جوش کے بجائے سے ہوش سے کام لینے کی ضرورت
بین الاقوامی کرکٹ کونسل کو پیش کردہ حالیہ سفارشات نے دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کو دو گریڈز میں تقسیم کرنے کی تجویز اور اس میں بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان کو دوسرے درجے میں تنزلی سے مستثنیٰ قرار دینے کی تجویز سب سے مضحکہ خیز ہے، جو سراسر دھوکے بازی اور بے ایمانی شمار ہونی چاہیے۔
لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کی سفارشات پیش کرنے کے عوامل کون سے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں ہمیشہ سے آسٹریلیا اور انگلستان کا اثرورسوخ رہا ہے لیکن 90ء کی دہائی میں بھارت، پاکستان اور سری لنکا کی کامیابیوں اور ان ممالک میں کرکٹ کی مقبولیت میں اضافے کے بعد جنوبی ایشیا کے کرکٹ بورڈز معاشی لحاظ سے بھی مضبوط ہوگئے اور آئی سی سی میں ان کا عمل دخل بڑھنے لگے۔ لیکن بھارت معاشی ترقی اور بورڈ کے مالی استحکام کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ وہ اب خود کو آئی سی سی سے بھی بالاتر سمجھنے لگا ہے۔
آسٹریلیا اور انگلستان کے کرکٹ بورڈز انتظامی و مالی دونوں لحاظ سے ہمیشہ مستحکم رہے ہیں اور انہوں نے مقامی کرکٹ کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے بھی خاصا کام کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں کرکٹ کی مقبولیت اور بحیثیت برانڈ مالی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن بی سی سی آئی کی معاشی حالت کی دن بدن بہتری اور کرکٹ کے شائقین کی بہت بڑی تعداد کی بھارت میں موجودگی کی وجہ سے صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ کی کامیابی نے بی سی سی آئی کو کرکٹ سے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیسے کی دوڑ میں ٹیسٹ کرکٹ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ دہشت گردی اور بورڈ کی بدترین انتظامی نااہلیت کی بھینٹ چڑھ گئی، ویسٹ انڈیز کی کرکٹ 90ء کی دہائی سے روبہ زوال ہے، نیوزی لینڈ میں کرکٹ کی مالی قدر و اہمیت میں اضافہ نہیں ہوا، زمبابوے اور بنگلہ دیش کی بین الاقوامی کرکٹ میں طویل عرصے سے موجودگی کے باوجود کارکردگی جوں کی توں ہے، سری لنکا میں بدانتظامی اور کرکٹ معاملات کو چلانے کا غیر پیشہ ورانہ انداز۔ پھر اس صورتحال میں کہ آئی سی سی کی آمدنی کا تقریباً 80 فیصد بھارت سے آ رہا ہے اور دوسرے ممالک کا حال دیکھنے کے بعد آسٹریلیا اور انگلستان مجبور ہوئے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملائیں اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے انتظامی ڈھانچے کی تبدیلی میں بھارتی سفارشات کی حمایت کریں۔
بھارت خواہاں ہے کہ موجودہ انتظام، جس کے تحت آئی سی سی کی آمدنی تمام مستقل اراکین میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کی جاتی ہے، کو تبدیل کیا جائے اور جو جتنا حصہ ڈالے، اسے اتنا حصہ ملنا بھی چاہیے۔ اپنے مالی احسانات جتا کر بھارت چاہتا ہے کہ اس کی آمدنی کا تناسب 4.2 فیصد سے بڑھایا جائے، جو سفارشات کے مطابق بڑھ کر 21 فیصد ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کرکٹ آسٹریلیا اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
اگر کرکٹ کے مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے تو آمدنی کی تقسیم پر بی سی سی آئی کا اعتراض اصولاً درست نظر آتا ہے۔ بھارت میں بورڈ کے معاملات جس طرح چلائے جاتے ہیں، ان کو ذہن میں رکھا جائے تو بی سی سی آئی سے دولت اور سیاسی برتری پر کھیل کو ترجیح دینے کی امید بے جا ہے۔ اس حقیقت کو آسٹریلیا اور انگلستان نے تسلیم کیا ہے اور اگر یہ ممالک اس معاملے پر مزاحمت کرتے تو ان کے اہم کھلاڑی جلد یا بدترین انڈین پریمیئر لیگ کھیلنے کے لیے وقت سے بہت پہلے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑ جاتے۔ دوسری طرف بی سی سی آئی کا ساتھ دینے میں فائدے ہی فائدے ہیں۔ فیوچر ٹورز پروگرام سے جان چھڑانے کے بعد اپنی مرضی کی اور معاشی طور پر فائدہ مند کھیلنے کی آزادی، کرکٹ کلینڈر میں مرضی کی تاریخ متعین کرکے کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں شرکت نہ کرپانے کی دیرینہ شکایات کا بھی ازالہ، بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور پاکستان جیسے ممالک کے خلاف ایک دو ٹیسٹ کھیل کرانہیں فارغ کرنا، بھارت کی مارکیٹ تک بھرپور رسائی جہاںایک روزہ، ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ مقابلوں کے زیادہ سے زیادہ انعقاد کے ذریعے ڈالرز کا من و سلویٰ کی طرح برسنا شامل ہیں۔ غرضیکہ کے بی سی سی آئی کا ساتھ دینے میں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگا۔ کرکٹ کے کھیل کا نقصان ہوگا تو اس کی کیا پروا کہ جیبیں تو گرم ہیں۔
