دنیائے کرکٹ پر بھارت، آسٹریلیا اور انگلستان کے قبضے کا خطرہ
چند روز قبل جب بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ٹیسٹ کرکٹ کو 'ترقی' و 'تنزلی' کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بات کی تھی تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ ایک تو 2017ء میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا انعقاد خواب بننے والا ہے اور دوسرا کوئی بڑی بلکہ بری خبر سامنے آنے والی ہے، اور آج ٹیسٹ کرکٹ کے لیے 'موت کے پروانے' کے انکشاف نے اس خدشے کو درست ثابت کردیا۔
معروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق کے رکن ممالک اس وقت ایسی سفارشات پر غور کررہے ہیں جو کرکٹ کے تمام معاملات تین بڑی قوتوں آسٹریلیا، انگلستان اور بھارت کے ہاتھوں میں دے دیں گے۔ یعنی کارکردگی کے لحاظ سے چاہے ان تینوں ممالک کی حالت جو بھی ہوجائے، مالی طور پر مضبوط ہونے کی وجہ سے کرکٹ کے آئینی و ترقیاتی سمیت تمام پہلوؤں پر انہی ممالک کی گرفت ہوگی اور سفارشات مرتب کرنے سے لے کر ان پر عملدرآمد تک سب کچھ انہی کے ہاتھوں سے ہوگا۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے مالیاتی و تجارتی امور کی کمیٹی کے ایک "ورکنگ گروپ" کی جانب سے پیش کردہ یہ سفارشات کرکٹ کے عالمی انتظام کو چلانے کے لیے بنیادی ڈھانچے میں جامع تبدیلیوں کی تجاويز پیش کرتی ہیں۔ سفارشات پر مشتمل ایک دستاویز رواں ماہ کے اوائل میں دبئی میں خصوصی بورڈ اجلاس میں تمام رکن ممالک کو فراہم کی گئی تھی جس میں فیصلہ سازی کے اہم اختیارات بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کے ہاتھوں میں دینے ، فیوچر ٹورز پروگرام (ایف ٹی پی) ختم کرنے اور تمام ممالک کو اپنے مالی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی مقابلے طے کرنے کی خطرناک تجاويز دی گئی ہیں۔ ان سفارشات پر رواں ماہ کے آخر میں دبئی میں طے شدہ آئی سی سی کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں غور کیا جائے گا۔
سفارشات میں ایگزیکٹو کمیٹی نامی ایک چار رکنی گروپ کے قیام کی تجویز بھی شامل ہے جو آئی سی سی کی کمیٹیوں اور ایگزیکٹو بورڈز کے درمیان کام کرے گا۔یہ گروپ رکن ممالک کے بورڈز سربراہان پر مشتمل ہوگا لیکن اس کے مستقل اراکین صرف تین ہوں گے۔ جی ہاں! آپ کا اندازہ بالکل ٹھیک ہے یہ مستقل اراکین آسٹریلیا، انگلستان اور بھارت ہی ہوں گے، جو ہر سال باری باری چیئرمین شپ کا عہدہ سنبھالیں گے جبکہ چوتھا رکن آئی سی سی کا ایگزیکٹو بورڈ نامزد کرے گا اور یہ بقیہ سات اراکین میں سے چنا جائے گا۔ اگر یہ تجویز منظور کرلی گئی تو ایگزیکٹو کمیٹی کرکٹ کے تمام معاملات میں سفارشات پیش کرنے والی واحد کمیٹی بن جائے گی یعنی جو یہ تین ممالک چاہیں گے، اسی کی سفارش کریں گے، باقی معاملات پس پشت ڈال دیے جائیں گے۔
بالخصوص آئی سی سی کے انتظامی و مالی معاملات میں بھی ایسی تجاویز دی گئی ہیں جو اسی 'مثلث' کے فائدے میں ہوں اور نئے مجوزہ فنڈنگ ماڈل میں آمدنی کی تقسیم میں بھی سب سے زیادہ فائدہ یہی تینوں ممالک اٹھائیں گے۔ پھر صرف مالی و انتظامی نہیں بلکہ تمام ہی معاملات میں ان تینوں ممالک کو فوقیت دی گئی ہے جیسا کہ ٹیسٹ کی عالمی درجہ بندی میں 'ترقی و تنزلی' کے نئے مجوزہ معیارات پر یہ سفارش کی گئی ہے کہ بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کو تنزلی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مالی لحاظ سے یہ تینوں بہت منافع بخش مارکیٹ ہیں۔اس کے جواب میں تو یہی کہا جا سکتا ہےکہ باقی ممالک اب کرکٹ چھوڑ کر فٹ بال کھیلیں اور 'شرفاء کا کھیل' انہی کے لیے ہو جنہیں ایشیز، گاوسکر-بارڈر ٹرافی اور ہند-انگلستان مقابلے دیکھنے کا شوق ہو۔
سفارشات میں فیوچر ٹورز پروگرام، جس کے تحت تمام رکن ممالک ایک مخصوص عرصے کے دوران ایک دوسرے کے ممالک کے دورے کرنے کے پابند ہیں، کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے اور تجويز دی گئی ہے کہ رکن ممالک باہمی رضامندی کے ذریعے جن ممالک سے جب کھیلنا چاہیں، اسے ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے ، اور انہیں غیر منافع بخش مقابلوں میں نہ گھسیٹا جائے۔ یعنی دو ممالک کے درمیان سیریز طے کرنے کے لیے آئی سی سی کا کوئی کردار نہ ہو بلکہ وہ اس معاملے میں مکمل طور پر آزاد ہوں۔ یعنی بنگلہ دیش اور زمبابوے تو درکنار اب پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک بھی تیار ہوجائیں کہ ان کے سال بھر کے ٹیسٹ میچز کی تعداد 5 سے گھٹ کر اب ایک یا دو ہی رہ جائے گی۔
علاوہ ازیں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کی جگہ ایک روزہ چیمپئنز ٹرافی کو دوبارہ بحال کرنے کی تجویز بھی ان سفارشات میں شامل ہے ، جس سے واضح نظر آتا ہے کہ خود کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں کی نظر میں ٹیسٹ کرکٹ کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ۔ نشریات کاروں کا بہانہ بنا کر 2013ء میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ منعقد نہ کی گئی بلکہ اسے 4 سال تک موخر کردیا گیا اور اب جبکہ بار بار بیانات دے کر انعقاد کی یقین دہانی کروائی گئی، اب یہ سفارشات سامنے آ گئی ہیں۔
اس سفارشات کا ہر ہر پہلو دنیائے کرکٹ پر آسٹریلیا، بھارت اور انگلستان کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے دکھائی دیتا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ تینوں "سرفہرست" ممالک کرکٹ کو پیسے بنانے کی فیکٹری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اور اس کا تمام تر فائدہ بھی صرف خود اٹھانا چاہتے ہیں اور اپنی مالی قوت کے بل بوتے پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتے ہیں۔
گو کہ سفارشات کی منظوری آئی سی سی کے رکن ممالک کے ہاتھ میں ہے، جو بظاہر اور فی الوقت تو مشکل دکھائی دیتی ہے، لیکن ان تینوں ممالک کے مالی اثرورسوخ کو دیکھتے ہوئے بعید بھی نہیں کہ کثرت رائے سے یہ سفارشات منظور کرلی جائے اور یوں کرکٹ کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہوجائے۔