مرتبہ بھی بری طرح ناکام ہوا۔ شین واٹسن، مائیکل کلارک اور اسٹیون اسمتھ دہرے ہندسے سے قبل دھر لیے گئے۔ اس کے باوجود جب آسٹریلیا کی اننگز 276 رنز پر مکمل ہوئی تو انگلستان کو 448 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کا سامنا تھا جو اس کی ایشیز سیریز کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے قابل عبور نہ لگتا تھا۔

انگلش کپتان ایلسٹر کک، جنہوں نے چند ماہ قبل گزشتہ ایشیز سیریز میں فتح کا مزا چکھا تھا، کے لیے دورۂ آسٹریلیا ایک بھیانک خواب ثابت ہوا۔ جہاں سے انہوں نے ایسی یادیں سمیٹیں جنہیں وہ اپنے ذہن سے کھرچ کر نکال دینا چاہیں گے۔ آخری ٹیسٹ کی آخری اننگز میں بھی وہ مچل جانسن کے ہتھے چڑھے اور پھر انگلستان لڑھکتا چلا گیا۔ این بیل 16، کیون پیٹرسن 6، گیری بیلانس 7، جانی بیئرسٹو صفر، بورتھوک 4 رنز سے آگے نہ بڑھ سکے۔ کاربیری کے 43، اسٹوکس کے 32 اور براڈ کے 42 رنز کے علاوہ صرف ایک بلے باز دہرے ہندسے میں پہنچا۔ باقی کسی کو تو یہ توفیق بھی نہ ملی اور پوری ٹیم تیسرے روز 166 رنز پر آؤٹ ہوکر بدترین شکست کھا بیٹھی۔

یہ 2007ء میں رکی پونٹنگ کے بعد کسی بھی آسٹریلوی کپتان کے لیے پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنی ٹیم کو پانچ-صفر سے جتوایا ہو بلکہ ایشیز کی تاریخ میں محض تیسرا موقع تھا کہ آسٹریلیا نے وائٹ واش کیا ہو۔

دونوں اننگز میں 200 رنز کے معمولی سنگ میل تک پہنچنے میں بھی ناکام ہونے والے انگلستان کے سامنے اب کئی سوالات ہیں، جس کے جواب اسے تلاش کرنے ہیں۔ کئی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنا ہے اور چند بہت سخت فیصلے بھی کرنے ہیں۔ گو کہ اگلے چند ماہ تک اس کو ٹیسٹ طرز میں کسی کا سامنا نہیں کرنا لیکن جب سال کے وسط میں وہ سری لنکا کے خلاف طویل طرز کی کرکٹ کھیلے گا تو اس سے قبل اسے بہت کچھ بدلنا ہوگا۔

دوسری جانب آسٹریلیا کے ایسے کھلاڑی بھی اس سیریز میں چلے جنہیں 'چلے ہوئے پرزے' اور 'پرچی' کہا جاتا تھا، اسٹیون اسمتھ اور بریڈ ہیڈن۔ اسمتھ نے سیریز میں 40.87 کے اوسط سے 327 رنز بنائے جس میں دو سنچریاں بھی شامل تھیں جبکہ بریڈ ہیڈن نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ 36 سالہ وکٹ کیپر نے سیریز میں ساتھی کھلاڑی ڈیوڈ وارنر کے بعد سب سے زیادہ رنز بنائے۔ ایک سنچری اور 5 نصف سنچریوں کی بدولت انہوں نے محض 8 اننگز میں 61.62 کے اوسط سے 493 رنز جوڑے اور یوں کسی بھی آسٹریلوی وکٹ کیپر کا سیریز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ اپنے نام کیا جو ایڈم گلکرسٹ نے 2001-02ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں 473 رنز کے ساتھ قائم کیا تھا۔

ان دونوں کھلاڑیوں کے علاوہ اگر کسی کو آسٹریلیا کی فتح کا معمار کہا جا سکتا ہے تو وہ تیز باؤلر مچل جانسن تھے۔ یہ سیریز صرف 'مچ' کو ہی نہیں بلکہ ان تمام افراد کو بھی یاد رہے گی جنہوں نے انہیں باؤلنگ کرواتے ہوئے دیکھا۔ سوئنگ باؤلنگ کے شاندار مظاہرے کے ذریعے انہوں نے صرف 5 مقابلوں میں 13.97 کے اوسط سے 37 وکٹیں حاصل کیں۔

اس تباہ کن سیریز میں انگلستان کے لیے واحد حوصلہ افزا پہلو بین اسٹوکس تھے۔ جنہوں نے سیریز میں انگلش بلے بازوں کی جانب سے بنائی گئی واحد سنچری بھی داغی اور 50.81 کے اوسط سے 279 رنز بنائے اور ساتھ ساتھ 15 وکٹیں بھی حاصل کیں۔

8 وکٹیں حاصل کرنے والے راین ہیرس کو میچ جبکہ سیریز میں 37 کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگانے والے مچل جانسن کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اس تاریخی فتح کے ساتھ آسٹریلیا عالمی درجہ بندی میں بڑی جست لگا کر پانچویں سے تیسری پوزیشن پر آ گیا ہے۔ یعنی انگلستان کو تیسری اور پاکستان کو چوتھی پوزیشن سے محروم ہونا پڑا ہے۔

آسٹریلیا نے ایشیز کا آغاز 101 پوائنٹس اور پانچویں پوزیشن کے ساتھ کیا تھا لیکن کلین سویپ اسے دوسرے نمبر پر موجود بھارت سے محض 6 پوائنٹس کے فاصلے تک لے آیا ہے۔ اگلے ماہ جنوبی افریقہ کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں وہ یہ فرق بھی مٹا کر دوبارہ عالمی نمبر دو بن سکتا ہے۔