گو کہ اس وقت بھی بین الاقوامی کرکٹ کونسل کا واضح جھکاؤ آسٹریلیا، انگلستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز کی جانب ہے، اور یہ 'مثلث' جو چاہتی ہے وہی ہوتا ہے۔ واضح ثبوت ان ممالک کا ایف ٹی پی پر مکمل طور پر عمل نہ کرنا ہے۔ بنگلہ دیش نے آج تک بھارت میں ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی، آسٹریلیا نے بنگلہ دیش کے خلاف آخری ٹیسٹ سیریزکب کھیلی، مجھے یاد نہیں۔ مئی 2010ء سے لے کر آج تک، یعنی پچھلے تین سے زیادہ سالوں میں پاکستان نے آسٹریلیا سے صرف 2 ٹیسٹ اور 3 ون ڈے میچز کھیلے ہیں جبکہ انگلستان کے خلاف 7 ٹیسٹ اور 9 ون ڈے، بھارت کے خلاف کوئی ٹیسٹ نہیں جبکہ محض 4 ون ڈے میچز کھیلے ہیں۔ جبکہ اسی عرصے کے دوران آسٹریلیا اور انگلستان کے مابین 15 ٹیسٹ اور 27 ایک روزہ ہو چکے ہیں اور اور بھارت اور آسٹریلیا آپس میں 10 ٹیسٹ اور 14 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے کھیل چکے ہیں۔
اس صورتحال کے تناظر میں آسٹریلیا، انگلستان اور بھارت کے علاوہ آئی سی سی کے بقیہ 7 مستقل اراکین، جنوبی افریقہ، پاکستان، سری لنکا، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کے پاس کیا آپشنز بچتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ جذباتی ہوئی بغیر حقائق کو تسلیم کیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ معاشی بالادستی کو قبول کیا جائے۔ جس طرح آسٹریلیا اور انگلستان اصولوں کی بنیاد پر اور اپنے مفادات کو بھی احسن سمجھتے ہوئے بھارت کے ساتھ مل کر آئی سی سی کو کنٹرول کرنے کے منصوبے میں شامل ہوئے بالکل اسی طرح ان ممالک کو بھی معاملے کو باریک بینی سے سمجھ کر اور تجارتی ذہن کے ساتھ ان تینوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اپنی کمزوریوں کو سمجھتے ہوئے اور مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے معاملے کو اس مقام تک پہنچائیں کہ اپنے مفادات کو بھی نقصان نہ پہنچے او ریہ تین ممالک جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ مقصد بھی حاصل ہوجائے یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ گو کہ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈز میں نااہل عہدیداران کی موجودگی میں ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔
درحقیقت بھارت کے عالمی طاقت کی حیثیت سے طلوع ہونے نے کرکٹ کے کھیل کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کردیا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کھیلوں کی دنیا کو پہلی بار ایسی صورتحال کا سامنا ہورہا ہو۔ اس سے قبل 1992ء میں انگلش فٹ بال لیگ کے اولین تین درجوں میں پہلے درجے نے فیصلہ کیا کہ وہ تینوں درجوں کے اوپر 20 ٹیموں پر مشتمل ایک پریمیئر لیگ بنائیں گے، جسے انگلش پریمیئر لیگ کا نام دیا گیا۔ یہ فیصلہ انگلش لیگ کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا لیکن انہوں نے پریمیئر لیگ سے گفت و شنید ان اصولوں اور شرائط پر کی کہ انگلش پریمیئر لیگ کا قیام میں بھی رکاوٹ نہ پیدا ہو اور اس خاص لیگ کے قیام سے زیادہ سے زیادہ فوائد بھی اٹھائے جا سکیں۔ آج انگلش لیگ اور انگلش پریمیئر لیگ دونوں آزاد تنظیموں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
کرکٹ شائقین کو بھارت سے تو بالکل توقعات نہیں، ایسا سوچنا بھی فضول ہے لیکن آسٹریلیا اور انگلستان کے کرکٹ بورڈز سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ کم از کم کرکٹ کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی منصوبے میں حصہ دار نہیں بنیں گے، کیونکہ اگر بحیثیت پروڈکٹ کرکٹ کو نقصان پہنچ گیا تو کسی کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